یس سر پارٹی چاہیے یا نو سر پارٹی؟ فیصلہ عوام کا!


عموما سیاسی جماعتوں میں ایک آقا، سردار، گاڈ فادر ہوتا ہے، جسے ہم اس جماعت کا لیڈر، سربراہ، چئرمین کہتے ہیں، جس کی بات حرف آخر سمجھی جاتی ہے، پارٹی کا ہر رکن جناب آقا، سردار، گاڈ فادر کے فیصلے کے آگے سر جھکا لیتا ہے، اخلاقیات نام کی کوئی چیز سیاسی جماعتوں میں موجود نہیں ہے، یہاں لیڈر کی خوشامد کرنے پر ترقی اور وزارتیں ملتیں ہیں، لیڈر کی ہر پات کو ہاں میں ہاں ملا کر ٹھیک کہ دیا جاتا ہے، کوئی اختلاف نہیں کر سکتا، کوئی بول بھی نہیں سکتا، یہ عجیب تماشا ہے مگر بات تو سچ ہے کہ یہاں تو کوئی جماعت جمہوریت کی بنیاد یا اس کے اصولوں پر بنائی ہی نہیں گی۔

گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان تحریک انصاف کے دو بڑوں میں لفظی جنگ جاری ہے، جناب مخدوم شاہ محمود قریشی اور جناب جہانگیر خان ترین صاحب کی لڑائی نئی نہیں ہے، اس لڑائی کے پیچھے ایک منظر نامہ ہے، یہ پارٹی کے دو اہم اور خان کے سب سے قریب ساتھی ہیں، اس لڑائی کی ابتداء کافی عرصے سے جاری ہے، عمران خان کا نمبر ٹو بننے کے لیے پارٹی میں گروپ کافی عرصے سے بن چکے ہیں، جہانگیر ترین کی نا اہلی سے پہلے قریشی صاحب کو یقین تھا کہ عمران کا نمبر ٹو جہانگیر ترین ہے، جہانگیر ترین کی نا اہلی کے بعد بھی وہ خان صاحب کی آنکھوں کا تارا تھے، یہ بات شاہ محمود قریشی کو نا پسند تھی، پھر پنجاب کی وزارت اعلی کا معاملہ یہاں بھی پہلے ترین صاحب نے آنا تھا، پر وہ نااہلی کی وجہ سے بن نہیں سکے، اور قریشی صاحب پنجاب اسمبلی کا الیکشن ایک آزاد امیدوار سے ہار گے، جلتی پر تیل ڈالنے کا کام جہانگیر ترین نے کر دیا، وہ اس آزاد امیدوار جس نے قریشی صاحب سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیتا، اسے اپنے جہاز میں بیٹھا کر بنی گالا لے آئے، اور خان صاحب نے انہیں پاکستان تحریک انصاف کا مفلر گلے میں پہنا دیا، پھر پارٹی میٹنگ میں قریشی صاحب نے اصرار کیا کہ انہیں پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا کر وزیر اعلی بنا دیا جائے، تو اس بات پر کچھ رہنماؤں نے قہقہے بھی لگائے، اور اس بات کو اہمیت ہی نہیں دی گئی، دوسری جانب جہانگیر ترین اپنے جہاز سے آزاد امیدواروں کو پارٹی میں شامل کر کے خان صاحب کے دل میں جگہ بنانے میں مصروف تھے، یہ اس لڑائی کا تھوڑا بہت پس منظر ہے۔

اج کی لڑائی یہ ہے کہ جہانگیر ترین نے کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی اور 290 ارب کا زرعی پیکج منظور کروایا، یہ بات کافی دن پہلے کی ہے، پر سوموار والے دن اچانک قریشی صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ جہانگیر ترین کو سرکاری میٹنگ میں نہیں انا چاہیے، اس سے مریم اورنگزیب کو بات کرنے کا موقع ملتا ہے، اور یہ عدالت کے فیصلے کی توہین ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ موجودہ چیف جسٹس کی بھی توہین ہے، کیونکہ یہ اس بینچ کے سربراہ تھے، جس نے جہانگیر ترین کو نا اہل کیا تھا، اب بات اخلاقی طور پر درست ہے، کہ ایک نا اہل بندے کو کابینہ اجلاس میں نہیں انا چاہیے، پر قریشی صاحب یہ تنقید جہانگیر ترین ہر نہیں ڈائریکٹ عمران خان پر کر رہے تھے، کیونکہ خان صاحب نے خود جہانگیر ترین کو زراعت پر رپورٹ پیش کرنے کو کہا تھا، قریشی صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد ترین گروپ کے ارکان نے ٹویٹ کرنے شروع کر دیے، مقابلہ اس بات پر ہونے لگ پڑا کہ کون زیادہ چمچہ گری کرتا ہے، قریشی گروپ کے لوگ خاموش رہے،

اب خان صاحب نے بھی کہ دیا، کہ دیا کہ میڈیا پر بیان بازی نا کریں، یہ میری صوابدید ہے کہ کون اجلاس میں آئے گا اور کون نہیں آئے۔

اب یہاں دو باتیں ہیں، ایک بات یہ ہے، کہ یہ اختلاف لیڈرشپ کی کمزوری کی وجہ سے پیش آتے ہیں، بہت عرصے سے پارٹی کا اپنا الیکشن نہیں ہوا، عام انتخابات دے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن ہونا تھے، پر عمران خان نے اسی وجہ سے ملتوی کر دیے، خان صاحب سے ایک دفعہ یہی سوال پوچھا گیا کہ اگر کل کو اپ گورنمنٹ میں آتے ہیں، اور یہ اختلاف برقرار رہتے ہیں، تو پارٹی کے ساتھ ساتھ ملک کو بھی نقصان ہو گا، تو خان صاحب نے جواب دیا کہ اگر وزیراعظم تگڑا ہو تو سب کچھ ٹھیک رہتا ہے، پھر یہ واقعہ تو وزیراعظم کی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے، اگر ان سے اپنے وزیر ہی کنٹرول نہیں ہو رہے تو ملک کیسے کنٹرول ہو گا۔

اب آتے ہیں دوسری بات پر وہ یہ ہے کہ پارٹی میں اس قسم کی چیزیں ہوتی رہنی چاہیے، اراکین کو بولنے کا حق حاصل ہونا چاہیے، سب کچھ آقا نہیں ہونا چاہیے، پارٹی میں ہر ایک کی بات سنی جانی چاہیے، یہ بات میرے پؤائنٹ آف ویو کے کافی قریب ہے، میں شروع میں ایک بات کی وضاحت پیش کر چکا ہوں، کہ ہمارے ملک میں ایک آقا، سردار اور گاڈ فادر پارٹی کو جو کہتا ہے، وہ ہر رکن آخری فیصلہ سمجھ کر تسلیم کر لیتا ہے، پر پاکستان تحریک انصاف میں کافی اختلاف رائے رکھا جاتا ہے، پی اے سی کے چیئرمین کا معاملہ ہو، آدھی کابینہ اج بھی اختلاف رکھتی ہے، کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی نہیں بنانا چاہیے تھا، فیصل واوڈا نے تو یہ تک کہ دیا کہ میں کسے چور ڈاکو کے آگے پیش نہیں ہو سکتا، شیخ رشید شہباز شریف کے خلاف عدالت جانے کا کہ چکے ہیں، نواز شریف کی رہائی پر پارٹی میں کافی اختلاف رائے ہے، عثمان بزدار پر کسے نے سامنے آ کر تو اختلاف رائے نہیں کیا لیکن پارٹی کے اندر اختلاف موجود ہے، اسی طرح خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلی پر بھی اختلاف رائے موجود تھی، اور آج بھی ہے، آج بھی کابینہ اجلاس میں خان صاحب بعض اوقات وزیروں کی باتیں مان رہے ہوتے ہیں، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کا خود عمران خان نے کہا پر پہلی مخالفت شاہ محمود قریشی نے کی، پھر کابینہ نے بھی کہا نام تبدیل نہیں کر رہے، ہر بات نا سہی پر اختلاف تو ہوتا ہے، اور رکھا بھی جاتا ہے، کوئی تو ہے، جو کم از کم پارٹی قیادت کے خلاف بات تو کرتا ہے، بقول ایک معروف صحافی کے ایک دفعہ پارٹی اجلاس میں علی محمد خان نے عمران خان سے کہ دیا کہ خان صاحب ایک تو آپ بولتے بہت ہیں، ایک دفعہ عمران خان نے پارٹی اجلاس میں کہا کہ نئے لوگ پارٹی میں آ رہے ہیں ان کی عزت کیا کریں، تو شاہ فرمان نے کہا اپ نے ہی اصول بنائے تھے، کہ لوٹے نہیں لیں گے، آب تھوڑا وقت دیں، بے غیرت بننے میں ٹائم تو لگتا ہے، جہانگیر ترین کی نا اہلی کو پارٹی نے تسلیم کیا، جی ٹی روڈ پر نہیں نکلے، ریحام خان کی کتاب پر پارٹی اراکین باتیں کرتے تھے، پر عمران خان نے کبھی بات نہیں کی، عائشہ گلالئی ہو نا ناز بلوچ، عمران خان خاموش رہے اور اراکین لفظی جنگ کرتے رہے۔

یہ باتیں ہماری دوسری جماعتوں میں کوئی نواز شریف اور زرداری کے سامنے تصور بھی نہیں کر سکتا، یہاں تو چوہدری نثار نے بس اتنا کہا تھا، کہ میں اپنے سے چھوٹے کو سر یا میڈم نہیں کہ سکتا، اس کا حال آپ کے سامنے ہے، زعیم قادری نے کہا تھا کہ مجھ سے حمزہ شہباز شریف کے جوتے پالش نہیں ہوتے، اس کا حال بھی اپ کے سامنے ہے، یہاں تو اج تک کوئی نواز شریف اور شہباز شریف سے یہ نہیں پوچھ سکا، کہ یہ کرپشن اپ نے کی ہے یا نہیں، پوری ن لیگ حسن اور حسین کا بھی دفاع کرتی رہی، جو یہاں کے شہری ہی نہیں ہیں، میاں صاحب پر قسم بھی اٹھا جاتے ہیں، کہ انہوں نے کبھی کرپشن کا سوچا بھی نہیں ہے، عدالت نے نااہل کیا تو اراکین اسمبلی میں آ گے کہ ہم اہل کرتے ہیں، جی ٹی روڈ پر پانچ لوگ اور خلائی مخلوق کہنے پر کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ گاڈ فادر صاحب کو سمجھاتا کہ جناب یہ غلط کر رہے ہو، تاحیات قائد بنا دیا، ایک سزا یافتہ شخص کو، مشاہد اللہ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، جب وہ جیل میں ملنے جاتا ہے، لیکن یہ نہیں پوچھ سکتا، کہ میاں صاحب جواب تو آپ کے پاس تھا کوئی نہیں پھر اپ سچے کیسے ہیں؟

دوسری طرف بھٹو کے جانشین انہوں نے تقریر تین سو ارب کی کرپشن کے الزامات یافتہ ڈاکٹر عاصم کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا سربراہ بنا دیا، کسی نے زرداری صاحب سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ کیوں ایک کرپٹ آدمی کو اپ نے وزارت دی، یہاں شرجیل میمن کو پرفارمنس پر انعام دیے گئے کسی نے نہیں پوچھا، حتی کہ عزیر بلوچ کو امن کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا، وہ کراچی میں لاشوں سے کھیلتا رہا اور انہوں نے عزیر بلوچ کو امن کا انعام ایک تقریب میں دیا، اج پیپلز پارٹی اومنی گروپ کا دفاع کر رہی ہے، کوئی رکن پوچھ نہیں سکتا، کہ ہم کیوں ایک کرپٹ آدمی کا دفاع کر رہے ہیں، آغا سراج درانی جیل سے آ کر اسمبلی چلاتے ہیں، کسی کی ہمت نہیں کہ وہ قیادت سے سوال پوچھ سکے۔

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اراکین تو بیچارے قیادت سے یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ سالوں سے ہم محنت کر رہے ہیں، جیلوں میں گئے، اور اج اچانک ایک طرف بلاول اور دوسری طرف مریم بی بی کیوں آ گئی، ہم کیوں نہیں وزیراعظم بن سکتے، جب وہ اپنے حق کی باتیں قیادت سے نہیں پوچھ سکتے، تو عوام کہاں پوچھیں گے۔

فیصلہ اپ نے خود کرنا ہے، کہ ہمیں کون سی جماعتیں چاہیے، وہ جماعتیں جہاں ایک آقا ہو اور باقی سارے غلام یا وہ جماعتیں جہاں کم از کم زبان کھولنے کی اجازت تو ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).