عالمی کھیلوں میں حجابی کھلاڑیوں کا مستقبل


کیا مسلمان عورتوں کو حجاب پہن کر عالمی کھیلوں میں شمولیت کی اجازت ہونی چاہیے؟ بعض ایک اسلامی ممالک میں عورتوں کو کھیلوں کے مقابلے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ملتی جب تک انہوں نے اسلامی لباس زیب تن نہ کیا ہو۔ اور بعض اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جہاں اسلامی لباس پہننے پر کوئی پا بندی نہیں ہے۔ کیا حجابی عورتوں کو کھیلوں میں حصہ لینے میں کوئی ممانعت ہے یا ان پر کوئی پا بندی لاگو ہوتی ہے۔ ؟

نیو جرسی میں پیداہونے والی امریکن خاتون ابتہاج محمد پہلی مسلمان حجابی کھلاڑی تھی جس نے 2016 میں ریو ڈی جنیرو (برازیل) میں منعقد ہونے والے اولمپکس میں فینسنگ کے کھیل میں برونز میڈل جیتا تھا۔ مسلمان عورتوں کے لئے اسلامی لباس کبھی بھی رکاوٹ نہیں رہا۔ چنانچہ جدید دور میں مسلمان عورتوں نے والی بال، ٹینس، فٹ بال، باسکٹ بال اور فینسنگ کے کھیلوں میں اپنے جوہر دکھا کر اپنا لوہا منوایا ہے۔ 2016 کے اولمپکس میں 14 مسلمان عورتوں نے میڈل جیتے تھے۔ تا ہم یہ کہنے کوئی مضائقہ نہیں کہ دوسری عورتوں کے مقابلے میں مسلمان عورتو ں کی شمولیت کھیلوں کے میدان چاہے وہ سکول میں ہوں، اماچوئیر کھیلیں ہوں، یا بین الاقوامی کھیلیں ان کی تعداد قلیل ہے۔

لندن کی برونیل Brunel یونیورسٹی برطانیہ کی پہلی یونیورسٹی ہے جس نے فروری 2019 میں نیلے رنگ کے سپورٹس حجاب کی نما ئش کی تھی تا کہ زیادہ سے زیادہ حجابی مسلمان عورتیں کھیلوں میں حصہ لے سکیں۔ ادھر نائیکی NIKE نے کہا ہے کہ وہ مسلمان کھلاڑیوں کے لئے ”نائیکی پرو حجاب“ بنایا ہے۔ یہ Pull On حجاب گاڑھے رنگوں اور نیوٹرل کلرز میں ہوگا جس میں باریک سوراخ ہو ں گے تاکہ کپڑے میں ہوا کا گزر ہوسکے۔ یہ حجاب متحدہ عرب امارات کی ویٹ لفٹر آمنہ الحداد کی ہدایات پر بنایا گیا ہے جو مختلف کھیلوں میں ایتھلیٹ استعمال کر سکیں گی۔ ابتہاج محمد نے نائیکی پروحجاب کو بہت پسندکیا ہے۔ بچوں کے کھلونے بنانے والی امریکن ملٹی نیشنل کمپنی Mattel نے اس رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حجاب پہنے باربی ڈال کو متعارف کرایا تھا جو ابتہاج محمد کے ماڈل پر بنائی گئی تھی۔

ڈاکٹر ہاجر عبد الفضل کا تعلق اس افغانی نسل سے ہے جنہوں نے 2001 میں طالبان کے زوال کے بعد فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔ وہ افغانستان کی نیشنل ٹیم کی دس سال تک کھلاڑی رہ چکی ہے۔ اس نے متعدد ریجنل اور بین الاقوامی میچوں میں حصہ لیا تھا۔ اس وقت وہ افغانستان نیشنل ویمن فٹ بال ٹیم Under 17 کی کوچ ہے۔ ہرات (افغانستان) میں طالبان کے ہاتھوں موت کی گھاٹ اتارے جانے والے ایک جرنیل کی بیٹی نادیہ ندیم (پیدائش 1988 ) جو ڈنمارک 2000 کودس سال کی عمر میں ریفیوجی بن کر آئی تھی اور ریفیوجی کیمپ کے پاس فٹبال کے میدان میں فٹ بال کھیلا کرتی تھی وہ اس وقت ڈنمارک کی بہترین کھلاڑی قرار دی جا چکی ہے۔

اکتیس سالہ نادیہ مانچسٹر سٹی کی ٹیم میں کھیلا کرتی تھی اور حال ہی میں اس نے Paris Saint۔ Germain ٹیم کی ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ غیر حجابی نادیہ ندیم نے 2017 میں ہونے والے یورپین چیمپئن شپس میں ڈنمارک کے لئے کھیلا اور پہلاگول کیا تھا۔ جب اس کے فٹ بال کھیلنے کا دور ختم ہو جائے گا تو اس کا ارادہ سرجن بننے کا ہے جس کے لئے اس نے پڑہائی شروع کردی ہے۔

فٹبال کے میدان میں آذربائیجان میں 2012 میں FIFA U۔ 17 Women ’s World Cup، مقابلے منعقد ہوئے تھے۔ یہی مقابلے 2016 میں اردن میں منعقد ہوئے تھے۔ مغربی یورپ میں کئی ایک مسلمان عورتیں یوروپین فٹ بال ایسوسی ایشنUEFA ٹیموں کی کھلاڑی رہ چکی ہیں جیسے فاطمیر علوشیFatmire Alushi نے چین میں 2007 میں منعقد ہونے والے فیفا وومن ورلڈ کپ میں جرمنی کی طرف سے میچ کھیلا تھا۔ اولمپکس گیمز 2008 میں جرمن ٹیم نے برونز میڈل جیتا تھا جس میں وہ شامل تھی۔ 2010 میں اس کو ورلڈز بیسٹ پلئیر قرارد یا گیا تھا۔ اسی طرح فرانس کی کھلاڑی Jessica Houara۔ d‘ Hommeaux بھی فرنچ نیشنل ٹیم میں شامل ہے۔ اس وقت وہ فرنچ کلب Olympique Lyon کے لئے بغیر حجاب کے فٹ بال کھیلتی ہے۔

باسکٹ بال کی انٹرنیشنل گورننگ باڈی FIBA حجاب پہن کر عورتوں کے مقابلوں میں حصہ لینے کے سخت خلاف ہے۔ ان کے قاعدے کے مطابق سر پر رکھا کپڑا پانچ انچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے متعدد حجابی عورتیں باسکٹ بال میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ اس قانون کے خلاف امریکہ کی نیشنل کا لجیٹ ایتھلیٹک ایسوسی ایشن NCAAکے متعدد مسلمان کھلاڑی صدائے احتجاج بلند کر چکے ہیں جن میں اندرا کالجو، بلقیس عبد القادر، رئیسہ اربتول، نوحا برہان، عاصمہ الباضاوی، رابعہ پاشا کے نام قابل ذکر ہیں۔ بلقیس عبد القادر (پیدائش 1990 ) نے آنرسٹوڈنٹ کے طور پر ہائی سکول کے زمانہ میں 3000 پوائنٹ سکور کر کے تمام ریکارڈ توڑے تھے۔ بلقیس اوراندرا کالجو دونوں حجاب پہننے کی وجہ سے پروفیشنل باسکٹ بال پلئیر نہ بن سکی تھیں۔

سعودی عرب کی ویمن باسکٹ بال ٹیم نے 14۔ 21 مارچ 2019 میں ابو ظہبی میں ہونے والے سپیشل اولمپکس ورلڈ گیمزمیں گولڈ میڈل جیت کر تاریخ رقم کی ہے۔ سعودی عرب نے اس سے قبل کبھی بھی ان کھیلوں میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اکیس کھلاڑیوں پر مشتمل عورتوں نے اس کے علاوہ مختلف کھیلوں ٹریک اینڈ فیلڈ، باؤلنگ اور باچی میں حصہ لیا تھا۔ Bocce ٹیم نے سلور میڈل جیتا اور متعدد کھلاڑیوں کو انفرادی میڈل دیے گئے۔ پانچ کھلاڑیوں کوڈاؤن سنڈروم کامرض لاحق ہے۔ ہندوستان سے 129 خاتون کھلاڑیوں نے شرکت کی تھی۔ ابو ظہبی میں پیدا ہونے والی امریکن والدین کی بیٹی Rebecca Hatcher نے سومنگ کے تین مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔

امریکہ کی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کا ڈریس کوڈ بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ حجاب پہننے والی مسلمان خواتین اس میں حصہ نہیں لے سکتیں۔ اس کے مطابق کھلاڑی لمبے بازو اور لانگ باٹم والا لباس مقابلے کے لئے نہیں پہن سکتیں۔ پاکستان کی ویٹ لفٹر کلثوم عبد اللہ کو کہا گیا تھا کہ جب تک اس نے ویٹ لفٹنگ کا خاص لباس Singlet زیب تن نہ کیا ہو

وہ مقابلے میں حصہ نہیں لے سکتی۔ کلثوم کا کہنا ہے کہ فیڈریشن نے سوچا ہی نہیں کہ اس کھیل میں حجاب پہننے والی خواتین بھی حصہ لیں گی۔ میرے خیال میں ان کو حجاب سے خوف پیداہوتا ہے کہ یہ دنیا پر چھا جائے گا۔ پیرس میں 2011 میں ہونے والے ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں وہ پہلی حجابی تھی جس نے پا کستان کی نمائندگی تھی۔ کلثوم نے جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے کمپیوٹر انجنئیرنگ میں ڈاکٹریٹ کیا ہؤا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی آمنہ الحداد نے اردن میں ہونیوالے ویٹ لفٹنگ میں ایشین انٹر کلب چمپئین شپ کے مقابلوں میں 6 گولڈ میڈل جیتے تھے۔ ویٹ لفٹرسارہ احمد کا تعلق مصر سے ہے وہ پہلی حجابی ہے جس نے اولمپکس میڈل جیتا تھا۔ بلکہ مصر کی پہلی عورت جس نے میڈل جیتا تھا۔ یوتھ اولمپکس گیمز 2014 میں اس نے 63 kg کلاس میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔

متحدہ عرب امارات UAEپہلا عرب ملک ہے جو انٹرنیشنل سکیٹنگ یونین کاممبر بنا ہے۔ اس کی بڑی وجہ زہرہ لاری ہے جس نے انٹرنیشنل فگر سکیٹنگ میں ہیڈ سکارف پہن کر حصہ لیا تھا۔ زہرہ نے سکیٹنگ ڈزنی مووی Ice Princess سے مرعوب ہو کر شروع کی تھی۔ ایران کی شیریں جیرامی پہلی حجابی ایتھلیٹ ہے جس نے ٹرائی ایتھلیٹ Triathelete (یعنی سائیکلنگ، سومنگ اور رننگ) کے مقابلوں میں حصہ لیا۔ روزمرہ زندگی میں وہ حجاب نہیں پہنتی مگر مقابلے کے لئے اس کو حجاب پہننا پڑا، جس کے لئے اس کو ایرانی گورنمنٹ سے اجاز ت لینی پڑی تھی۔

جرمن با کسنگ چمپئین زینا نصر Zeina Nassar نے ملک کے اندرتو باکسنگ رولز تبدیل کروا لئے ہیں اور اب جد و جہد کر رہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر قوانین کو تبدیل کردیا جائے۔ وہ کہتی ہے کہ میرا سپنا یہ ہے انٹرنیشنل باکسنگ رولز اس طرح تبد یل کر دیے جائیں کہ ہر بیک گراؤنڈ کی خواتین اس میں حصہ لے سکیں۔ معاشرے میں تبد یلی لانے کے لئے انسان کو لڑنا تو پڑتا ہی ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ میری شکل و صورت اور میرے حجاب کی وجہ سے مجھے پہچانا جائے۔ میر ا مذہب کیا ہے اس کو مت دیکھو، میرے کھیل کو دیکھو۔

منی سوٹا (امریکہ) کی با کسر اماعیہ ظفر کو Sugar Bert Boxing نیشنل چمپئین شپ نومبر 2016 کے لئے ڈسکوالی فائی قرار دیا گیا تھا کیونکہ وہ حجاب پہنتی ہے اور اس نے سیفٹی رولز کی خلاف ورزی کی تھی۔ اگرچہ یہ بندش ایک سال بعد امریکہ میں تو ختم کردی گئی مگر عالمی طور پراولمپکس میں ابھی تک نافذ ہے۔ نیو ساؤتھ ویلز کی رے این علام الدین نے حجاب پہن کر امچوئیر باکسنگ کے مقابلے میں حصہ لیا تھا۔

بنگلہ دیش کے شہر کاکس بازار میں مقیم روہنگیا مسلمان ریفیوجی محمد سلیم اپنی بیٹی نسیمہ اختر کو Taekwondo کی تربیت دے رہا ہے۔ یہاں آنے سے قبل سلیم اس کھیل کا چیمپئین تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری سوسائٹی کنزرویٹو ہے اور عورتوں کو پورے لباس میں دیکھنا چاہتے۔ ٹے کوان ڈو میں عورتوں نے پورا لباس پہنا ہوتا اس لیے لوگ اعتراض نہیں کرتے ہیں۔ مصر کی ہدایہ ملک Taekwondo کی شاندار کھلاڑی ہے جس کا شمار 2016 کے ریو ڈی جنیرو کے اولمپکس کے پانچ اعلیٰ کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس نے برونز میڈل لے کر قوم کا دل جیت لیا تھا۔ یہ پہلاموقعہ تھا کہ مصر کی کسی عورت نے اس کھیل میں میڈل جیتا تھا۔

ہندوستان کی ٹینس پلئیرثانیہ مرزا (اہلیہ شعیب ملک ) 40 کیرئیر ٹائیٹلز جیت چکی ہے اور 2015 میں اس نے # 1 doubles ranking حاصل کی تھی۔ ہندوستانی علماء کرام نے اس کو ٹینس کا لباس پہننے پر کڑی تنقید کا نشانہ بنا یا تھا۔ ٹینس کے میدان میں ایک اور نامور نام ایرانی فرنچ خاتون آراوین رضائی Aravane Rezaï کا ہے جس نے اب تک چار WTA ٹائیٹلز جیتے ہیں۔ ترکی اور آذربائیجان کی والی بال کی ٹیموں نے ”والی بال ویمن کلب ورلڈ چیمپئین شپ FIVB۔ پانچ بار جیتی ہے۔ الجیریا کی عورتوں کی والی بال ٹیم نے آل افریقن گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ 2016 کی اولمپکس گیمز میں مصر کی دعا الغاباشی نے بیچ والی بال، پتلون، لمبے بازو کی قمیض اور ہیڈ سکارف پہن کر کھیلا تھا۔

برطانیہ کی ایک تنظیم Sporting Equals Organization کے مطابق محض 26.1 % ایشین عورتیں ہفتے میں ایک بار سپورٹس میں حصہ لیتی ہیں جبکہ 31.4 % برطانوی خواتین سپورٹس میں حصہ لیتی ہیں۔ ایک اور تنظیم Sports England کی طرف سے کی جانیوالی ایک سٹڈی میں 18 % برطانوی مسلمان خواتین ریگولر سپورٹس میں شرکت کرتی ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں 30 %برطانوی خواتین کھیلیں کھیلتی ہیں۔

فرانس کی تنظیم انٹرنیشنل لیگ فار ویمن رائیٹس نے اس بات پر خدشات کا اظہار کیا ہے کہ 2024 میں ہونیوالے پیرس اولمپکس میں مسلمان عورتیں حجاب پہن کر حصہ لیں گی۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2024 میں ہونے والے اولمپکس میں ہیڈ سکارف پر مکمل پا بندی لگا دی جائے تا عورتیں کسی قسم کی مذہبی پابندی کے بغیر شرکت کر سکیں۔ بعض اسلامی ممالک اپنی عورتوں کو اولمپکس میں حصہ لینے پرممانعت عائد کر رہے ہیں جب تک انہوں نے اسلامی لباس نہ پہنا ہو۔

کھیلوں میں حجاب پر پا بندی لگانے سے مسلمان کھلاڑیوں کی شرکت عالمی کھیلوں میں بہت کم ہو جائے گی۔ فلاحی ادارے جیسے مسلم ویمن سپورٹس فاؤنڈیشن دن رات کوشاں ہیں کہ سپورٹس میں مزید سے مزید عورتیں حصہ لیں۔ ان کا مدعا یہ ہے کہ مسلمان لڑکیاں اور عورتیں اپنی کلچرل اور مذہبی اقدار کو قربان کیے بغیر کھیلوں میں آزادانہ طورپر حصہ لیں۔ ادارے کی ٹرسٹی مس عاباقریشی کا کہنا ہے کہ ہم عورتوں کو سپورٹس انڈسٹری سے متعارف کرانا چاہتے تا ان کو مساوی مواقع مہیا ہو ں۔

لڑکیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کے لئے ہمت نہیں دلائی جاتی اور کہا جاتا کہ یہ لڑکوں کے لئے ہیں۔ اورنہ والدین بچوں کو کہتے کہ وہ سکول میں کھیلوں کے میدان سبقت لے جانے کی کو شش کریں۔ سکولوں کو چاہیے کہ لڑکیوں کو سپورٹس میں آنے پر حوصلہ افزائی کریں، ان کے لئے دوسرے سکولوں کے ساتھ ٹورنامنٹ منعقد کریں، نیز والدین کو بھی چاہیے کہ وہ بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

مسلمان عورتوں کے لئے الگ جمزGYMS اور مقابلے کروانے کا رجحان بھی ترقی پذیر ہے۔ آئر لینڈ میں 2014 میں مسلمان عورتوں کی Diverse City FC فٹ بال ٹیم بنائی گئی تھی۔ 1993 میں فائزہ ہاشمی نے اسلامک ویمن گیمز کی بنیاد رکھی تھی۔ جس میں تمام ایتھلیٹ، کوچز، تماشائی عورتیں ہوتی ہیں۔ ادھر مارچ 2019 میں ہونے والی سعودی عرب میں اونٹوں کی دوڑ میں ایک ایسے اونٹ نے حصہ لیا جس کی مالک ایک عورت پر نسیس جمیلہ بنت عبد المجید ہے۔ اونٹوں کی دوڑ کا فائنل جس روز ہؤا اس وقت بادشاہ سلمان بھی وہاں موجود تھے۔ یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی سعودی عورت نے اس دوڑ میں حصہ لیا ہے۔ بہر حال وہ عورتیں جو حجاب پہن کر کھیل میں حصہ لیتی ہیں اور ایسی عورتیں جو حجاب کے بغیر کھیل کھیلتی ہیں ان کے ایمان و اعتقاد میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی ایک دوسرے سے بہتر یا اچھی مسلمان نہیں ہے۔ چاہے کوئی حجاب پہن کر کھیلے یا اس کے بغیر دونوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ sportswomanship کی سپرٹ ہم سے یہی مطالبہ کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).