ہندوستان میں اردو صحافت کی صورت حال


صحافت ایک معزز و مقدس پیشہ مانا جاتا ہے۔ صحافت کسی بھی ملک کی تہذیب و کلچر اور وہاں کے سماجی سروکاروں کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے اور کیوں نہ ہو کیوں کہ یہ صحافت ہی ہے جس کے ذریعے لوگ اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچاتے ہیں اور مختلف عوامی مسائل پر اپنی رائے سامنے رکھتے ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار کامریڈ میں لکھا تھا۔ ”صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت کے ساتھ درج کرے۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مورخ اس کی تحریروں کی بنیاد پر تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کرسکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں بلکہ راہ نما بھی ہوتا ہے۔ اسے صرف عوام کی دعاوی کی تائید و حمایت ہی نہیں بلکہ صحافتی میز سے عوام کو درس بھی دینا چاہیے۔“

اردو صحافت نے ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے میں اردو صحافت کا رول سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ ابتدا میں یہاں کے بیشتر مسلمان سکول، کالج و یونیورسٹی میں اردو میں ہی سب مضامین پڑھتے تھے۔ اس سلسلے میں سرسید احمد خان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔

سرسید نے رسالہ ”تہذیب الاخلاق“ میں مختلف مضامین کے ذریعے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف مائل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نذیر احمد، حالی، محسن الملک نے اردو ہی کے ذریعے مسلمانوں کو سیاسی، سماجی و معاشی طور پر بیدار کیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں بالخصوص شمالی ہندوستان کے مسلمانوں نے اردو کے ذریعے ہی سب کچھ پایا جو ان سے کھو گیا یا چھینا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ تاریخ و ادب سے بے خبر افراد کی کمی نہیں اور جن کا وتیرہ جاہلوں سے کم نہیں۔

اردو صحافت کی شاندار تاریخ کے باوجود آج 2019ء میں ہندوستان میں اردو صحافت کا وہ معیار نہیں جو کبھی اس کے پاس تھا۔ یوں کہیے کہ اس کا معیار بہت ہی پست ہے۔ آپ ہندوستان کا کوئی بھی اردو روزنامہ اٹھا کر دیکھیے اور پھر اس میں چھپی خبروں کا موازنہ کسی قومی انگریزی روزنامہ سے کیجیے، فرق صاف نظر آیئے گا۔ مضامین کا موازنہ نہ کریں تو بہتر ہے۔ جہاں انگیریزی اخبار میں آپ کو شاید ہی کبھی (یا بہت ہی کم) کوئی ترجمہ شدہ مضمون نظر آئے گا وہیں اردو کے قومی اور سب سے بڑے اخبارات کہلانے والوں میں بیشتر مضامین ترجمہ ہی ہوتے ہیں یاکسی دوسری جگہ سے ماخوذ ہوتے ہیں۔

کاغذ کا معیار تو بہت گھٹیا ہوتا ہی ہے، خبریں بھی درست نہیں ہوتیں۔ راقم کو اس سلسلے میں ذاتی تجربہ تب ہوا جب راقم نے تین مہینے کے لیے ایک ”قومی اخبار“ کا سبسکرپشن کیا۔ اس اخبار میں نہ صرف بے ہودہ خبروں کا انبار لگا رہتا تھا (ہے ) بلکہ بہت سی خبروں میں مختلف جگہوں کے نام تک غلط تھے۔ مثلاً ایک خبر کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے متعلق لیکن خبر میں کپواڑہ کو جموں کی جگہ بتایا گیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے جو قاری جموں و کشمیر کی جغرافیہ سے واقف نہیں اس نے خبر میں جگہ کے متعلق معلومات کو صحیح مانا ہوگا اور اس کے ذہن میں کپواڑہ کے متعلق غلط معلومات بن گئی ہوگی۔

وہیں کچھ دن بعد اس اخبار میں ان خود ساختہ دانشور لیکن دراصل ایک کانگریسی چاپلوس کے کشمیر سے متعلق مضامین سے بخوبی اندازہ ہوا کہ کس طرح وہ ہندوستانی مسلمانوں کو کشمیر و تحریک کشمیر سے متعلق گمراہ کر رہے ہیں۔ ناقص معلومات، تاریخ سے بے خبری اور کچھ اپنی سیاسی وفاداریوں کے زیر اثر نام نہاد دانشور کو ایک جنگجو اور دہشت گرد میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اور نہ ہی یہاں فورسز کے مظالم دکھائی دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو گمراہ کرنے اوریہاں مسلمانوں پر مظالم کو بھارت کی سرکاری پالیسی کے تحت ہر وقت پاکستان پر تھوپنا ان نام نہاد دانشوروں کا شیوہ رہا ہے۔

اُردو اور مسلمانوں کے ٹارگٹ آڈئینس (Target Audience) کے نا م پر حالیہ برسوں میں ہندوستان میں مختلف ویب سائٹس یا نیوز پورٹل بنائیں گئیں یا وجود میں لائیں گئیں، لیکن ان کا کیا حال ہے اس سے سب واقف ہیں۔ ان ویب سائٹس اور نیوز پورٹل پر خبروں کے نام کیا واہیات چھپتی ہیں وہ سب پر عیاں ہے۔ بالی وڈ سے متعلق تیسرے درجے کی خبروں سے لے کر جنگ سے متعلق بچکانہ خبریں ان ویب سائٹس کی زینت ہیں۔ حالیہ جنگ کے دوارن ایک مخصوص اردو نیوز پورٹل نے جس غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا اس سے تو یہی لگتا تھا یہ ”گودی میڈیا“ کے زیر اثر ہے۔ اس ویب سائیٹ کی کچھ سرخیاں اس طرح تھیں :

بالاکوٹ میں جیش محمد کے کئی سینیر کمانڈر ہلاک، مسعود اظہر کا سالا چلا رہا تھا کیمپ۔

اب بھارت سکھائے گا پاکستان کو سبق، دیگا منہ توڑ جواب۔

ہندوستان کی کارروائی کے بعد پاکستان میں افراتفری۔

ارجن ملائکہ کے رشتے کے بارے میں یہ سوچتا ہے بیٹا ارحان۔

اپنی اس عادت سے پریشان ہے سنی لیونی۔

کار میں انٹیمیٹ سین دیتے وقت پریشان ہوگئی تھیں پرینکا چوپڑا۔

ایسی بہت سی بلکہ اس سے بھی زیادہ بے ہودہ خبریں آئے دن اس نیوز پورٹل پر شائع ہوتی رہتی ہیں، جن کا ذکر کرنے نہ یہاں وقت اور نہ ہی کاغذ خرچ کرنے کی ضرورت۔ اس نیوز پورٹل کے فالورز ان چیزوں سے بخوبی واقف ہوں گے۔

ایک اور اردو نیوز پورٹل کا تو اردو حلقوں میں بڑی دھوم دھام سے تو آغاز ہوا لیکن اس کی بھی ہوا بہت جلد نکل گئی۔ جس ویب سائیٹ کا انگریزی ورژن پوری دنیا میں اپنی خبروں اور تجزیوں کے لیے مشہور ہوا، وہیں اس کے اردو ورژن کو شعر و شاعری اور اس سے متعلق تبصروں کے لیے مخصوص کیا گیا اور مسلمانوں کو وہی پرانی گُل و بلبل کی داستانوں کی سیر کرائی گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوا کہ اردو ورژن کا مقصد مسلمانوں کو مختلف مسائل سے آگاہ کرنا نہیں اور نہ ملکی مسائل کے تئیں ان کے رائے کو ہموار کرنا ہے بلکہ انہیں مزید غفلت میں لے جانا ہے اور خبروں کی آڑ میں اپنا کاروبار چمکانا اور کارپوریٹ لابی کو خوش کرنا ہے۔

ہاں کچھ مضامین اس میں ضرور ایسے چھپتے ہیں جن میں اہم سیاسی و سماجی موضوعات پر بحت ہوتی ہے لیکن ایک تو ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، دوسرے یہ کہ اس میں صرف چند صاحب نظر اصحاب کو جگہ دی جاتی جیسے تمام انوار انہی اصحاب پر نازل ہوئے ہیں۔ لیکن بہت قریب سے دیکھیں تواس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ان مضمون نگاروں کی بحث نہ صرف ناقص بلکہ گمراہ کن بھی ہوتی ہے۔ بعض جگہ تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنی کوئی رائے رکھتے ہی نہیں بلکہ کسی کنفیوژن کے شکار ہیں۔ یا شاید دوغلے پن کے شکار ہیں یا بے چارے مسلمانوں پر محض اپنی دانشوری کا رعب جمانا چاہتے ہیں۔

راقم السطور نے اس مضمون کا آغاز محمد علی جوہر کے چند جملوں سے کیا تھا، جن میں انہوں صحافت جیسے معزز پیشے سے متعلق کچھ اہم باتیں کہی تھیں۔ مندرجہ بالا نیوز پورٹل کا جائزہ لینے سے یہی پتہ چلتا ہے کہ اردو کو یہاں محض اپنی روٹیاں سینکنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کے پیچھے صرف کاروباری غرض چھپا ہے اور کچھ نہیں۔ جس طرح وہ پروفیسر جو محض اپنے چاپلوسوں و حواریوں کو منتخب کرنے کے لیے انٹرویو میں آپ سے پوچھتا ہے کہ ”کیا آپ مجھ کو جانتے ہیں۔” اور چند منٹ میں آپ سوچنے لگتے ہیں کہ شاید آپ ایڈورڈ سعید یا نوم چومسکی کے سامنے بیٹھے ہیں، نے محض اردو دنیا میں اپنی روٹیاں سینکنے کے لیے اردوکو استعمال کیا جبکہ پروفیسر موصوف کو کسی اور کاروبار میں ہونا چاہیے تھا۔ ٹھیک یہی معاملہ ان نیوز پورٹل کے مالکان و ایڈیٹر صاحبان کا بھی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ان اخباروں و نیوز پورٹل مالکان و ایڈیٹر صاحبان ان چیزوں پر غور کریں اور حقیقی معنوں میں صحافت کا معیار بلند کرے اور اپنے ٹارگیٹ آڈئینس تک صحیح خبر پہنچائے اور ان کی صحیح رہنمائی کرے۔ ورنہ دنیا میں اور بھی بہت سے کاروبار پڑے ہیں اور براہ کرم ہندوستان کے مجبور و مظلوم مسلمانوں کو مزید گمراہی میں لے جانے سے گریز کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).