بیساکھی کا میلہ یادوں کے جھروکے سے


 سُنو مَیں روز دیکھتا ہوں کہ پچھلے گاؤں سے دُھواں اُٹھتا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ دُھواں کس چیز کا ہے؟ بُوڑھے آم کا درخت پوپلر کے درخت سے کہہ رہا تھا۔ یہ دُھواں کھانا پکانے کا نہیں کیونکہ ایک تو یہ صبح تقریباً 9 بجے کے قریب اُٹھتا ہے اور اس میں سے عجیب سی سڑن والی بدبو سی اُٹھتی ہے۔ آخر یہ ہوکیا رہا ہے؟ چلو کل پنچھیوں سے پوچھیں گے۔ اگلے دن آم کے درخت نے اپنی شاخ پہ بیٹھی کوئل سے پوچھا: ”بی کوئل!

سُنو تمہارے بارے میں کہاوت ہے کہ تم دوسروں کے پیغام لے کر آتی ہوتو بتاؤ تو سہی کہ برابر والے گاؤں سے آخر یہ روز ایک مخصوص وقت میں اتنا تیز اور بدبو دار دُھواں سا کیوں اُٹھتا ہے؟ ارے مت پوچھو! وہاں آبادی سے باہر ایک گڑھے میں کچھ جلایا جاتا ہے۔ آم کے درخت نے پوچھا کیا جلایا جاتا ہے؟ کوئل نے جواب دیا انسان کی ایک دوسرے سے محبت، امن اور رواداری ”۔ پوچھا کون جلاتا ہے؟ جواب دیا :۔ “ خود انسان ”۔ درخت سے ذرا پَرے گندم کی بالیوں سے بھرے کھیت تھے وہ سب سُن رہے تھے جھٹ سے گندم کے سنہری دانے بول پڑے ہائے!

کیا محبت سے بھرے دن تھے جب موسم بدلتے ہی بیساکھی کا میلہ سج جاتا تھا۔ ڈھول کی تھاپ پہ گاؤں کے لوگ اکٹھے ہوجاتے، گند م کی کٹائی شروع ہوجاتی۔ عورتیں ڈھولک کی تھاپ پر ٹپے اور ماہیے وغیرہ گاتیں۔ مر داور لڑکے بالے جھوم جھوم کر بھنگڑا ڈالا کرتے۔ پورا کا پورا گاؤں مل جُل کر گند م کی کٹائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سب تہوار خوشیوں کے ہرکارے سمجھے جاتے تھے اور کوئی ہندو، سکھ، عیسائی یا مسلمان نہ تھا۔

بیساکھی کا میلہ سانجھا ہوتا تھا۔ پھر پتہ نہیں کیسے یہ بڑے بڑے گڑھے کھود دیے گئے اور مذہبی عصبیت کی آگ دہکا کر اس میں سب تہوار، رسم و رواج جلادیے گئے۔ نفرت کی آگ سے اُٹھتا یہ دُھواں گاؤں چھوڑ سب شہروں اور ملکوں میں پھیل گیا۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کتنی منصوبہ بندی سے یہ ڈرامہ سٹیج کیا گیا۔ پھر کمال درجے سے تہواروں کو کاٹ کر الگ الگ کردیا گیا اور پھر بیچ میں ہی کہیں دہشت گرد بھی آن دھمکے۔ بی کوئل!

تم تو اُڑان بھر کر اِدھر اُدھر جاتی رہتی ہوبتاؤتو پرانے دنوں کی کچھ یادیں تازہ کرو۔ کوئل نے اک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگی ہائے! بڑے بوڑھوں کے مطابق 1947 ء سے پہلے پنجاب کے تمام کسان مذہبی تقسیم سے بالاتر ہوکر گندم اور اور دیگر ربیع کی فصلوں کی کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے اور میلے منعقد کرتے تھے۔ ان تمام میلوں ٹھیلوں میں رونقیں اور محبتیں عروج پر ہوتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انسانیت ابھی مذہبی تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھی تھی۔ شہروں سے مختلف دکاندار پہنچ جایا کرتے تھے اور اپنی دکانیں سجایا کرتے تھے۔ جادوگر، رسے پہ ناچنے والے، مداری، اداکار، گلوکار، رقاص اپنی کاریگری سے لوگوں کے دلوں کو بہلاتے تھے۔ تب کوئی شخص بھی ایک دوسرے کے خلاف بدظنی کا زہر نہیں گھولتا تھا بلکہ ٹپے، ماہیے اور عوام کے مقبول گانے یوں گائے جاتے تھے۔

فصلاں دی مکھ گئی راکھی

جٹا آئی وساکھی آئی وساکھی

 ایک اور مقبول ٹپہ یوں گایا جاتا تھا۔

تانا تنک تانا تنک

#تانا تنک تانا تنک

%تیری بودی میرے ہتھ

#میری گُت تیرے ہتھ

۔ مینوں رکھنا اِی تے رکھ

۔ مینوں کڈھنا اِی تے کڈھ

;مَیں اِی اَو تیرے نال وسی آں

تے ہور کوئی وَسے وی ناں

 یہ انہی دنوں کے زبان زد عام نعرے ہوتے تھے۔ برصغیر کی تقسیم میں بننے والی بہت سی فلموں میں بیساکھی سے متعلق گیت ایک ضرورت سمجھے جاتے ہیں۔ مگر وقت بدلا تو یہ تہوار سکھوں کے مذہبی تہوار کا رتبہ حاصل کرگیا۔ لہذا اب اس کے میلے پنجاب کے کسی گاؤں یا قصبے میں نہیں لگتے بلکہ سکھ یہ تہوار اپنے گُردواروں میں مناتے ہیں۔ پاکستان بننے سے پہلے بیساکھی کا میلہ دریائے راوی کے کنارے اپریل کے مہینے میں منعقد کیا جاتا تھا۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ راوی کے پانی میں نہاتے۔ اسلام آباد سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر راولپنڈی اور پشاور کو ملانے والی جی ٹی روڈ پر ضلع اٹک میں ایک چھوٹا سا شہر حسن ابدال ہے۔ جس کی وجۂ شہرت گُردوارہ پنجہ صاحب ہے۔ اس گردوارے کی مقدس علامت بابا گورونانک کے ہاتھ کا وہ نشان ’پنجہ‘ ہے جو ایک پتھر پر نقش کی صورت میں موجود ہے۔ اس کی تاریخ تقریباً 300 سال پرانی ہے۔ ہر سال اپریل کے مہینے میں دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتری پنجہ صاحب زیارت کرنے یہاں آتے ہیں۔

بیساکھی میلے کو اس سال 312 سال مکمل ہوجائیں گے۔ باباگورونانک کے جنم دن کے بعد بیساکھی سکھ مذہب کا دوسرا بڑا تہوار ہے۔ 1699 ء سے پہلے بیساکھی کو گندم کی کٹائی کا مہینہ سمجھا جاتا تھا۔ پھر گوبند رائے نے سکھوں کے دسویں گورومذہب کے احیاء کے لیے پانچ جزو کو لازمی قراردیا اور یوں یہ دن ایک میلے کے طور پر منانا شروع کیا۔ عموماً پنجہ صاحب کے بعد سکھ یاتری بابا گورونانک کی جائے پیدائش ننکانہ صاحب بھی جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق بیس ہزار سکھ بستے ہیں جن میں سے زیادہ تر پشاور میں آباد ہیں۔ ان کے لیے بیساکھی وہ توقع ہوتا ہے جب وہ اپنے سرحد پار رشتہ داروں سے مل پاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بیساکھی مذہبی تہوار ہونے کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں سے ملنے کا بھی میلہ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ بیساکھی تہوار کو منانے کا مقصد آپس میں اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ اس تہوار کے ساتھ ہی کسان گند م کی فصل کی کٹائی بھی شروع کردیتے ہیں جو ان کے لیے انتہائی مسرت اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔

بیساکھی کے تہوار کے حوالے سے پنجاب بھر کے شہروں میں میلے منائے جاتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ اس وقت بہار اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ پھول اپنی خوشبو بکھیر رہے ہوتے ہیں اور آم کے درختوں پہ بُور اور کلیوں کی بہتات ہوتی ہے۔ اس میلے میں مختلف کرتب بھی دکھائے جاتے ہیں جنھیں دیکھ کر لوگ محظوظ ہوتے ہیں۔ وسط اپریل میں پنجاب میں جہاں گندم کی کٹائی شروع ہوتی ہے وہیں دیسی مہینے بیساکھ کا آغاز بھی ہوجاتا ہے۔

ماضی میں بیساکھی کا میلہ کسی خاص مذہب سے منسوب نہیں تھا۔ حکومت ِ پاکستان ان کی آمدو رفت اور حفاظت کے لیے خصوصی انتظام کرتی ہے۔ حکومت ِ پنجاب کی طرف سے ویزوں اور ایمیگریشن سے لے کر سب خصوصی انتظامات پوری شدو مد سے کیے جاتے ہیں۔ بیساکھی میلے کا آغاز گردوارہ پنجہ صاحب میں گرنتھ صاحب کے پارٹ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ مذہبی رسومات کے دوران یاتری گردوارے کے درمیان واقع تالاب میں اشنان کرتے ہیں۔ سکھ عقیدے کے مطابق اس تالاب میں نہانے سے ان کے تمام کردہ گناہ دُھل جاتے ہیں۔

گردوارے میں بہنے والے چشمے کے پانی کو سکھ یاتری مقدس سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بوتلوں میں لے جاتے ہیں تاکہ جو زائرین یا یاترا پر نہ آسکے وہ اس سے مستفید ہوسکیں۔ تقریبات کے آخری دن بھوگ کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ سکھ یاتری بابا گورونانک کی بیٹھک میں بڑی عقیدت اور انہماک کے ساتھ بیٹھ کر پارٹ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ پرساد پکائے جاتے ہیں۔ پنجہ صاحب سے فارغ ہوکر پھر ننکانہ صاحب لاہور کا رُخ کرتے ہیں جہاں گُردواروں میں جانے کے علاوہ وہ شاپنگ بھی کرتے ہیں۔

بیساکھی میلے میں آنے والے بہت سے سکھ یاتری اپنے ساتھ مختلف اشیاء خصوصاً کپڑا جس میں سلک اورساڑھیاں وغیر ہ لاتے ہیں۔ مقامی دکانداراور گاہک انھیں شوق سے خریدتے ہیں۔ اس طرح سکھ یاتری اپنے عزیزو اقارب کے لیے پاکستان سے تحائف خریدتے ہیں۔ یوں انار کلی بازار اور دیگر تجارتی مراکز کے تاجروں کو ہرسال بیساکھی کا انتظار رہتا ہے۔ لاہور آنے کے بعد سکھ یاتریوں کی بھارت اور دیگر ممالک میں واپس کا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ یوں بیساکھی کا رنگا رنگ میلہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).