صادق ہدایت: افسانوی کرداروں کی موت سے اپنی خودکشی تک


4 اپریل صادق ہدایت کا یوم وفات ہے ؛ اسی مناسبت سے یہ تحریر حاضر خدمت ہے۔ صادق ہدایت فارسی ادب کا بڑا ناول نگار سمجھا جاتا ہے۔ فارسی ادب میں اسے وہی مقام حاصل ہے جو اردو ادب میں سعادت حسن منٹو کو حاصل ہے۔ ہدایت فارسی ادب میں پہلا باقاعدہ قنوطی ہے جس نے ایران جیسے امیدپرست معاشرے میں بھی خودکشی جیسے موضوعات کو جمالیاتی لباس پہنایا۔ اس کی تحریریں مایوسی اور نا امیدی پر مبنی ہونے کے باوجود ایران میں بیحد مقبول ہیں۔

آج بھی ہدایت کی کتابیں بکثرت چھپتی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اس کی بعض کتابوں کا ترجمہ متعدد زبانوں بشمول اردو میں ہو چکا ہے۔ منٹو کی طرح صادق ہدایت بھی ہمیشہ الزامات کی زد میں رہا۔ گمراہی، تاریکی اور مایوسی پھیلانے کا الزام۔ یہی وجہ ہے کہ اسے فارسی ادب میں قنوطیت (Nihilism) کا بانی تصوّر کیا جاتا ہے۔

لیکن کسی بھی ادیب کی تحریروں کے بارے میں قضاوت اس کے دور کے حالات کو مدّنظر رکھے بغیر کرنا علمی رویہ نہیں۔ ادیب کا اصلی فریضہ پیغمبرانہ بشارتیں بانٹنا نہیں بلکہ سماج کی درست تصویرکشی اور عکاسی کرنا ہوتا ہے۔ ہدایت ایران کے بحرانی ترین دور میں زندگی گزار رہا تھا۔ پہلوی دور آمریت۔ رضا شاہ پہلوی کا دور حکومت فکری، سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحرانوں کا مجموعہ ہے۔ ان حالات میں کسی سنجیدہ ادیب سے گل و بلبل یا باغ و بہار کے تذکروں کی امید لگانا منطقی سوچ نہیں۔

بیسویں صدی کا پہلا نصف حصّہ عالمی سطح پر تمدّن کی شکست و ریخت کا زمانہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس زمانے میں پیش آنے والی دو عالمی جنگوں نے انسانی جان کی وقعت کو یکسر ختم کرکے رکھ دیا۔ انسانی تہذیب دم توڑتی نظر آئی۔ دنیا بھر میں انارکی اور مایوسی نے ڈیرے ڈال دیے۔ ان ناگفتہ بہ حالات کا عکس اس دور کے ادب میں بھی واضح دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات میں صادق ہدایت نے ایک طرف یورپ کی ادبی ریئلزم کی تحریک سے متاثّر ہوکر جدید فارسی ادب میں داستانی ریئلزم کی بنیاد رکھی تو دوسری جانب قنوطیت اس کے ناولوں کا لازمی جز قرار پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام داستانیں، ناول اور ڈرامے عام آدمی کے مسائل و مشکلات کے گرد گھومتے ہیں۔ سماج کی تلخ حقائق پر مبنی تصویرکشی صادق ہدایت کے ناولوں کا خاصہ ہے۔

صادق ہدایت 1903 ء میں تہران کے ایک متموّل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ دارالفنون نامی ادارے سے ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد تہران ہی کے سن لوئی مدرسے سے فرانسوی زبان سیکھی۔ بیس سال کی عمر میں مزید تعلیم کے لئے فرانس چلے گئے۔ اس طرح اسے یورپ میں پہلی عالمی جنگ کے تباہ کن اثرات اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی ادبی تبدیلیوں کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

ہدایت نے یورپ سے واپسی کے بعد ایران میں مختصر قیام کیا مگر مقامی ماحول کی ابتر صورت حال کی وجہ سے ہندوستان منتقل ہو گئے۔ قیام بمبئی کے دوران ہی اپنا معروف ترین ناول بوف کور (The Blind Owl) تحریر کیا۔ ہدایت بنیادی طور پر ایک داستان نویس تھا جس نے حقیقت نگاری (ریئلزم) پر مبنی متعدد داستانوں کے مجموعے تخلیق کیے۔ ان میں سگ ولگرد (The Stray Dog) ، زندہ بگور (Buried Alive) ، سہ قطرہ خون (Three Drops of Blood) ، وغ وغ ساہاب (Mister Bow Wow) ، حاجی آقا (The Pilgrim) اور آب زندگی (The Elixir of Life) خاص شہرت کے حامل ہیں۔

افسانوں کے علاوہ صادق ہدایت نے ڈرامے اور سفرنامے بھی قلم بند کیے جن میں ”پروین دختر ساسان“ اور ”اصفہان نصف جہان“ قابل ذکر ہیں۔ صادق ہدایت جدید فارسی ادب میں ایک والا مقام ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ نقّاد بھی تھے۔ ”شیوہ نوین در تحقیق ادبی“، ”شیوہ ہائے نوین در شعر پارسی“ اور ”پیام کافکا“ جیسی کتابیں اس کی ادبی تنقید کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

صادق ہدایت کے والد اعتضادالملک قاچاری حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ایران کی حکومت قاچاری خاندان سے پہلوی خاندان میں منتقل ہوئی تو صادق ہدایت کی سماجی ساکھ بھی متاثر ہوئی اور وہ اچانک اشرافی طبقے سے متوسط طبقے کا فرد بن گئے۔ اس بنا پر اس کی ہمدردی اور وابستگی سماج کے نچلے طبقات سے گہری ہوتی گئی اور اس کی تمام تحریروں کا محوربھی انہی طبقات کی مشکلات کا بیان ٹھہرا۔ طبقاتی تبدیلی کی وجہ سے صادق ہدایت ذاتی زندگی میں بھی تضادات کا شکار تھا۔

اگرچہ اس کا تعلق بنیادی طور پر اشرافی طبقے سے تھا مگر ایک روشن فکر افسانہ نگار کی حیثیت سے ہمیشہ اس طبقے کے افراد سے بیزار رہا۔ اس کے برعکس پسماندہ طبقات اس کی توجہ کا مرکز اور ادبی تحریروں کا موضوع رہے۔ سماج کے کمزور گروہوں سے ہمدردی کے باوجود ہمیشہ ان کی حالت کی بہتری کے معاملے میں وہ مایوسی اور بدبینی کا شکار رہا۔ البتہ صادق ہدایت کی یہ بدبینی اس دور کے ابتر سیاسی، سماجی اور ثقافتی حالات کا جبری نتیجہ تھی۔

جس طرح پاکستان میں منٹو پر اپنے افسانوں کے ذریعے معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا اسی طرح ایران میں صادق ہدایت پراپنی داستانوں کے ذریعے اخلاقی زوال، زندگی کی بے قدری، پژمردگی، افسردگی، مایوسی اور نہیلزم پر مبنی افکار و خیالات کی ترویج و اشاعت کا الزم لگایا گیا۔ دونوں افسانہ نگاروں کی نظر میں ادب تنقید حیات کا درجہ رکھتا تھا۔ اس لیے وہ معاشرے کے اچھے برے حالات کی حقیقی اور عینی تصویر پیش کرنے کو اپنا ادبی فریضہ سمجھتے تھے۔

نہیلزم اس کے ناولوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے جس کے اثرات فقط اس کی تحریروں تک محدود نہ رہے بلکہ خودکشی کے ذریعے اس کی اپنی زندگی کے خاتمے کا سبب بھی بنے۔ یہاں ان عوامل کا مختصر بیان مقصود ہے جن کی وجہ سے اسے فارسی ادب میں قنوطیت کے بانی کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پہلا عامل گوشہ گیری اور تنہا پسندی تھی جس نے اسے سوشل لائف سے دور کردیا تھا۔ وہ اپنی شہرت سے دور بھاگتا تھا یہاں تک کہ زندگی کے آخری ایام میں کسی کو اپنی تصویر تک اتارنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2