انگور کا رس


کچھ عرصہ گزرا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈاپور جس گاڑی میں سوار تھے اُس گاڑی سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوئیں۔ اب علی امین یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ گاڑی یا بوتل ان کی نہیں سو انھوں نے کہہ دیا کہ اس بوتل میں شراب نہیں، شہد ہے اور اپنے اس بیان پر وہ آج بھی قائم ہیں۔ کہ ان کی گاڑی سے برآمد ہونے والی بوتل میں شہد تھا، شراب نہیں۔ ہو سکتا ہے انھیں شراب شہد جیسی لگتی ہو۔ ایسا ہی کچھ بیان گذشتہ دنوں شرجیل میمن کے حوالے سے سامنے آیا۔

شرجیل میمن جو چھ ارب کی کرپشن میں ملوث ہیں۔ اور جیل ان کا ٹھکانا بنی۔ لیکن بھلا ہو ان بڑے لوگوں کی بیماری کا جو ہمیشہ اس وقت حملہ کرتی ہے جب یہ کسی مقدمہ میں ملوث ہوں۔ جوں ہی کوئی مقدمہ ان بڑے لوگوں کی طرف آتا ہے بیماری مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ان کی طرف انھیں بچانے کو دوڑتی ہے۔ حیرت ہے نارمل حالات میں جب یہ عوام کو لوٹ رہے ہوتے ہیں بیماری اس وقت ان پر حملہ نہیں کرتی یہ غور طلب بات ہے۔ اس کے لئے کسی ماہرِ فلکیات سے رابطہ کرنا پڑے گا۔

کیا پتہ ستاروں کے ٹکراؤ کی وجہ سے ایسا ہوتا ہو۔ تو بات ہو رہی تھی شرجیل میمن صاحب کی۔ شرجیل صاحب جیل کیا گئے ان پر بیماری نے ایسا حملہ کیا کہ انھیں جیل سے ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ اور ہسپتال کا وہ کمرہ جس میں شرجیل صاحب کو ”انتہائی نگہداشت“ میں رکھا گیا سب جیل قرار پایا۔ شرجیل صاحب کو اس سب جیل میں بھی قرارنہ تھا اور دہائیاں دے رہے تھے کہ ناسازی طبع کے باعث انھیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ ایک صبح چیف جسٹس صاحب شرجیل صاحب کی سب جیل معائنہ کے لئے تشریف لے گئے تو سب جیل کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔

یہ جیل کسی لگژری اپارٹمنٹ کا منظر پیش کر رہی تھی۔ جس میں اشیاء کو ٹھنڈا کرنے سے لے کر ”دل و دماغ“ کو ٹھنڈا کرنے تک کی ہر سہولت موجود تھی۔ چیف جسٹس کی نظر ان کے کمرے میں موجود شراب کی بوتلوں پر پڑی تو شرجیل صاحب نے ایک وقت میں دو بیان دے ڈالے۔ کہہ دیا یہ میری نہیں۔ یہ بھی کہہ دیا اس میں زیتون کا تیل اور شہد ہے۔ مشکوک شرجیل کے خون کی مقدار لے کر لیبارٹری بھیجی گئی کہ خون میں الکحل کی مقدار معلوم کی جا سکے۔

صرف ہمییں نہیں پوری قوم کو یقین تھا ان کی رپورٹ نارمل آئے گی۔ ہو سکتا ہے رپورٹس میں یہ بھی لکھا آئے کہ اس شخص نے کبھی الکحل استعمال کی ہی نہیں۔ اور بالکل ایسا ہی ہوا۔ رپورٹ نارمل آئی۔ شراب کا ”نشہ“ شرجیل میمن کے ملازمین کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ اور یہ بات ثابت بھی کردی جائے گی۔ کہ ان کے ملازمین شراب کے رسیا ہیں یا یہ مالکان کو شراب جیسی قباحت پہ اکساتے ہیں یا شراب کو شہد کہہ کر پلاتے ہیں۔ پتہ نہیں ان بڑے لوگوں کو شہد اور شراب میں فرق محسوس نہیں ہوتا۔

یا پھر انھیں شراب شہد جیسی لگتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے ان بڑے لوگوں کے ملازمین ان کو شراب شہد کہہ کر چٹاتے ہوں۔ یا ان کی چائے میں شہد کی جگہ شراب مکس کردیتے ہوں۔ یا پھر بریڈ کو شراب میں ڈبو دیتے ہوں۔ اور معصوم مالک اسے بریڈ پہ لگا شہد سمجھ کر کھا جاتے ہوں۔ ملازمین ہیں، دھوکہ دے سکتے ہیں۔ کہ ملازمین کا تو کام ہی دھوکہ دینا ہے۔ اور شرجیل میمن صاحب اتنے بھولے بادشاہ کہ ان کے ملازمین سب جیل قرار دیے جانے والے کمرے میں، پولیس کے پہرے میں اتنی مہنگی شراب استعمال کرتے رہے اور کسی کوکیا خود معصوم شرجیل صاحب کو بھی خبر تک نہ ہوئی۔

خدارا کوئی آگے بڑے اور ان ”معصوم“ بے خبروں کو شراب اور شہد میں فرق بتا دے۔ یہ بیچارے شراب پینا تو دور کی بات اس کے کے ذائقے سے شناسائی بھی نہیں رکھتے۔ تو ان معصوم بھولے لوگوں کو دھوکہ سے بچایا جائے۔ ان کو اطلاع فراہم کی جاتی ہے۔ کہ شہد میٹھا ہوتا ہے، گاڑھا ہوتا ہے۔ اس کو چاٹا جاتا ہے۔ گلاسوں میں بھر کر پیا نہیں جاتا۔ شراب ترش ہوتی ہے۔ لیکویڈ ہوتی ہے اور اس کی ناخوشگوار بو بھی ہوتی ہے۔ اور اس کو خاص مقدار سے زیادہ پینے کے بعد ہوش بھی نہیں رہتا۔ مدہوشی ہو جاتی ہے۔ بلکہ پہلی دوسری بار پینے والا بھی جلد ہوش کھو دیتا ہے۔ اور اس کے جگر اور پھیپڑوں پر مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔ جبکہ شہد انسان پر مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ ہاں ان دونوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں کا حصول پھلوں کے رس سے ہوتا ہے۔ بس انھیں کشید کرنے والی اجناس میں فرق ہے۔ شہدکا حصول شہد کی مکھی سے ہوتا ہے۔ شہد پھولوں اور پھلوں کے رس سے حاصل ہوتا ہے اور شراب بھی پھلوں کے رس سے ہی۔ گو کہ اسے اور بھی کئی اور ذرائع سے بنایا جاتا ہے لیکن وہ ذرائع بتانا ضروری نہیں کہ ہم کون سا شراب تیار کرنے کا نسخہ بتا رہے ہیں۔

بس معصوم لوگوں کو اگاہی ہونی چاہیے۔ لیکن یہ یاد رکھ لیں کہ اس کا ایک حصول انگور بھی ہوتے ہیں۔ شرجیل میمن صاحب بہت بھولے ثابت ہوئے۔ وہ چیف جسٹس کو بتا دیتے سر یہ ”انگور کا رس“ ہے۔ انگورمجھ سے ”چبایا“ نہیں جاتا اس لئے رس نکال کے رکھا ہے۔ لیکن ان بیچاروں کو علم ہوتا تب نا۔ ویسے اگر چیف جسٹس صاحب صبح کی بجائے ایک ”خاص وقت“ میں آتے تو ہو سکتا ہے شہد کی بوتل پر مکھیاں بیٹیھی بھی مل جاتیں۔ چیف جسٹس کے سب جیل کے دورے پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔

اس معاملے میں زرداری صاحب کا بیان قابلِ غورہے جنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پانچ ہزار کیسزز ہیں چیف صاحب وہ دیکھیں۔ کسی بھی راہنما کا ایسے موقع پر یہ بیان بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ویسے ایسا بیان ہر اس پارٹی کی طرف سے آتا جس پارٹی کے راہنما کو یہ ”شوشا“ فیس کرنا پڑتا۔ بھلا ہو ان سیاستدانوں کا جنھوں نے ایسے بیانات سے ملک میں رونق لگا رکھی ہے۔ کبھی یہ شراب کو شہد ثابت کرتے ہیں تو کبھی جہاز کا پٹرول پچپن روپے فی لٹر کردیتے ہیں۔

ان کے ایسے احمقانہ اور بچکانہ بیانات سے عوام کو ہنسنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور دو گھڑی خوشیوں کے میسر آجاتے ہیں۔ وہ بھی بنا پیسے خرچ کیے۔ مفت کی انٹرٹینمنٹ گھر بیٹھے حاصل ہوتی ہے۔ عوام اسی میں خوش ہوجاتے ہیں انھیں اور کیا چاہیے۔ بس بھولے بادشاہ یاد رکھیں کہ شہد ایسی بوتلوں میں ابھی دستیاب ہونا شروع نہیں ہوا۔ اب اگر کسی کے گھر سے شہد برآمد ہو تو اس پر شراب کا گمان ہی گزرتا ہے۔ کہ شہد پر تو شراب کا لیبل لگ چکا۔

شراب زیادہ تر انگور سے حاصل کی جاتی ہے۔ شراب پر پابندی ہے، انگور پر نہیں۔ گو کہ انگور کے علاوہ بھی بہت سے ذریعے ہیں اسے حاصل کرنے کے لیکن انگور کو رسوا کرنے میں مضائقہ کوئی نہیں۔ تو اگر ہم اسے سیاست میں متعارف کروا دیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ سو اب اگر کسی کے پاس سے شراب برآمد ہو تو آپ اسے انگور کا رس کہہ کر بھی جان چھڑا سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر بار شہد ہی کو بدنام کیا جائے۔ کہ وہ نہ ہو شراب نما شہد ایسا مشہور ہو کہ شہد کی بوتلوں میں شراب ملنا شروع ہو جائے او ر شراب کی بوتل پر شہد کی مکھی۔ اور ہم بچوں کو شراب شہد سمجھ کر گھٹی میں چٹا رہے ہوں۔ بہتر ہے اسے متبادل اور مناسب نام دے دیا جائے جیسے انگور کا رس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).