صدارتی طرز حکومت کی جاری حالیہ بحث


انسانی تاریخ کے مطابق معاشروں، بستیوں اور ملکوں میں رہنے کے کچھ طور طریقے طے کیے جا چکے تھے۔ ان طور طریقوں کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب کمزور انسان کے پاس طاقتور کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نا انصافی اور طاقت کے بل بوتے پر اپنی دھونس قائم کرنے والوں کے خلاف معاشرے نے برابری اور کمزور کے تحفظ کے لئے کچھ اصول وضع کئیے۔ ہم یہ بھی خیال کر سکتے ہیں کہ شروع میں ہو سکتا ہے یہ اصول و ضوابط زیادہ تر طاقتور کے حق میں ہی بنے ہوں گے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسانی شعور ارتقا کی منازل طے کرتا گیا ان میں جدت اور توازن آتا گیا۔ علم عمرانیات کی رو سے مختلف معاشروں میں ایسے مروجہ اصولوں کو طرز حکومت کہا جاتا ہے۔

موجودہ دور میں ہر ملک کا طرز حکومت یا نظام حکومت مختلف ہوتا ہے جو اس ملک کے لوگوں کی تاریخ، ثقافت، معاشرت یا مذہب کے مطابق تیار کیا گیا ہوتا ہے۔ اور اس طرح دہائیوں اور صدیوں کی سیاسی ریاضت کے بعد وہ مخصوص نظام حکومت وہاں کی عوام کا نبض شناس بنتا ہے۔ کسی ملک میں اگر پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے تو کہیں صدارتی طرز کا نظام۔ کہیں کسی مذہب کے قوانین کے مطابق ملک چلانے کی کوشش ہو رہی ہے تو کہیں آمرانہ حکومتیں مسیحا بننے کی دعویدار ہیں۔ الغرض دنیا کے ہر خطے میں زیادہ تر وہاں کے عوام کے مزاج کے مطابق حکومت چلائی جاتی ہے کہ وہ کس نظام میں طمانیت محسوس کرتے ہیں۔

وطن عزیز میں ایک بار پھر طرز حکومت کی بابت شروع ہے۔ ہمارے ملکی معاملات و ریاست پارلیمانی جمہوری نظام کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ حالیہ بحث میں ایک طبقہ بڑی شد و مد سے صدارتی نظام حکومت کے صدقے واری جا رہا ہے۔ اس طبقے کی جانب سے ایک رائے کی حد تک تو اس بات کا احترام ضرور کیا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا کھوج بھی لگانا چاہیے کہ اس نظام کے حامیوں کے پاس وطن عزیز کے حوالے سے وہ کون سی حقیقی کامیابیاں یا سیاسی دلیلیں ہیں جن کی بنیاد پر یہ احباب صدارتی نظام کو بہتر خیال کرتے ہیں۔

صدارتی نظام حکومت کے حامی سب سے پہلے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی اس پرائیویٹ ڈائری کا حوالہ دیتے ہیں کہ جس پہ قائد اعظم نے اپنے ہاتھ سے لکھا کہ ملک کا نظام صدارتی طرز کا ہی بہتر ہو گا۔ یہ حوالہ سب سے پہلے 1983 میں منظر عام پہ آیا جب مرحوم جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوری میں نظام حکومت کے بارے بات ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اس قدر اہم تحریر کیونکر 35 سال تک پاکستانیوں کی نظروں سے اوجھل رہی؟ اس واقعہ سے اب آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ صدارتی نظام کا ذکر فوجی ادوار میں ہی کیوں زیادہ ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ غیر سیاسی لوگ ہی اس نظام کے زیادہ کیوں حامی ہیں۔

پاکستان وجود میں آیا تو انڈین ایکٹ 1935 میں ترمیم کر کے اسے بطور عبوری آئین نافذ کر دیا گیا۔ کابینہ نے اپنے سارے اختیارات گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کو تفویض کر دیے۔ آپ کی رحلت کے بعد دستور ساز اسمبلی نے پہلا دستور مکمل کر کے 1956 میں نافذ کیا۔ ذرا مزید ماضی قریب میں آتے ہیں، مرحوم صدر ایوب نے گورنر جنرل اسکندر مرزا کے ساتھ مل کر اقتدار پہ قبضہ کرتے ہوئے 1956 کا آئین منسوخ کر دیا۔

جنرل ایوب خان نے 1962 میں نیا آئین بنا کر ملک کو وحدانی طرز حکومت کی طرف دھکیل دیا لیکن چونکہ یہ ایک مصنوعی تبدیلی تھی جسے لوگوں نے قبول نا کیا۔ جنرل محمد ایوب خان کی اس عاقبت نااندیش رویے اور ضد کا تاوان قوم نے باہمی رقابتوں، رنجشوں اور ملک ٹوٹنے کی صورت ادا کیا۔ بقیہ پاکستان میں سیاستدان بزرگوں کی بصیرت نے 1973 میں دوبارہ سے پارلیمانی طرز پہ آئین بنا کر قوم کو دیا اور وہ سفر دوبارہ شروع کیا گیا جو 1956 میں راہزنی کا شکار ہوا تھا۔

ہر شخص کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ بالکل اسی طرح اس نظام کے حامیوں کی رائے کا پاس بھی ضرور کرنا چاہیے۔ لیکن یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ صدارتی نظام کی حمایت کرنے والا طبقہ سیاستدانوں پہ مشتمل نہیں ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ابھی تک کسی سیاسی جماعت نے کھل کر صدارتی نظام کا نعرہ بلند نہیں کیا۔ اس نظام کی حمایت یا تو فوجی ڈکٹیٹر کرتے ہیں یا ان کے کاسہ لیس۔ اس کے علاوہ آج کل زیادہ تر ریٹائرڈ ٹیکنوکریٹ اس نظام کے بڑے داعی ہیں جنہیں ڈرائینگ روم گروپ بھی کہا جاتا ہے یا وہ انفرادی آوازیں جو کسی نا کسی صورت میں فوجی حکومتوں کا حصہ رہی ہیں یا ان کی ہم خیال۔

اس ڈرائینگ روم گروپ کا استدلال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام حکومت میں اس ملک کو چلانے کی اب مزید سکت نہیں رہی۔ اس ضمن میں جو جواز پیش کیا جاتا ہے وہ یہ کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران چونکہ زیادہ تر تعلیم یافتہ نہیں ہوتے مزید یہ کہ وہ کم و بیش تمام کے تمام بدعنوان ہوتے ہیں لہذا وہ کاروبار حکومت چلانے کے اہل نہیں رہتے۔ ان کے خیال میں چونکہ وزیر اعظم پارلیمنٹ کے ان ممبران کے ووٹ سے منتخب ہوتا ہے اس لئے وزیر اعظم پہ مستقل طور پر ان ممبران کا اپنے خلاف ہو جانے کا خوف رہتا ہے تو وہ وقت پہ درست فیصلے نہیں کر سکتا۔

اگر ایک لمحے کو یہ استدلال تسلیم کر لیا جائے تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ صدارتی نظام کے تحت الیکشن کیا نتائج دیں گے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے سے کوئی امیدوار صدر کا انتخاب لڑ سکے؟ کیا یہ نظام طاقت کے مراکز کو مزید مضبوط نہیں کرے گا؟ لوگ پنجاب کی بالا دستی کا پہلے ہی رونا روتے ہیں کیا پنجاب سے اٹھے کسی امیدوار کو جسے اسٹیبلشمنٹ کی تھپکی بھی مل جائے اس کا کون مقابلہ کرے گا؟ اگر سندھ اور پنجاب کے سیاستدان آپس میں باری تقسیم کر لیں تو خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کا نمبر کب آئے گا؟ خیر اس طرح کے لاتعداد سوالات ہیں جن کے جوابات یہ دوست دینے سے کتراتے ہیں۔

پاکستان چونکہ ایک وفاقی ریاست ہے جہاں صوبے اپنی اپنی حکومت چلا رہے ہیں اور اٹھارویں ترمیم کے بعد تو یہ صوبے بہت سارے معاملات میں مکمل طور پر خودمختار ہیں۔ پاکستان میں موجود صوبائی حکومتوں کی چونکہ ایک تاریخ ہے لہذا اس طرح کے آئینی بندوبست میں صدارتی نظام کا شوشہ چھوڑ کر کوئی ملکی خدمت نہیں کی جا رہی۔ یہ پارلیمانی نظام ہی کے طفیل ہے کہ بلوچستان سے میر ظفر اللہ جمالی پاکستان کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں اور جنوبی پنجاب سے یوسف رضا گیلانی صاحب اسلام آباد کی کرسی پہ جا بیٹھتے ہیں۔

پارلیمانی طرز چونکہ ایک لچکدار نظام ہے لہذا یہاں کے لوگوں کے مزاج خصوصا مختلف صوبوں کی ثقافت اور تہذیب کے مطابق اسے بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ پارلیمانی نظام ہی مضبوط وفاق اور خود مختار صوبوں کی ضمانت دیتا ہے۔ جبکہ صدارتی طرز حکومت کا تلخ تجربہ ہم ایک مرتبہ کلی طور پر اور تین مرتبہ جزوی طور پر کر چکے ہیں۔ صدارتی نظام اختیارات کو ایک جگہ مرتکز کر کے حقیقی قیادت کو کس طرح کچل دیتا ہے وہ ہم مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی صورت میں دیکھ چکے ہیں اور پارلیمانی نظام کس طرح مسائل کو باریک بینی اور خوش اسلوبی سے سلجھاتا ہے اس کا مشاہدہ بھی ہم اٹھارویں ترمیم کی صورت میں کر چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).