فلسطین سے گریٹر اسرائیل تک


 اسرائیل دنیا کی واحد ریاست ہے جس کا قیام ناجائز قبضہ اور منظم سازش کے تحت وجود میں لایا گیا تھا پہلی جنگِ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کے انہدام کے بعد فلسطین کا علاقہ ترکوں کے کنٹرول سے نکل کر برطانیہ کے قبضہ میں آگیا۔ اُس ہی زمانے میں دنیا بھر سے یہودی لوگ فلسطین آنا شروع ہوئے 1939 میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوگئی جرمنی کا حکمران ہٹلر یہودی قوم کے سخت مخالف تھا اُس نے ہزاروں لاکھوں یہودیوں کو قتل کروایا۔

دوسری جنگِ عظیم کا اختتام 1945 میں ہوا یورپ اور دیگر ممالک میں بکھرے یہودیوں کو اپنے لیے ایک علحیدہ ریاست بنانے کا خیال آیا برطانیہ کی آشیرباد سے یہودی پہلے ہی فلسطین میں لاکھوں کی تعداد میں رہائش پذیر ہوچکے تھے یہ شاید تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ غیر ملکیوں نے اصل ورثوں کو اُن کی حقیقی سرزمین سے محروم کر دیا۔ 15 مئی 1947 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کے لیے نئی کمیٹی بنائی جس نے 3 ستمبر کو رپورٹ پیش کی برطانوی انخلا کے بعد اس جگہ یہودی اور عرب ریاست کے ساتھ یروشلم کے شہر کو الگ الگ کردیا جائے یوں 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔

اسرائیل کی آزادی سے عرب ممالک میں بڑا اشتعال غم وغصہ بڑھا 1948 میں ہی عرب اسرائیل پہلی جنگ برپا ہوئی جس میں مصر شام اردن اور لبنان نے حصہ لیا تاہم اس جنگ میں اسرائیل کامیاب رہا۔ یہودیوں کا حوصلہ بڑھتا چلا گیا اور اُنہوں نے مظلوم نہتے فلسطینوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے 1967 میں مصر اردن شام اور عراق نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کی اس چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی فضائیہ نے جنگ کا پانسہ ہی پلٹ کر رکھ دیا غزہ کی پٹی جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر اُس کا قبضہ ہوگیا یہ جنگ بھی اسرائیل کے نام رہی۔

1973 کو مصر شام کی افواج نے گولان کی پہاڑیوں اور جزیرہ نماسینائی پر حملہ کردیا اس جنگ میں بھی عرب ناکام رہے چند لاکھ آبادی والی ریاست اسرائیل نے کروڑوں آبادی والے عرب ممالک کو مسلسل تیسری بار جنگ میں شکست دے دی۔ آخر وہ کیا محرکات و اسباب ہیں کہ وہ کل بھی طاقتور تھا اور آج ماضی کے مقابلے کئی گنا زیادہ مستحکم خوشحال اور مضبوط ہوچکا ہے۔ اسرائیلی حکمران اپنے ملک کی معیشت دفاع سائنس و ٹیکنالوجی تعلیم پر خصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں دفاع کا یہ عالم ہے کہ ہر اسرائیلی شہری کے لیے ضروری ہے کہ وہ 18 سال کی عمر کو پہنچ کر 2 سال فوج میں ملازمت کرے اُس کے بعد چاہے جس مرضی شعبہ زندگی کا انتخاب کرسکتا ہے۔

2014 میں اسرائیل کی آبادی 81 لاکھ 46 ہزار افراد پر مشتمل تھی جس میں 61 لاکھ 10 ہزار یہودی تھے اسرائیل کی آرمی کا شمار دنیا کی طاقتور ترین افواج میں ہوتا ہے اس ملک کی آرمی کی تعداد ایک لاکھ 76 ہزار کے لگ بھگ ہے جبکہ ریزرو فوجیوں کی تعداد چار لاکھ 45 ہزار ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں تاہم بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے برادرعرب ممالک اپنے وسائل کو فقط بلند وبالاعمارتوں محلات کی تعمیراور دیگر تزئین وآرائش کے منصوبوں پر دل کھول کر سرمایہ خرچ کررہے ہیں نیزوہ اپنے دفاع وسلامتی سے مکمل طور پر غافل دکھائی دیتے ہیں۔

ترکی مصر اردن نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے جبکہ عصرِ حاضر میں متحدہ عرب امارات اور عمان اُس کو تسلیم کرنے کا پختہ ارادہ کیے ہوئے ہیں گزشتہ دنوں اسرائیلی وزیراعظم بینجامن نیتن یاہو نے عمان کا دورہ کیا اور سلطان قابوس سے خصوصی ملاقات بھی کئی سلطان قابوس نے نہایت پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا علاوہ ازیں اسرائیلی وزیرٹرانسپورٹ نے بھی عمان کا دورہ کیا جس میں اسرائیل اورعرب ممالک کے مابین ریلوے لائن بچھانے کے معاملے پر بات چیت ہوئی۔

جس قوم نے عربوں کی زمین پر قبضہ کرکے اپنا ملک بنایا اُس کے ساتھ سفارتی وتجارتی تعلقات قائم کرنے میں عرب ممالک کو کیوں اتنی دلچسپی محسوس ہورہی ہے۔ یہودی گریٹر اسرائیل منصوبے پر گامزن ہیں اُن کی نگاہیں عربوں کے تیل و دولت پر لگی ہوئی ہیں تاریخ گواہ ہے یہودیوں نے جس سے بھی دوستی کی اُس قوم کو تباہ وبرباد کرکے ہی دم لیا حقائق کا ادراک ہونے کے باوجود مسلم ممالک خواب غفلت میں سو رہے ہیں۔ اسرائیلی آرمی جب چاہے جس جگہ چاہے نہتے بے بس معصوم فلسطینوں پر گولہ باری فائرنگ شروع کردیتی ہے مغربی ممالک ایک رسمی مذمتی بیان جبکہ اوآئی سی ممالک اپنا ہنگامی اجلاس طلب کرکے اپنی ذمہ داریوں سے بری الزمہ ہوجاتے ہیں۔

آج بھی ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی عوام مہاجرین کیمپوں میں انتہائی کسمپری کی زندگیاں بسر کررہے ہیں اُن ماؤں کے دلوں پر کیا بیتی ہوگی جو ہر روز اپنے بچوں کی قاتل اسرائیلی افواج کو اپنے اردگرد موجود دیکھتی ہیں۔ اُس عوام کے کیا جذبات ہوں گے جو اپنے ہی وطن میں قیدی جیسی زندگی بسر کررہے ہیں عیش وعشرت والی زندگی کا لطف اُٹھانے اور علیشان محلات میں رہنے والے بھلا کیا جانے کہ مہاجرکیمپ بمباری گولہ باری قابض افواج قید جیل سزائیں تشدد کس آزمائش کا نام ہے۔ آزادی ایک نعمت ہے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک عراق شام اور فلسطین کے موجودہ خراب حالات سے عبرت و سبق حاصل کریں جو قومیں اپنے ماضی اور غلطیوں سے سیکھتی ہیں وہ ہی ہمیشہ خطرات مسائل مصائب و مشکلات اور آزمائشوں کے عفریت سے نجات پاتیں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments