حکومت کے دن گنے جا سکتے ہیں


موجودہ حکومت میں گزرے آٹھ ماہ میں مملکت خداداد کی صورت روز بروز بگڑتی جا رہی ہے۔ کار مملکت ٹھپ پڑے ہیں، کچھ کام نہیں ہو رہا۔ ہر وزیر مشیر اپنا کام چھوڑے دوسرے کے کام یا پھر بالکل ہی لا یعنی مشغلے میں مصروف۔ کوئی سورج اس وقت تک نہیں ڈھلتا، جب تک جان بوجھ کر حکومتی کار پردازان کہیں سینگ پھنسا نہ لیں۔ اسی انتشار کے سبب محکموں اور وزارتوں کی کارکردگی روبہ زوال ہے۔ ریلوے کی وزارت جس کی کارکردگی بہتری کی جانب گامزن تھی، وہ تیزی سے تنزلی کی ڈھلوان پر لڑھک رہی ہے۔

ٹرانسپورٹ کی تمام اصناف خواہ۔ ٹرین ہو یا روڈ، فضائی ہو یا بحری۔ ترقی اور منافع کا دار و مدار مسافروں کے اعتماد پر منحصر ہے۔ بھروسا اور اعتماد تعداد کے بجائے معیار اور وقت کی پابندی سے ملتا ہے۔ کبھی خبر چلتی ہے، فلاں روٹ پر ٹرین چلانے کا اعلان کر دیا۔ حالانکہ پہلے سے چلتی ٹرینیں ایک مرتبہ پھر تاخیر سے آ جا رہی ہیں۔ ریلوے کے وزیر اس کی فکر کے بجائے ہمہ وقت مخالفین کے خلاف مورچہ زن نظر آتے ہیں۔ امن و امان کی حالت آئیڈیل تو شاید یہاں کبھی نہ تھی، تاہم اس میں بہتری نظر آنے لگی تھی۔

بد قسمتی سے اب ریورس گیئر یہاں بھی لگ چکا۔ اسٹریٹ کرائمز، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری پھر بڑھنے لگی ہے۔ وزارت داخلہ خود وزیراعظم کے پاس ہے اور ان کا سارا وقت بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ میں صرف ہوتا ہے۔ اقتدار میں آنے سے قبل جناب عمران خان صاحب فرمایا کرتے تھے، وہ ملک بھر میں پولیس ریفارمز کی کوشش کریں گے۔ خاص طور پر پنجاب پر ان کا بہت فوکس تھا۔ کہا کرتے تھے، پنجاب پولیس حکمرانوں کی ذاتی خدمت گار اور ان کے مفادات کی نگہبان ہے۔

اس پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنا اولین ترجیح ہو گی۔ خیبر پختونخواہ کی پولیس کے بہت گن گائے گئے، اور اسے رول ماڈل ٹھہرا کر پنجاب پولیس میں بہتری کا عزم ظاہر کیا گیا۔ سابق آئی جی خیبر پختون ناصر درانی کو یہ ٹاسک سونپا گیا۔ سیاسی مداخلت ہی کے باعث ریفارم لانے والے اپنی ذمہ داری سے مستعفی ہو گئے لیکن پلٹ کر کسی نے خبر تک نہ لی۔ ٹیکنالوجی کی بہتات اور زمانے کے ارتقا کے باعث جرائم کے طریقہ میں بھی جدت آ گئی۔

تمام صوبوں کی پولیس میں اب تک نظام کہنہ رائج اور اس کے اہلکار جدید ٹیکنالوجی سے مکمل نا بلد ہیں۔ پولیس محکمے میں استعداد ہی نہیں کہ جرائم کی تیز اور درست تفتیش کر سکے۔ ایک سول محکمے ایف آئی اے کے پاس یہ صلاحیت کسی حد تک تھی مگر، اسے انقلابی حکومت نے سیاسی مقدمات تک محدود رکھا ہوا ہے۔ جبکہ پولیس میں اصلاحات کے نام پر اب تک وردی بدلنے کا ہی اعلان ہوا ہے۔

حیرت ہے ہر معاملے پر بڑھ چڑھ کر گفتگو کرنے والوں کو یہ علم نہیں تھا ہمارا نظام کس قدر گنجلک ہے۔ یہاں ہر کام میں کتنی رخنہ اندازی اور کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اب کبھی خاتون اول یہ احساس دلاتی ہیں کہ آپ وزیراعظم ہیں تو گاہے خود یہ انکشاف ہوتا ہے کہ بیورو کریسی بے مہار گھوڑا ہے۔ جو حکومت سے بھی کہیں زیادہ طاقت کا حامل ہے۔ تازہ بیان سماعت فرمائیں، سرکاری ادارے اپنی زمینوں کا ریکارڈ تک حکومت کو فراہم کرنے پر تیار نہیں۔

سمجھ نہیں آتا بے بسی کا یہ عالم ہے تو مختاری کی تہمت گلے سے کیوں چپکائے پھرتے ہیں؟ تحریک انصاف کے منشور کا بنیادی جز ریاست کو مدینہ کے سانچے میں ڈھالنا بھی تھا۔ ریاست مدینہ میں حاصل انسانی حقوق آج کی آئیڈیل فلاحی ریاستوں سے بھی بہت زیادہ تھے۔ ہمارے آئین میں جو بنیادی حقوق موجود ہیں ان پر ہی اگر عمل ہو جائے تو بڑی بات ہو گی۔

صحت اور تعلیم اس ریاست کی کبھی ترجیح میں شامل ہی نہیں رہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد عذر بھی مل چکا کہ یہ صوبائی معاملہ ہے۔ غریب کو علاج کی سہولت اور تعلیم فراہمی بہر حال آئینی ذمہ داری ہے اور اس سے فرار ممکن نہیں۔ اب تک صحت کے شعبے میں پرائے منصوبوں پر اپنا لیبل لگانے کے سوا موجودہ دور میں کیا کام ہوا؟ با ایں ہمہ یکساں نصاب تعلیم کا وعدہ بھی ہنوز تشنہ۔ اطلاعات کے وزیر کی اس ضمن میں در فطنی ملاحضہ فرمائیں۔ کہتے ہیں مدارس کا نصاب امریکا کا تیار کردہ ہے۔ ہر با شعور حکومتی بزر جمہران کی قابلیت، علم اور کارکردگی کا خود اندازہ لگا سکتا ہے۔

کرپشن کے نام پر کتنی بڑھکیں لگیں۔ اقتدار ملنے کے بعد بد عنوانی اور رشوت ستانی کے خاتمے کے لیے کیا قانون سازی ہوئی یا کتنا لوٹا پیسہ واگزار ہوا؟ عملی اقدامات کے بجائے اب تک وہی چلن جو اپوزیشن کے دنوں اور کنٹینر پر بسیرے کے دوران ہوا کرتا تھا۔ الٹا اسی کرپشن کرپشن کے ورد کے باعث ایسی خوف کی فضا بنی ہے کہ بیورو کریسی اپنا کام مکمل چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ جس بے رحمی سے احتساب کے نام پر اندھا دھند لٹھ چلی ہے کوئی افسر فائل پر دستخط کرنے کو راضی نہیں۔ کاروبار پر حالیہ جمود کی بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ ایک کروڑ نئی ملازمتوں کا وعدہ کیا وفا ہونا تھا، کاروباری مندی کے باعث پہلے سے بر سر روزگار افراد کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔

اسد عمر جو معیشیت کو بزم اطفال سمجھتے تھے، واضح ہو چکا اس کی ابجد سے کتنے واقف ہیں۔ روپیہ اس قلیل مدت میں چالیس فیصد قدر کھو چکا۔ افراط زر کی شرح دگنی ہو چکی۔ شرح سود تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اقتصادی گروتھ ریٹ نصف گر کر آبادی کے اضافے کے برابر، یعنی عملا اب بالکل صفر ہے۔ جو واویلا کرتے تھے مشرف دور میں چھ ہزار ارب قرض تھا جو پی پی نے چودہ ہزار ارب پر لے گئی۔ ن لیگ نے لوٹ کھسوٹ کر اسے چوبیس ہزار ارب پر پہنچا کر دم لیا۔

ان سے جواب مانگا جائے اب سات آٹھ ماہ میں یہ بڑھ کر اکتیس ہزار ارب تک کیسے پہنچا؟ اس رقم میں بھی وہ قرضہ شامل نہیں جس کے حصول کی خاطر آئی ایم ایف کے در پر ناک سے لکیریں نکالی جا رہی ہیں۔ انہیں زبانوں سے ارشاد سنتے تھے، بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات میں اضافہ عوام پر ڈاکا ہے۔ آج اپنے اس فعل پر ندامت کے بجائے اس کا دوش بھی پچھلوں کے ذمہ ہے۔ خالی خزانہ بھرنے کے نام پر غریب عوام پر ٹیکسز کی بھرمار ہے۔

کہاں گئے چھ آٹھ ہزار ارب جو باہر سے آنے تھے، ڈھائی سو ارب ڈالرز کی لوٹی جائیداد جو واگزار ہونا تھی اور وہ بارہ ارب ڈالر جو منی لانڈرنگ کے ذریعے سالانہ باہر جاتے تھے۔ جن کی اڑان روک کر آئی ایم ایف کو خیرباد کہنا اور ادائیگیوں میں توازن لانا تھا۔ یہ سب بھلا کر اسد عمر صاحب، بلاول کی انگریزی اور ان کی ذات کے بارے ابہام ختم کرنے کی سعی میں مصروف۔ حماد اظہر صاحب کو یہ فکر کہ نواز شریف ضمانت پر کیوں مصر ہیں۔

مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینے میں مصروف، یا کبھی ایسا ایک بیان دے دیتے ہیں جس سے توجہ ان کی ذات سے ہٹ کر دیگر سمت مڑ جائے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل، کالعدم تنظیموں کے معاملے اور فوجی عدالتوں میں توسیع کے عمل میں حکومت اپوزیشن کی متحاج ہے اور اپوزیشن تعاون بر بالکل آمادہ نظر نہیں آتی۔ آنے والے دنوں بجٹ منظوری بھی درپیش ہو گی، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بجٹ کیسا ہوگا اور حکومت کے لیے اسے منظور کرانا کتنا جان جوکھم کا کام۔ شعلہ فشانیوں پر زور رہا تو زیادہ سے زیادہ اگست تک عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور حکومت کے دن پھر گنے بھی جا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).