ایک قدیم دیہاتی کی عالمی مفکرین سے حیرت انگیز مماثلت


تقریباً چار صدیاں قبل صحرائے تھر میں ایک ایسا دیہاتی شخص موجود تھا، جو یوں تو مویشی چراتا تھا مگر اسے جانوروں اور جنگلات سے عشق تھا۔ پالتو جانوروں کے رویوں اور رہن سہن کو وہ عام لوگوں کی نسبت مختلف نظر اور سائنٹیفک انداز سے دیکھا کرتا تھا۔ ہمارے ہاں آج بھی جانوروں کی زندگی کو تحقیقی انداز سے دیکھنا پاگلوں کا مشغلہ سمجھا جاتا ہے، مگر سارو سنگھار نامی ایک دیہاتی نے اپنی زندگی جانورون کے ساتھ بتا دی اور جانوروں کے حقوق اور جنگلات کے تحفظ کی بات اس زمانے میں کی، جس زمانے میں جانوروں کے حقوق اور ماحولیاتی تحفظ کی تنظیمیں مشرق تو کیا مغرب میں بھی موجود نہیں تھیں۔

سارو سنگھار نے اس وقت جانوروں کے علاج معالجے کے مفید نسخے ایجاد کیے، جس وقت جانوروں کے علاج کے جدید طریقے متعارف نہیں ہوئے تھے۔ اس ان پڑھ دیہاتی نے اس وقت فطرت سے مستعار مثالوں کے ذریعے دانش و حکمت کے ایسے اقوال کہے، جن میں آج کے معروف عالمی مفکرین اور اکابرین کے فکر سے حیرت انگیز مشاہبت اور مطابقت پائی جاتی ہے۔

سارو سنگھار نے شیکسپیئر کا وہ مشہور جملہ نہیں سنا تھا، جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے۔ : ”بیوفائی تیرا دوسرا نام عورت ہے“۔

مگر سارو سنگھار نے اپنے مخصوص دیہی اسلوب میں اس خیال سے ملتا جلتا اظہار پیش کیا تاہم اس پر اپنی لاعلمی کا ذو معنی لیبل بھی لگا دیا۔ ”میں ابھی تک عورت اور اونٹنی کو سمجھ نہ پایا ہوں کیونکہ عورت جب اپنے بابل کا گھر چھوڑتی ہے تو بھی روتی ہے اور جب سسرال کا گھر چھوڑتی ہے تو بھی روتی ہے۔ اسی طرح اونٹنی جب اپنے نوزائیدہ بچے کو دودھ پلانے آتی ہے تو بھی دردناک آوازیں نکالتی ہے اور جب کھانے کی تلاش میں واپس جنگل کی جانب جاتی ہے، تو بھی وہی آوازیں نکالتی ہے“۔

سارو سنگھار نے انگریزی زبان کی اس معروف شعر کا یہ مفہوم بھی نہیں سنا تھا: ”کئی پھولوں کے نصیب میں صحرا میں کھلنا ہوتا ہے، جنہیں کوئی آنکھ دیکھ نہیں پاتی“

مگر سارو سنگھار نے سندھی زبان میں نیم شاعرانہ اسلوب میں کہا: ”مینہن وٹھا بھلا، ڈیکھ ڈٹھا بھلا“۔

مطلب یہ کہ صحرا میں جتنی بارش برسے گی اتنی بہتر ہے۔ جبکہ نظارے تب ہی بہترین ہوتے ہیں جب انہیں کوئی دیکھے!

سارو سنگھار کے اقوال سے یہ جملا بھی غضبناک فکری گہرائی کا حامل ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنا رومانٹک اور منطقی انسان تھا۔ ”جنھں گھوڑی نہ بھجائی، ائین ذائفاں نہ وندرائی، ان جی عمر ئی اجائی“۔

مطلب یہ کہ جس گھڑ سوار نے گھوڑی کو کنٹرول نہیں کیا اور جس مرد نے عورت کو محظوظ نہیں رکھا، اس کی زندگانی رائیگان سمجھو۔

سارو سنگھار ایک اور جگہ پر کہتے ہیں : ”ڈاڈھے جی یاری، اک جی ٹاری ائیں بھاجوکڑ ناری تی گھنو بار نہ رکھجے۔ “

مطلب یہ کہ اپنے کو برتر سمجھنے والے بندے کی دوستی، کمزور درخت کی شاخ اور باغی عورت پر کبھی زیادھ بوجھ مت ڈالنا۔

جین مت کی فلاسافی اور تصوف کی رموز سے لبریز یہ لائین بھی ملاحظہ کیجئے : ”پسو راضی تہ رب راضی“۔

مطلب یہ کہ سارو سنگھار کے خیال میں اگر خدا کو خوش کرنا ہے تو جانداروں کو خوش رکھو۔ سارو سنگھار نے سترہویں صدی کے اوائل میں ہی ماحولیات کی جدید فلاسافی کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کر لیا تھا، جس پر آج کی ترقی یافتہ دنیا پروجیکٹ بنا رہی ہے۔ سارو سنگھار نے کہا تھا: ”ون ائیں دھن دھرتی جو بن آھن“ مطلب یہ کہ درختوں کے جھنڈ اور جانوروں کے غول دھرتی کی اولاد ہیں ”۔

اس جینیئس انسان کے کئی قیمتی اقوال قلمبند نہ ہونے کے باعث صدیوں کے سفر میں کہیں گم ہوگئے ہیں۔ جو بچے کچھے باقیات سماجی حکایات میں موجود ہیں وہ بھی سنجیدہ تحقیق کے فقدان کے باعث ناپید ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس عظیم انسان کے حوالے سے سندھی لٹریچر/میڈیا پر بھی کوئی سنجیدہ مواد موجود نہیں ہے۔ میرا یہ آرٹیکل بھی تھری سماج کی دیہاتی زندگی کے روایات پر برسوں کی تحقیق پر مبنی ہے۔ چنانچہ سارو سنگھار کی تاریخ پیدائش کے متعلق کوئی مستند ثبوت بھی نہیں تاہم لوک روایات کے مطابق وہ تقریبن سترہویں صدی کے اوائل میں سندھ کے علاقے لاڑ میں پیدا ہوئے بعد ازاں وہ اپنے مویشی لے کر چراگاہوں کی تلاش میں صحرائے تھر میں آئے، جہاں اس نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ بتایا۔

جانوروں کی نیچر اور سماجی مشاہدات پر مشتمل فکر انگیز باتیں، نیم شاعرانہ انداز میں بیان کیں، جنہیں باذوق افراد نے اپنے ذہنوں میں نسل در نسل سنبھال کر رکھا۔ سارو سنگھار نے جانوروں کے علاج معالجے کے حوالے سے ایسے نسخے بھی ایجاد کیے جو بعد ازاں سماجی ٹوٹکے بن گئے، جن کی باقیات آج بھی صحراء تھر کی دیہی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ سماجی حکایات کے مطابق سارو سنگھار نے قحط سالی کے دنوں میں اپنے مویشیوں کے ساتھ خانہ بدوش حالت میں انڈین گجرات کے علاقے کچھ میں پڑاؤ کیا اور وہیں وفات پائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).