تنقید نگار بن جائیے، بڑا اسکوپ ہے 


جس زمانے میں مجھے حاتم تائی اور ٹارزن کی کہانیاں پڑھنے کا موقع ملا تھا وہیں اسی دور میں مجھے گلی کی نکڑ پر چسپاں ایک بورڈ کا قصہ پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا تھا.

ارے آپ نے نہیں سن رکھا کیا وہ قصہ !

لیجیے ہم سنا دیتے ہیں.

بہت پہلے کا ذکر ہے کہ ایک گلی کی نکڑ پر ایک پینٹر نے ایک بہت خوبصورت تصویر پینٹ کر کے لگا دی اور تصویر کے نیچے جالی حروف میں لکھ دیا.

اگر تصویر میں کوئی غلطی ہے تو وہاں گول دائرہ بنا دیجیے.

اگلے دن تو کمال ہی ہو گیا .

پوری تصویر گول دائروں سے بھری پڑی تھی .

دوسرے روز پینٹر نے ایک اور تصویر پینٹ کی اور اس بار تصویر کے نیچے یہ لکھا.

کہ تصویر میں اگر کوئی غلطی ہے تو غلطی کو درست کر دیجیئے.

اگلے روز تصویر کے نیچے لکھا ملا .

تصویر ہر طرح سے مکمل ہے.

اصل میں مسئلہ پتہ کیا ہے .

ہم لوگ اگر کسی خاص حلقے یا گروپ میں مشہور ہونا چاہتے ہیں تو تنقید نگار بن جاتے ہیں .

سمجھتے یہی ہیں کہ اگر نمایاں نظر آنا ہے تو گلے میں تنقید نگار کی تختی لٹکانا بھی ضروری ہے.

ہم اپنے حکمرانوں کی روز ٹانگیں کھینچتے ہیں یا اپنے محلے کے ناظم کو ہی لے لیجئے.

دماغ میں ہمارے یہی فیڈ یے کہ سب بوتل والے جن ہیں پر کرتا کوئی کچھ نہیں .

ہمارے ملک کے لئے کیا ہی کیا ہے ان گنہگاروں نے.

جبکہ وہی ہم ہیں کہ ہمیں کل رات سرہانے رکھے چائے کے خالی کپ کو اٹھا کر باورچی خانے میں دھو کر رکھنے کے خیال سے ہی کمزوری سی ہونے لگتی ہے .

ارے بھئ دوسرے کا گریبان پکڑنا بڑا آسان کام ہے ( بعد میں بھلے پکڑنے پر جوتے پڑئیں ) پر اپنے گریبان میں جھانکنا بڑا مشکل کام ہے یہاں ویسے بھی آپ کو بد بو کے سوا کچھ نہیں ملنے والا.

ہم وہ لوگ ہیں جو روز گھریلو بول چال میں اخلاقیات کے جنازوں کو بھاگ بھاگ کر کندھے دیتے ہیں پر حکمران ہمیں فرشتہ صفت ہی چاہئیں.

کسی ہیرو کے جیسا، جس کی انگلی سے نیلی شعاعیں نکلتی ہوں اور وہ “چھو ” کہتے ہی سب ٹھیک ٹھاک کر دے .

ایسا تو پھر فلموں میں ہی ہوتا.

اگر آپ ایک پاکستانی شہری ہیں تو ضرور اپنے گلی محلے سے گزرتے بھی ہوں گے.

آپ کو سڑک کنارے کوڑے کے رنگ برنگے ڈھیر بھی ضرور نطر آتے ہوں گے.

یہ ڈھیر دیکھتے ہی ہم اپنے سر کو بڑے مایوسی والے انداز میں جھٹکے دیتے ہیں

کہ جی کیا کر رہے ہیں ہمارے حکمران کیا ان کو یہ کوڑا پڑا نظر نہیں آتا.

حالانکہ ایک ٹرالر منگوا کر پورا محلہ ہم خود بھی چمکا سکتے ہیں.

پر جی ہاتھ کون ہلائے.

ہمیں تو جی بس زبان ہلانی ہی آتی ہے.

سارا دن بستر پر پڑے حکمرانوں پر تنقید کے مضمون لکھتے جائیں اور خود اٹھ کر تنکا بھی مت توڑیں .

ارے اب آپ یہ مت سمجھ لیجیے گا .

کہ میں موجودہ حکومت کے کسی حکمران کی بہت بڑی فین ہوں.

نہیں ایسا کچھ نہیں ، ہمیں معاف ہی رکھیئے.

مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ ہر اچھائی اور برائی ہم سے ہی شروع اور ہم ہی سے ختم ہو سکتی ہے۔

روز رات کو سونے سے پہلے یہ سوچا کیجیے کہ آپ کیا کر رہے ہیں اپنے اس ملک کو سنوارنے کے لئے .

چلیں ملک کہاں آپ سے سنورے گا اپنے شہر محلے یا گلی کو ہی لے لیجیے اگر یہ بھی مشکل لگ رہا تو اپنے گھر سے شروعات کیجئیے .

کچھ تو کیجئیے کہ کل کو آپ کو خود پر یہ مان ہو کہ آپ بھی ایک محب وطن شہری ہیں.

کوڑے کے ابلتے ہوئے ڈبوں میں خالی ریپر پھینکتے ہوئے کبھی یہ بھی سوچا ہے کیا، کہ اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے سے پورا محلہ کتنی بیمایوں سے بچ سکے گا.

اور اگر آپ سے کچھ بھی نہیں ہوتا تو تنقيد نگار بن جائیے یقین جانیں بڑا اسکوپ ہے.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).