وطن اور حب الوطنی


میرے گاٶں کا ایک قصہ سنیے۔ میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ میرا ایک ہم جماعت جو ہمیشہ میرے ساتھ والی بوری پہ بیٹھتا تھا ایک دن سکول نہ آیا۔ اگلے دن استاد جی نے پوچھا کہ کل سکول کیوں نہیں آئے تو جواب میں بولا۔ ُمیرے اباجی پردیس گئے تھے اور میں نے بھینسوں کو چارا ڈالنا تھا اس لیے سکول سے چھٹی کرنی پڑی۔ استاد نے تو جو اس کی درگت بنائی وہ اب تک یاد ہے لیکن اسی سے جڑی ایک اور بات جو بھول گئی تھی اور آج یاد آئی وہ یہ تھی کہ جب استاد جی سے مار کھا لینے کے بعد میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ اُس کے ابا جی کہاں گئے تھے تو اس نے جواب دیا کہ ساتھ والے گاٶں میں ہمارے رشتہ داروں کے ہاں فوتیدگی ہو گئی تھی وہاں گئے تھے۔

یہ قصہ سنانے کی ایک خاص وجہ ہے۔ آج سے ڈیڑھ دہائی پہلے تک سرگودھا کے ایک گاٶں میں ساتھ والے گاٶں کو بھی پردیس سمجھا جاتا تھا۔ انسانی رابطوں نے جست بھری اور اب ٹیکنالوجی کی بدولت دوسرے صوبے اور بعض صورتوں میں دوسرے ملک جا بسنے والا بھی اپنے آپ کو وہاں پردیسی نہیں سمجھتا۔

ٹیکنالوجی کے اس انقلاب سے پہلے دیس یا وطن کے معانی وہ نہیں تھے جو آج ہیں۔ ایک وقت تھا جب وطن یا دیس سے مراد وہ جگہ لی جاتی تھی جہاں کسی ایک فرد کا خویش قبیلہ رہتا ہو۔ اب ہم وطن کسے سمجھتے ہیں نہیں معلوم۔ اور مجھے نہیں معلوم کہ حب الوطنی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک محبِ وطن کہلانے سے پہلے یہ جاننا لازم ہے کہ وطن کیا ہوتا ہے اور اس کی حدود کیا ہیں؟ اور یہ حدود کون متعین کرتا ہے؟ کیا یہ حدود محض جغرافیہ کی مرہون منت ہوتی ہیں یا اس کی کوئی نظریاتی حدود بھی ہوتی ہیں؟

ظاہر ہے کہ اگر دعویٰ وطن سے محبت کا ہے تو یہ معلوم تو ہو کہ جس شے سے محبت کا دعوی ہے وہ در حقیقت ہے کیا؟

دیس، وطن، نیشن یا ان سے جڑے دیگر تصورات ریلیٹو ہوتے ہیں اور زمان و مکاں کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اگر تو وطن سے مراد محض ایک خاص جغرافیہ لیا جائے تو جغرافیہ کوئی ابدی حقیقت نہیں ہے۔ یہ وقت اور سیاسی محرکات کے زیر ِاثر بدلتا رہتا ہے

اگر وطن کا جغرافیہ ایک مستقل اور ابدی حقیقت نہیں ہے تو اس سے محبت کیونکر مستقل ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر تیرہ اگست انیس سو سنتالیس کی رات کسی نے یہ کہا ہوتا کہ اُسے اپنے وطن سے محبت ہے تو اس کے وطن سے مراد متحدہ ہندوستان لی جاتی۔ ایک رات پہلے جس سے مخبت جغرافیے کے بدل جانے سے راتوں رات نفرت میں بدل گئی۔

دوسرا پہلو اس بحث کا یہ ہے اگر ملک یا وطن جغرافیہ کی بجائے کسی نظریے سے تشکیل پاتا ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ ایک خاص نظریے سے وابستہ افراد کو ایک خاص جغرافیہ کے اندر اکٹھا کر کے بہت سارے اوطان بنا دیے جائیں۔ دنیا کے سارے جمہوریت پسندوں کے لیے ایک وطن۔ دنیا کے سارے مارکسیوں کے لیے الگ وطن۔ سفید نسل کی برتری پہ یقین رکھنے والوں کے لیے ایک جداگانہ وطن۔ خلافت کا احیا چاہنے والوں کے لیے جداگانہ وطن۔ یہ سارے نو زائیدہ دیس ایسے ہوں جس میں اکثریت کے نظرئیے سے تعلق نہ ہونے پر نکال باہر کیا جائے۔ سفید نسل کی برتری پر یقین رکھنے والوں کے نئے دیس میں سانولے اور گندمی رنگت والے غدار کہلائے جائیں۔ خلافت کے ماننے والوں کے دیس میں جمہوریت پسندوں کے داخلے پر پابندی کو قانونی حیثیت دے دی جائے۔

بالفاظِ دیگر ہندو اکثریتی دیس میں غیر ہندووں کے وجود کے خاتمے کو جائز مانا جائے۔ مسلم اکثریتی دیس میں بسنے والے غیر مسلموں پر حیات اس قدر تنگ کی جائے کہ وہ ملک چھوڑ کسی ایسے ملک جا بسیں جہاں ان کے نظرئیے سے ہم آہنگ لوگ آباد ہوں۔

جدید نیشن سٹیٹ کا ڈھانچہ غالب اکثریت سے اختلاف رکھنے والی قوموں کے وجود کی نفی پر کھڑا کیا گیا ہے۔ جمہوریت، مساوات اور آئین پرستی کے بطن سے اکثریت کا جبر ثپک پڑا ہے۔ ٹرمپ کا امریکہ سیاہ فاموں اور مہاجرین کے لیے عذاب بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ پوسٹ کلونیل ریاستوں میں اور بھی شدت سے واضح ہو رہا ہے۔ مودی کا ہندوستان مسلمانوں، آدی واسیوں اور دلتوں کے لیے وطن کہلائے جانے کے لائق نہیں رہا۔ پاکستان کی نظریاتی حدود کے محافظوں کے نزدیک مذہبی، نسلی، لسانی اور مسلکی اقلیتوں کے وجود کو تسلیم کرانے کی جدوجہد غداری کے مترادف ہے۔

اس سے انکار ممکن نہیں کہ نیشن سٹیٹ ہی غالب نظریہ ہے اور آنے والے وقتوں میں بھی اس کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ نیشن سٹیٹ کب تک مغلوب قوموں کے وجود سے انکار کرتی رہے گی اور کب وطن کی تعریف کو اتنا کُھلا ہونے دے گی کہ مخالف فکر سے تعلق رکھنے والے گروہوں کا وجود بھی جائز تسلیم ہو سکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).