قصہ تمام نہیں ہوا


نیرو تو بانسری بجانے میں اس وقت بھی مشغول رہا جب روم جل رہا تھا۔ زمانۂ قدیم کی ایک بہت بڑی Empire کے اس دارالحکومت میں اکھاڑے مگر کئی صدیوں سے موجود تھے۔خلقِ خدا کے حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے اس دور کی اشرافیہ ان اکھاڑوں میں غلاموں کو شیروں کے سامنے پھینک کر تماشے رچایا کرتی تھی۔

خلافتِ عباسیہ کے زوال کی طرف بڑھتے ہوئے زمانے میں علماء کو بازاروں میں ’’آزادیٔ اظہار‘‘ کے جلوے دکھانے پر اُکسایا گیا۔ وہ یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ کوے جیسے پرندے حلال ہیں یا حرام۔

ہمیں 24/7باخبر رکھنے کا دعوے دار میڈیا جس کے کمائوپوت ’’نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ پر توجہ دیتے ٹی وی چینل ہیں دورِ حاضر کے رومن اکھاڑے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے اساتذہ نے اس میڈیم کو Idiot Boxٹھہرارکھا ہے۔ اس پر خلافتِ عباسیہ کے زوال کے دنوں والے مناظرے رچائے جاتے ہیں۔

پیر اور منگل کے دو دن ٹی وی سکرینوں پر شدومد سے زیر بحث رہا ’’شاہ محمود قریشی بمقابلہ جہانگیر خان ترین‘‘ والا قصہ فروعی موضوعات کو حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے استعمال کرنے کی ایک کلاسکی مثال تھا۔صد شکرکہ منگل کے روز ہوئے کابینہ کے اجلاس کے بعد ہمیں مطلع کردیا گیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے اس قصے کو بھڑکانے والے شاہ محمود قریشی کو خاموش کروادیا ہے۔

تمام وزراء کو سختی سے بتا دیا گیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات بازار میں لانے سے گریز کریں۔ اپنے کام پر توجہ دیں۔ ہمیں یہ حقیقت اگرچہ سرکاری طورپر نہیں بتائی گئی کہ عمران خان نے شاہ محمود قریشی کو کابینہ کے اجلاس کے دوران نہیں ’’ڈانٹا‘‘ تھا۔ان سے اکیلے میں غالباََ فون پر بات کی۔

وزراء کو فقط اس گفتگو کے بارے میں مطلع کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی ویسے بھی منگل کے روز ہوئے اجلاس میں تھوڑی دیر کو شریک ہوئے تھے۔ انہیں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنا تھی۔ اس گفتگو سے پہلے ضروری تھا کہ وہ کابینہ کے اجلاس سے جلد رخصت ہوکر وزارتِ خارجہ پہنچیں۔ اپنے معاونین کے ہمراہ بیٹھ کر متوقع گفتگو کے لئے Talking Pointsتیار کریں۔

معاملہ نظر بظاہر رفع دفع ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں پر اُٹھے شور نے مگر ہمیں دو دن کے لئے یہ حقیقت نظرانداز کرنے میں مدد دی کہ جنوری اور فروری کے بعد مارچ کے سوئی گیس بل بھی Slabs کی کرامات کی وجہ سے ناقابل برداشت ہیں۔پیٹرول کی قیمت میں بھی گرانقدر اضافہ ہوگیا ہے۔

ملکی معیشت پر نگاہ رکھنے والے سٹیٹ بنک نے جو حالیہ رپورٹ تیار کی ہے وہ کسادبازاری سے نجات کی امید نہیں دلاتی۔ ہمیں مزید مہنگائی اور بے روزگاری کو برداشت کرنے کے لئے تیار کررہی ہے۔ میں نے اس کالم میں گزشتہ دو روز سے احمقانہ ضد کے ساتھ ’’شاہ محمود قریشی بمقابلہ جہانگیر ترین‘‘ والاقصہ نظر انداز کیا۔

سوئی گیس کے تازہ بلوں اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ پر واویلا مچاتا رہا۔ وقت گزرگیا ہے تو اب یہ اصرار کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ’’قریشی بمقابلہ ترین‘‘ والا قصہ تمام نہیں ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے ’’اندرونی اختلافات‘‘ اپنی جگہ موجود ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ بلکہ ان میں مزید شدت آئے گی۔

یہ شدت پنجاب میں عثمان بزدار کا متبادل ڈھونڈتے ہوئے نمایاں ہوتی چلی جائے گی۔ متبادل کی تلاش کے دوران پنجاب میں علیم خان جیسی کوئی بڑی گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔ پنجاب کے گورنر کے ہمراہ بیٹھ کر شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کے بارے میں جو فضا بنائی وہ بنیادی طورپر Post Buzdarکھیل کا نقشہ بنانے کی تیاری تھی۔

شاہ محمود قریشی کی خواہش ہے کہ انہیں یہ نقشہ تیار کرکے اسے عملی صورت دینے کا مکمل اختیار دیا جائے۔ عمران خان صاحب یہ اختیار دینے کو تیار نہیں۔ جہانگیر خان ترین کی Managerial Skills پرتکیہ کرنے کو بضد ہیں۔ بزدار صاحب کے پرجوش ’’ترجمان‘‘ کی ’’انتظامی صلاحیتوں‘‘ کو بروئے کار بھی لانا چاہ رہے ہیں۔پنجاب میں قابلِ بھروسہ ’’متبادل‘‘ فی الوقت ان کے ذہن میں موجود نہیں۔

خواہش ہے کہ ’’جنوبی پنجاب‘‘ کا Talentاستعمال کرلیا۔ اس خطے سے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ تیار نہیں ہوپایا۔ اب وسطی پنجاب سے کوئی نگینہ ڈھونڈا جائے۔وہاں سے گوہر مقصود دستیاب نہ ہوا تو میانوالی اور چکوال پر بھی توجہ دی جاسکتی ہے۔

گجرات والوں کو پلیٹ میں رکھ کر اٹک سے لے کر رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی کمان عطا کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ متبادل مقصود کی دریافت تک عثمان بزدار ہی لہٰذا وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالے رہیں گے۔

دریں اثناء انتظامی مشینری جہانگیر خان ترین سے ہدایات لیتی رہے گی۔ ان ہدایات پر عملدرآمد کے لئے شہباز گل متحرک ہوچکے ہیں۔تخت یا تختہ والے الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب اسمبلی میں آئے ایم پی ایز کو یہ انتظام مگر پسند نہیں آئے گا۔ وہ خود کو ایسے ماحول میں ’’بے وقعت‘‘ ہوا محسوس کرتے ہیں۔

راولپنڈی کے اعجاز جازی کی طرح اپنے ووٹروں کے سامنے پھٹ پڑتے ہیں۔ ان کی گفتگو کی وڈیو وائرل ہوجائے تو معافی تلافی کا تردد نہیں کرتے۔ اپنا ’’مان‘‘ رکھنے کی لگن میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔یونین کونسل سے وفاقی وزارتوں تک پہنچے شاہ محمود قریشی جیسے ’’وراثتی سیاست دانوں‘‘ کو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ایم پی ایز کے ’’درد‘‘ کا جبلی طورپر اندازہ ہوتا ہے۔

وہ ان کی ’’چھتری‘‘ بننے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ایسے میں چودھری سرور جیسے متحرک گورنر کی معاونت بھی نصیب ہوجائے تو سونے پر سہاگہ ہوجاتا ہے۔ جہانگیر خان ترین جیسے ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ کی لگائی گیم کو ناکام بنانا آسان دکھائی دیتا ہے۔عثمان بزدار کی ممکنہ فراغت کو ذہن میں رکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی کے پاس سرائیکی وسیب کے احساسِ محرومی والا کارڈ بھی ہے۔

ملتان سے رحیم یار خان تک پھیلے خطے کے مخدوم اور بلوچ سردار انہیں ’’اپنا‘‘ سمجھتے ہیں۔ایک دیہی پنجاب بھی ہے۔ زمیندار کی سوچ اور ترجیحات شہری بابوئوں سے قعطاََ مختلف ہوتی ہیں۔ دھڑے بندی اور ڈیرے داری کے اپنے تقاضے ہیں۔

’’رقبے‘‘ آبادی کے پھیلائو کے باعث سکڑرہے ہیں۔کھاد اور بیج مہنگے ہورہے ہیں۔ڈیزل بھی مہنگا ہوگیا۔ گندم کی کٹائی کے بعد کیا بیجا جائے والا سوال اپریل میں اہم ترین ہوجاتا ہے۔ شاہ محمود قریشی اس سوال کا ’’جواب‘‘ فراہم کرنے کو بے چین رہیں گے۔ جہانگیر خان ترین کی “Corporate Framing”کو ناکام بنانے پر تل جائیں گے۔ مختصراََ مزید تماشے دیکھنے کے لئے تیار رہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).