سنگین غداری کیس کے پاکستان کے مستقبل پر اثرات


سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا کہ، ”مشرف 2 مئی کو پیش نہیں ہوتے تو کیس کا ٹرائل ملزم کی غیرحاضری میں مکمل کیا جائے“۔ سنگین غداری کا کیس درج کروانا حکومت ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس کیس کا آغاز کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت پر دباؤ رہا لیکن آصف زرداری نہیں مانے۔ نواز شریف کی حکومت کا آغاز پانچ جون 2013 میں ہوا تو اس سے اگلے دن سپریم کورٹ میں اسی کیس کے متعلق بات کرتے ہوئے بنچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر متعلقہ اتھارٹی اس کو شروع کرنے سے اجتناب بھی کرے تو پھر بھی ہم آرٹیکل چھ کی وضاحت ضرور کریں گے۔

معزز جج نے کہا کہ عدالت اس کا فیصلہ دے کرایسی تاریخ رقم کرنا چاہتی ہے جو مستقبل میں نظیر بن جائے۔ پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اٹارنی جنرل کو حکم دیا جائے کہ وہ نئی حکومت سے اس کیس کے بارے میں ہدایات لے کیونکہ عبوری حکومت نے اس کا آغاز کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 30 جون کو قومی اسمبلی کے فلور پر وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ نومبر 2007 کے مشرف کے اقدام پر سنگین غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔

اس سے اگلے دن پرویز مشرف کے فیس بک کے پیج پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی ایک تحریر بعنوان، ”حقیقت سے فرار“ شائع ہوئی جس میں انہوں نے موجود ججوں کو متاثرہ فریق قرار دیتے ہوئے ان کی موجودگی میں ٹرائل پر اعتراض کیا لیکن کہا کہ عقل کا تقاضا ہے کہ ایک کمیشن قائم کیا جائے جواس کے ساتھ پچھلی فوجی بغاوتوں اور ان کے مددگاروں کی بھی شناخت کرے۔ اور ان تمام کا نام رول آف اونر سے نکال باہر کرے تاکہ مستقبل کی نسلیں سیاہ اور سفید میں تمیز کر سکیں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ فوجی آمروں کے حکومت پر ناجائز قبضوں سے بھری ہوئی ہے۔ جمہوریت اکہتر میں سے تینتیس سال ان حکمرانوں کی بھینٹ چڑھ گئی اور باقی ماندہ سالوں میں بھی آمرانہ آئینی ترامیم سے چھٹکارہ پانے اور ان کی باقیات کے عتاب جھیلتے لڑکھڑاتی رہی۔ اس ملک کا حصول جمہوری طریقہ سے چلائی گئی تحریک کی کامیابی سے ممکن ہواتھا اورجمہوریت کو ہی اس کا مستقبل قرار دیا گیا تھا۔ آمریت جدید دور میں پوری دنیا میں بری گنی جاتی ہے۔

اورآمرکو کہیں بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ پچھلی صدی میں دنیا کے بہت سے ممالک میں آمریت ختم ہوئی اور آمروں پر مقدما ت چلے تاکہ مستقبل میں آمروں کا رستہ روکا جا سکے۔ The Trial of Juntas کسی بھی جمہوری حکومت کے تحت وسیع پیمانے پر ہونے والے مقدمہ کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس میں ارجنٹائن کے سابق آمروں کی حکومتوں کے خلاف رتقریبا چھ سو افراد پر مقدمہ چلا اور مختلف لوگوں کو 14 سال سے ہزار سال تک کی سزائیں دی گئیں۔

ججوں اور گواہوں کو دھمکیاں بھی ملی ایک جج قتل ہوا، کچھ گواہ غائب ہوئے لیکن ٹرائل مکمل ہوا اور اس ٹرائل کی وڈیو کیسٹوں کو ناروے پہنچا کر وہاں کی پارلیمنٹ کی حفاظت میں دیا گیا جو وہاں اب تک ملک کے آئین کی اصل دستاویزکے ساتھ محفوظ ہیں۔ اس ٹرائل میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سابق ایگزیکٹوز کو بھی سزائیں ملیں جنہوں نے فوجی جنتا کا ساتھ دیا تھا۔ چلی کے ڈکٹیٹر Pinochetنے امریکی اشیرباد سے منتخب حکومت پر 1973 میں بغاوت کر کے قبضہ کر لیا۔

ریفرنڈم میں گورنمنٹ کے تیار کردہ آئین کی منظوری لی گئی جس میں اس کے اس اقدام کو جائز قرار دیا گیا۔ حکومت کے اختتام کے بعد جب وہ لند ن آیا ہوا تھا تواس کو سابق حکمران کے طور پر حاصل ڈپلومیٹک امیونٹی کے باوجود گرفتار کرلیا گیا۔ بالآخر اس کوصحت کی خراب حالت کی وجہ سے چلی واپس بھیج دیا گیا جہا ں چلی کی سپریم کورٹ نے اس کی پارلیمانی تحفظ کی شق کوختم کرتے ہوئے اس پر مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔ تاہم بعد میں کہا کہ وہ بیماری کی شدت کے باعث مقدمہ کا سامنہ کرنے کے قابل نہیں۔

2016 میں اپنی 91 سالگرہ کے موقعہ پر اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ”اب جب کہ میں مرنے کے قریب ہوں میری حکومت میں جو کچھ بھی ہوا اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں اگر چہ میں اتنا بوڑھا ہو چکا ہوں کہ میں انصاف کے لئے خود کو پیش نہیں کر سکتا۔ “ اس کے دو ہفتہ بعد وہ مر گیا۔ چلی کے سابق آمرکی گرفتاری اور ملک بدری قانونی طور پربہت اہم ہے اس سے ایک مثال قائم ہوئی کہ سابق اور موجودہ آمروں کو انٹرنیشنل قوانین کے تحت ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔

رومانیہ کے کیمونسٹ آمر چاؤشسکو جس نے بیس سال سے زائد حکومت کی اور اس کی بیوی پر 1989 میں کرسمس والے دن مقدمہ چلا جو کہ صرف ایک گھنٹہ جاری رہا اور ان کو اسی دن موت کی سزا دے دی گئی۔ جنرل فرانسسکو فرانکو سپین کا فوجی آمر تھا جس نے ملک پر چھتیس سال حکومت کی۔ وفات کے بعد اس کو شہدا کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اگست 1918 میں سپین کے وزیر اعظم نے ایک قانونی ترمیم کی منظوری دی جس کے تحت اس قبرستان میں صرف وہی دفن ہونے کا حق رکھتے ہیں جنہوں نے سول وار کے دوران اپنی جان کی قربانی دی اس طرح عوام کا آمر کی لاش کی باقیات کو وہاں سے منتقل کرنے کا دیرینہ مطالبہ پورا کرنے کا راستہ ہموار ہوا۔ اب اس سال جون میں اس کو وہاں سے نکال دیا جائے گا۔

آمریت اور ڈکٹیٹر شپ عوام الناس پر حکومت کے وہ طریقے ہیں جن میں ایک سخص اپنے حواریوں کے ساتھ یا اکیلا مکمل سیاسی طاقت حاصل کر لیتا ہے اور اپنے اقدامات کا کسی کو جواب دہ نہیں ہوتا۔ وہ ملک کے کسی قانون کا تابع نہیں ہوتا وہ ملکی قانون کو توڑ کرطاقت کے زور پر حکومت پر قبضہ کرتا ہے۔ بعض مرتبہ وہ حکومت پر تو جائز طریقے سے آتا ہے لیکن بعد میں آئین کی پابندی نہیں کرتا اور ماورائے آئین اقدامات شروع کر دیتا ہے۔

ہٹلر قانونی جمہوری طریقے سے آیا تھا۔ اور آمر بن گیا۔ روم میں کسی فوجی جنرل کو شہر کے اندر فوج کے ساتھ داخلے کی اجازت نہ تھی۔ 133 قبل مسیح تک روم ایک چھوٹی سی شہری ریاست سے بڑھ کر ایک عالمی طاقت بن گیا تھا۔ جنگوں میں فتوحات سے جنرلوں کے پاس بہت سی دولت آ گئی اور فوج میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد میں اضا فہ ہوتا گیا اور ان کو فوجی طاقت کی بنیاد پرذاتی مفادات کے حصول کے راستے ملنے شروع ہو گئے۔ سولا پہلا جنرل تھا جو فوج کے ساتھ 82 قبل مسیح میں روم میں داخل ہوا اور ڈرپوک سینٹ سے لا متناہی اختیارات کے ساتھ منتخب ہو گیا۔

یہ فوجی طاقت سے غیر آیئنی آمریت کا حصول تھا۔ 46 قبل مسیح میں جولیئس سیزر بھی فوج کے ساتھ آیا اور تا حیات حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور اسی سال مارا گیا۔ اس کے قاتلوں نے خود کو آمریت کے خلاف کام کرنے والے مجا ہدوں کے طور پر پیش کیا۔ مصر کی ملکہ ہاشیپسٹ توتموس فرعون کی بیٹی اپنے خاوند توتموس دوئم کی وفات کے بعد توتموس سوم جس کی عمر دو سال تھی کے ساتھ مدد گارکے طور حکومت میں آئی۔ اگر چہ وہ کامیاب ترین حکمران ثابت ہوئی اس کے دور میں تجارتی روابط اور فتوحات میں اضافہ ہوا وہ شوگر اور ہڈیوں کے کینسر میں مبتلا تھی۔

اس کی وفات کے بعد توتموس سوم کو حکومت ملی تو اس نے حکم دیا کہ وہ غیر قانونی حکمران تھی اس لئے اس کا نام تمام جگہوں سے مٹا دیا جائے۔ اس کے بت توڑ دیے گئے اور فرعونوں کی لسٹ سے اس کا نام ختم کرکے دوم سے سوم کو براہ راست حکمران درج کر دیا گیا۔ 1903 میں ہاورڈ کارٹر نے اس کی ممی دریافت کی تو پھر اس صدی کے آخر تک مختلف دریافتوں، دیواروں سے مٹائی گئی اور ٹوٹی ہوئی مورتیوں سے کہانی مکمل ہوئی تو اس کے کردار سے پردہ اٹھا ورنہ اس کی ناجائز حکومت اس کے ساتھ ہی دفن ہو چکی تھی۔

پرویز مشرف کی حکومت ناجائز تھی اس کے نومبر کے فرمان کو کسی عدالت یا اسمبلی نے آئینی تحفظ نہیں دیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ انتہائی مناسب ہے کہ یہ کیس ایسا ہے کہ اس کو مستقبل میں ایک مثال کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اس کیس کو حتمی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ اس حکمنامے کی وجہ سے جسٹس ڈوگر نے چیف جسٹس کے طور پر کام کیا تھا۔ لیکن اس کا نام پاکستان کے چیف جسٹس کی لسٹ سے خارج کر دیا گیا اور اس کے نام کے ساتھ De facto Chief Justice لگا دیا گیا۔

اب مشرف کی باری ہے۔ اس کیس کے نتیجے سے مستقبل کی نسلیں سیاہ و سفید میں امتیاز کرنے کی قابل ہوں گی اور ہم بھی مہذب دنیا میں جمہوری قوم کے طور پر سر اٹھا کر چل سکیں گے۔ مستقبل کے پاکستان میں ڈکٹیٹر شپ کا راستہ روکنے سے ہمارے ملک میں بھی کروڑوں لوگوں کی گردن میں آئندہ سے ظالمانہ اور آمرانہ حکمرانوں کی غلامی کا شکنجہ نہیں پڑے گا اور اس سے اقوام متحدہ کے بنیادی چارٹرمیں مندرج انسانی آزادی کی شق کی تائید ہوگی۔ مناسب ہے کہ کرنل قذافی کے بیان سے جو اس نے عرب ممالک کے حکمرانوں کے خلاف دیا تھا ایک لائن ادھار لی جائے کہ وقت آگیا ہے کہ، ”اس جیسی حکومتوں کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے“ (حالانکہ کہ اس کی اپنی حکومت بھی اسی لائق تھی اور اسی انجام کو پہنچی) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).