شراب، رقاصہ اور پرہیز گار نوجوان


سر پینا چاہتے ہوں تو آپ کے لئے کچھ لاؤں۔ جٹ نے میری طرف جھکتے ہوئے کہا۔ میں ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔ رات کے دس بجے تھے۔ حویلی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی۔ ہم لان میں تھے جہاں ایک بڑی سی کینوپی لگا کر چھت فراہم کی گئی تھی لیکن سائیڈیں خالی چھوڑ دی گئی تھیں کیونکہ موسم کچھ گرم تھا۔ سامنے سٹیج تھا اور اس کے آگے کچھ حصہ خالی چھوڑنے کے بعد ریسٹورانٹ سٹائل میں میزیں لگائی گئی تھیں۔ ہر میز کے گرد آٹھ آٹھ کرسیاں لگی تھیں۔ اسٹیج کی ایک سائیڈ میوزک سے وابستہ لوگوں کے لئے مخصوص تھی۔ سازندے موجود تھے ایک گلوکار مدھرآواز میں نئے فلمی گانے گا رہا تھا۔ اس وقت تک تقریباً سب مہمان آ چکے تھے لیکن ابھی چند کرسیاں خالی پڑی تھیں۔

اس کینوپی سے ملحق ایک قدرے چھوٹی کینوپی کھانے کے لئے لگائی گئی تھی۔ جس سے کچھ فاصلے پر دیگیں بڑے بڑے چولہوں پر تھیں۔ کھانا بنانے والے پوری تندہی سے اپنے کام میں مصروف تھے۔ یہ فنکشن میرے ایک شاگرد اسامہ جٹ کے بڑے بھائی کی شادی کے سلسلے میں تھا۔ مہندی کی رات تھی اور میں ایک قریبی دوست شامی کے ساتھ دو سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے سیالکوٹ کے اس نواحی گاؤں میں پہنچا تھا کیونکہ میں جٹ کے محبت آمیز اصرار پر انکار نہ کر پایا تھا۔

جٹ نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا تھا اور اب اس کی پیشکش بھی شاید مہمانداری کا تقاضا تھی۔ ”بھئی یوں تو آبِ سادہ سے بھی کام چل جائے گا لیکن کوک ہو جائے تو بہتر ہے۔ “ میں نے بلا تکلف جواب دیا۔ ”اور میرے لئے سپرائٹ۔ “ شامی صاحب نے اضافہ کیا۔ جٹ خواہ مخواہ مسکرانے لگا پھر ذرا رک کر بولا۔ ”سر آپ نے میرا سوال تو گول ہی کر دیا۔ میں آپ سے پینے کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ “ وہ ذرا اور نزدیک ہوا اور دبی ہوئی آواز میں بولا۔ ”اس کونے میں آپ جو دو میزیں دیکھ رہے ہیں وہاں بیٹھے افراد جو کوکا کولا پی رہے ہیں اسے ففٹی ففٹی سمجھئیے۔ “

”کیا مطلب؟ “ میں نے حیرت ظاہر کی۔ ”سر مطلب یہ کہ آدھی کوک اور آدھی وہسکی ویسے ووڈکا بھی دستیاب ہے۔ “ جٹ نے وضاحت کی۔ اس کی بات سن کر ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے با ریش نوجوان کے کان کھڑے ہو گئے۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ ہماری باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا۔

”یہ کیا کہہ رہے ہو کیا یہ بات تمہارے ابا جان کے علم میں ہے؟ “ میں نے چونک کر کہا۔ ”سر آپ کیسی بات کر رہے ہیں، وہ یہاں کے ایک بڑے زمیندار ہیں اور یار دوست بھی رکھتے ہیں، ہر طرح کا انتظام تو کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو سٹارٹر ہے اصل دیسی مال حویلی میں ہے جس سے خاص لوگ لظف اندوز ہو سکتے ہیں۔ آپ بھی ہمارے خاص مہمان ہیں۔ “ جٹ حیران کرنے پر تلا تھا۔

”بھئی ہم تو دیسی اور ولایتی دونوں سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہمارے لئے کوک اور سپرائٹ ہی بھجوا دو، سو فیصد والی۔ “ میں نے کہا۔ ”ٹھیک ہے سر آپ کی مرضی۔ ویسے آج خوشبو بھی آئے گی۔ تھوڑا لیٹ ہو گئی ہے اس وقت تک تو اسے آ جانا چاہیے تھا۔ “

”خوشبوئیں تو یہاں طرح طرح کی ہیں مجھے تو خیر کھانے کی خوشبو سب سے زیادہ پسند ہے۔ تم کس خوشبو کی بات کر رہے ہو؟ “

”ابھرتی ہوئی ڈانسر ہے سر۔ یہاں کی تقریبات اس کے بغیر نامکمل ہوتی ہیں۔ “ جٹ نے وضاحت کی پھر وہ ویٹر کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ ویٹر فوراً ہمارے لئے کولڈ ڈرنکس لے آیا۔

ہمارے ساتھ بیٹھے نوجوان نے بھی کوک کا گلاس پسند کیا۔ اس میز پر ہم تین ہی موجود تھے۔ میں نے اس سے بات چیت شروع کر دی۔ اس کا نام زاہد تھا اور وہ جٹ فیملی کے اقربا میں سے تھا۔ گفتگو میں تھوڑی بے تلکفی پیدا ہوئی تو اچانک زاہد نے کہا۔ ”میں نے آپ کی باتیں سن لی تھیں اور میں حیران ہوں کہ اچھے خاصے معقول لوگ پارٹیوں میں ام الخبائث کو کیوں شامل کر لیتے ہیں۔ “

”جی میں کچھ سمجھا نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ “ میں نے کہا۔

”اجی جانے دیجئے آپ خوب سمجھتے ہیں۔ دراصل میں اس چیز کا نام بھی زبان پر نہیں لانا چاہتا۔ میں سمجھتا ہوں اس کے ذکر سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔ “ زاہد نے منہ بناتے ہوئے کہا۔

”اچھا تو آپ شراب کی بات کر رہے ہیں۔ “ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ”جی ہاں“ زاہد نے ایسے منہ بنایا جیسے منہ میں کڑواہٹ گھل گئی ہو۔

”جناب آپ کو پسند نہیں تو آپ اس سے اجتناب کیجئے لیکن اگر کوئی اس سے شغف رکھتا ہے تو اس میں آپ کا کیا جاتا ہے۔ “ شامی صاحب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ زاہد کا چہرہ تمتمانے لگا۔

”یہ آپ نے کیا کہا۔ اگر کوئی راستے سے بھٹک جائے تو اسے سیدھی راہ دکھانا کیا ہماری ذمہ داری نہیں۔ حضرت ہمیں یوں آنکھیں بند کرلینے کے بجائے معاشرے کے سدھار کی کوششیں کرنی چاہییں۔ “

اس کے بعد زاہد نے ایسی ایمان افروز تقریر کی کہ ہم دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے دوام پر غور کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ فی الفور یہ رنگ ونور کی محفل چھوڑ کر باقی عمر زہد و تقویٰ میں گزار دیں لیکن عمل کی نوبت سے پہلے ہی کھانے کا اعلان ہو گیا اور ہم دنیا دار انواع و اقسام کے کھانوں کی لذت میں کھو گئے۔ کھانے کے بعد مہندی کا فنکشن شروع ہوا۔ اسی دوران زاہد کا ایک دوست امجد بھی ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ چکا تھا۔ مہندی کی رسم ادا ہوئی تو کئی لڑکے میوزک کے ساتھ ڈانس کرنے لگے۔

جٹ ایک بار پھر ہماری طرف آیا کھانے وغیرہ کا پوچھنے کے بعد بولا۔ ”سر اندر دیسی چل رہی ہے۔ “

”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے اور کچھ؟ “ میں نے جلدی سے کہا۔

”سر خوشبو آ گئی ہے۔ ابھی محفل میں رنگ جمے گا۔ “ وہ یہ بتا کر چلا گیا۔ زاہد نے اس کی باتیں سن لی تھیں۔

”دیکھا جناب آپ نے ملاحظہ کیا۔ کوئی شرم و حیا ہے ان لوگوں میں۔ اند جا کر دیسی شراب پی رہے ہیں۔ توبہ توبہ! ایک حرام چیز ہے اور یہ بد بخت اسے شربتِ روح افزا کی طرح پیتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں ایسے لوگوں کو۔ “ زاہد کی بات درمیان میں رہ گئی کیونکہ بالآخر خوشبو جلوہ گر ہو گئی تھی۔ دوسرے لوگوں کی طرح زاہد کی توجہ بھی اس کی طرف ہوئی تو وہ تقریر بھول کر اسے دیکھے لگا۔

خوشبو نے رقص شروع کیا تو منچلے نوجوان دیوانہ وار نوٹ نچھاور کرنے لگے واقعی وہ بلا کی رقاصہ تھی۔ اس کی عمر پچیس چھبیس سے زیادہ نہ تھی۔ بدن اتنا لچکدار تھا جیسے ربڑ کا بنا ہو۔ خوش شکل بھی تھی اور رجھانے کا سلیقہ بھی رکھتی تھی۔ امجد زاہد کو کچھ بتا رہا تھا۔ میرے کان میں آواز پڑی تو پتا چلا کہ خوشبو کے بارے میں بات کر رہا تھا، اس کی گفتگو کا لبِ لباب یہ تھا کہ خوشبو پیسے کے عوض کسی کی بھی خلوت رنگین بنا سکتی ہے اور وہ بھی نہایت مناسب ریٹ پر۔

زاہد عدم دلچسپی سے یہ باتیں سن رہا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ امجد ایک پرہیز گار نوجوان کو کیا سنا رہا ہے۔ کہیں وہ خوشبو کو ابھی اسی محفل میں سدھارنے کا ارادہ نہ کر لے۔ پھر کیا ہو گا؟

زاہد کرسی سے اٹھا تو میں چونک اٹھا۔ ”خیریت جناب کدھر جا رہے ہیں؟ “ میں نے فوراً پوچھا۔ ”کمال کرتے ہیں حضور آپ بھی، اب کیا بندہ واش روم بھی نہیں جا سکتا۔ “ زاہد نے جواب دیا اور میں سر ہلا کر رہ گیا۔ خوشبو بھی رقص کر کے تھک چکی تھی۔ اس نے اسٹیج چھوڑا تو آہستہ آہستہ لوگ بھی رخصت ہونے لگے۔ ہم نے بھی واپسی کی ٹھانی۔ ہمارا قیام ایک دوست کے ہاں تھا۔ میں اور شامی صاحب پارکنگ میں پہنچے تو ہماری سوک کے آگے ایک کرولا کھڑی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ جب ہم آئے تھے تو اس گاڑی میں سے زاہد باہر نکلا تھا۔ گاڑی سٹارٹ کی جا رہی تھی گویا وہ صالح نوجوان بھی جا رہا تھا۔ گاڑی مڑی اور ہمارے پاس سے گزرتی چلی گئی۔ میری آنکھوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیونکہ میں نے اس کی فرنٹ سیٹ پر زاہد کے ساتھ خوشبو کو بیٹھے دیکھا تھا۔

”کیا واقعی اس گاڑی میں خوشبو گئی ہے؟ “ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ ”تو اور کیا وہی تھی، لگتا ہے زاہد صاحب اس خوشبو سے مہکنا چاہتے ہیں۔ “ شامی صاحب نے تبصرہ کیا۔ میں جواب میں کچھ نہ کہہ سکا۔ کچھ کہنے کے لئے میرے پاس لفظ ہی نہیں تھے۔ میں چپ چاپ گاڑی بیٹھ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).