مونے کے واٹر للیز۔ پیرس کی آرٹ گیلری، ایک طلسم کدہ


اور آج دن تھا، مونے دیکھنے کا۔ بہت سال پہلے میں مونے کی محبت میں گرفتار ہوئی۔ مونے کے بنائے ہوئے پانی میں تیرتے ہوئے للیز، کنارے پہ جھکے درخت اور ان کا عکس۔

میں جب بھی کسی ملک جاتی ہوں چاہے میڈیکل کانفرنس میں جاؤں یا گھر والوں کے ساتھ۔ وہاں کی آرٹ گیلیریز جانا اور وہاں گھنٹوں بتانا ایک ایسا شوق ہے جو کبھی کم نہیں ہوا۔

شروع میں صاحب بہت حیران ہوتے کہ ذات کی عورت، پیشے سے ڈاکٹر اور یہ مصوروں، مجسمہ سازوں، موسیقاروں، گلوکاروں، شاعروں اور ادیبوں سے محبت۔ کچھ نچلے درجے کا سا مزاج پایا ہے۔ خیر، اب اتنے سالوں بعد ان کو عادت پڑ چکی ہے ہمارے اس شوق کے ساتھ نباہ کرنے کی۔

میڈیکل کانفرنس میں ساتھ والے دوست بہت سوال کرتے کہ آخر ٹکٹ لے کے فضول مجسمے اور تصویریں دیکھنے کی کیا ضرورت۔ ان پیسوں سے اچھی سی شاپنگ ہوسکتی ہے یا مزے کا کھانا کھایا جا سکتا ہے۔

اب ان سب کو کون سمجھائے کہ سارنگی کے درد آمیز سر، طبلے کی لے، بانسری کی کوک جب دل کے ساز سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو روح کی پرواز جن آسمانوں پہ ہوتی ہے وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح رنگ جب باتیں کرتے ہیں تو باتوں سے تو خوشبو آتی ہی ہے، سننے والے بھی رنگوں کی برسات میں بھیگ بھیگ جاتے ہیں۔

ان ہی آرٹ گیلریوں کی یاترا میں مونے سے آشنائی ہوئی اور محبت میں بدل گئی۔ کچھ سال پہلے ہم شکاگو کی آرٹ گیلری میں تھے اور مونے کی فطرت سے محبت کو سراہتے ہوئے تصویریں لے رہے تھے۔ کسی زمانے میں آرٹ گیلری اور میوزیم میں کیمرہ لے جانا منع ہوتا تھا۔ کیمرے والا بیگ دروازے پہ ہی رکھوا لیا جاتا۔ خدا بھلا کرے، ان سب کیمرہ لگے موبائل فونز کا کہ اب یہ پابندی اٹھائی جا چکی ہے کہ کس کس کو روکتے اور کیسے روکتے۔ سو اب دل بھر کے تصویریں بنائیے اور ہر رخ سے بنائیے۔ ہم نے اپنی لی ہوئی تصویریں اپنے بیٹے کے آرٹ کے استاد کو دکھائیں اور ہماری فرمائش پہ اس نے مونے کی بنائی ہوئی بے نظیر تصویر کو نقل کیا۔ اس طرح مونے ہمارے گھر میں بھی داخل ہو گیا۔

کلاڈ مونے ایک فرانسیسی مصور تھا جو پیرس میں 1840 میں پیدا ہوا۔ اس کی بنائی ہوئی ایک پینٹنگ سن رائز نے آرٹ میں امپریشنسٹ نام کی تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ اس تحریک میں شامل مصوروں نے روشنی اور فطرت کے مختلف انداز تخلیق کیے۔

مونے کی بہت آرزو تھی کہ وہ ایک سیریز کی تصویریں بنائے جس میں ایک ہی منظر کو بار بار پینٹ کیا جائے، مختلف اوقات، مختلف موسم، مختلف ادوار اور مختلف موڈ کے ساتھ۔

بیسویں صدی کے آغاز میں وہ پیرس کے باہر جیورنی نامی جگہ پہ منتقل ہوا، گھر خریدا اور اس گھر کے باغ اور تالاب کنارے اگلے بیس برس وہ شہرہ آفاق تصویریں بنائی گئیں جنہیں آج واٹر للیز سیریز کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ گہرا نیلا پانی، مختلف رنگ اور سائز کے للیز تیرتے ہوئے، کنارے کے درخت اور ان کا منعکس ہوتا ہوا عکس۔ کیا کہیں سوائے اس کے ”ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ“

مونے نے اپنے گھر کے باغیچے اور تالاب کو ڈھائی سو مرتبہ پینٹ کر کے ایک تصویروں کی ایک ایسی سیریز تخلیق کی جو Nympheas کہلاتی ہے۔ گو کہ سب تصویریں ملتی جلتی ہیں کہ ایک ہی منظر ہے مگر ہر تصویر کے رنگوں، روشنی اور منظر میں اتنا تنوع ہے جو دیکھنے والے کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے۔

مونے کی تصویریں دنیا بھر کی آرٹ گیلریوں میں پھیلی ہوئی ہیں مگر اس کی واٹر للیز پینٹنگز کا سب سے بڑا مجموعہ پیرس کی ایک آرٹ گیلری کے پاس ہے جہاں مونے کے بیٹے نے ان تصویروں کو عطیہ کیا۔ آرٹ گیلری ہے یا کوئی طلسم کدہ، جو دیکھنے والوں کو سانس نہیں لینے دیتا۔

مونے نے للیز کے تھیم پہ ہی آٹھ بڑے میورلز بھی بنائے۔ اس کی خواہش تھی کہ یہ میورلز دن کی روشنی میں دیکھے جائیں۔ فرانس کی حکومت کے ایما پہ دریائے سین کے کنارے واقع اورینجری میوزیم نے دو بہت بڑے انڈے کی شکل کے کمرے تعمیر کروائے جن کی چھت شیشے کی تھی۔ مونے نے میوزیم سے یہ معاہدہ کیا کہ یہ تصویریں اس کی وفات کے بعد میوزیم میں نصب کی جائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔ میوزیم انیس سو ستائیس میں عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

اور اب ہم پیرس میں تھے، اورینجری میوزیم جا رہے تھے۔ جب داخل ہوئے تو ٹکٹ کی کھڑکی کے سامنے لوگ قطار بنائے کھڑے تھے۔ ٹکٹ خریدے گئے، کوٹ اور بیگ استقبالیہ پہ جمع کروائے۔ اور اس طرف چل پڑے جہاں لوگ جوق در جوق جا رہے تھے۔

ایک ہال نما کمرہ، دن کی روشنی سے بھرا ہوا، گول دیواریں اور کمرے کے درمیان میں رکھے بنچ۔ چاروں دیواروں پہ بہت بڑے میورل چسپاں۔ ہر میورل کا بنیاوی تھیم للیز لیکن ہر کسی میں مختلف رنگوں کی آمیزش، للیز تیرتے ہوئے، کہیں پانی کے اوپر، کہیں نیچے، پانی کہیں ہلکا نیلا، کہیں گہرا نیلا، سبزہ ہلکا اور پھر گہرا، گلابی، سفید اور پیلے للیز کی بہار۔

ہم درمیان میں بنی نبچ پر بیٹھ گئے۔ میں اور للیز دونوں ایک دوسرے کو تکتے تھے اور مسکراتے تھے۔ فطرت سے ہمکلامی کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔

دوسر ا کمرہ بھی بالکل پہلے کی طرح، چاروں دیواروں پہ چار بڑے میورلز، مستطیل شکل میں۔ چھت سے روشنی کی کرنیں چھن چھن کے نیچے آتی ہوئیں، بیلیں اور درخت پانی پہ جھکے ہوئے۔ ان کا عکس تالاب کے پانی میں للیز کے درمیان جھلملا تا ہوا، ایک جہان سر خوشی تھا جو دل کو مسرت سے بھرتا تھا اور اس مسرت کی کرنیں ہمارے چہرے سے عیاں ہوتی تھیں۔ چاروں طرف لوگ، تجسس اور وارفتگی۔ دھڑا دھڑ تصویریں، لیکن نہ کوئی شور، نہ بد نظمی، نہ بے چینی۔

ہم پھر ایک بنچ پہ بیٹھ گئے جہاں کچھ چینی سیاح بیٹھے تھے۔

” امی! ہم کافی شاپ جا رہے ہیں“ ہماری بیٹی ہمیں پکار رہی تھی۔

ہماری محویت ٹوٹی اور ہم بھی ساتھ ہو لئے۔

کافی کی خوشبو اور بھانت بھانت کے لوگ۔

ہر ملک، ہر نسل، سوائے پاکستانیوں کے۔ بہت سالوں سے میوزیم دیکھ رہی ہوں۔ گورے اور چینی تو ہوتے ہی ہیں، اکا دکا بھارتی بھی نظر آ جاتے ہیں لیکن پڑھے لکھے بھی پاکستانی ان کاموں کو وقت اور پیسے دونوں کا ضیاع سمجھتے ہیں۔

کافی شاپ کے ساتھ ہی سوونئیر شاپ تھی جہاں مونے کی پینٹنگز کو مختلف چیزوں پہ چھاپا گیا تھا۔ یہاں پہ قیمتیں کچھ زیادہ ہوتی ہیں لیکن کوئی ایک چیز یادوں کی لائبریری کے لئے لازم ہوتی ہے۔ ہم نے ایک مگ خریدا، کافی پی اور باہر کی طرف چلے۔

خدا حافظ، فطرت کے ساحر مصور اور بہت شکریہ اس خوشی کے لئے جو ہر دفعہ تمہارے بنائے ہوئے شاہکار دیکھ کے محسوس ہوتی ہے.

لیجئے کلاد مونے کے کچھ شاہکار آپ بھی دیکھ لیجئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).