ہماری معیشت میں ”رونق“ کیوں غائب ہو گئی


نصاب کی کتابوں میں جو پڑھایا جاتا ہے عملی زندگی میں اکثر کام نہیں آتا۔ مثال کے طورپر اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میں نے شاذ ہی ایسا صحافی دیکھا جو صحافت میں ماسٹر کی ڈگری لینے کی وجہ سے اس شعبے میں بہت نمایاں نظر آیا۔ اپنے کیرئیر کے بیشتر برس خبروں کی تلاش میں خرچ کرتے ہوئے صحافت کی نصابی کتابوں میں وہ ٹرکس ڈھونڈنے کی کوشش کی جو چند دھواں دھار خبریں تلاش کرنے کے لئے میں نے ڈو اٹ یور سیلف رویے کی وجہ سے استعمال کیے تھے۔

یہ ٹرکس کتابوں میں پڑھنے کو نہیں ملے۔ صحافت کے مقابلے میں معیشت کا علم کئی اعتبارسے بہت زیادہ ”سائنسی“ ہے۔ اس کے باوجودچٹے اَن پڑھوں کو ککھ سے لکھ پتی بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ دُنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے علم معاشیات کی بھاری بھر کم ڈگریاں لینے والے میرے کئی دوست ذاتی کاروبار کی کوششوں میں ناکام ہوئے۔ بالآخر سرکاری یا غیر سرکاری اداروں کی نوکریاں کرنے کو مجبور ہوئے۔ علم معاشیات کی مبادیات سے بھی میں ہرگز واقف نہیں۔

1985 ء سے قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں کالم لکھنے شروع کیے تو احساس ہوا کہ بجٹ کا اجلاس اہم ترین ہوتا ہے۔ بجٹ پر ہوئے مباحثے کو سمجھنے کے لئے اس علم کی شدبد لازمی ہے۔ نہایت خلوص سے اپنے ضیاء الدین صاحب جیسے سینئرز سے جی ڈی پی اور جی این پی کے مابین فرق کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ آج بھی آسان زبان میں یہ فرق آپ کے لئے بیان نہیں کرسکتا۔

1990 ء کی دہائی میں صدارتی حکم کی بدولت حکومتوں کی اوسطاً ہر تیسرے سال برطرفی کی بنیادی وجہ ہمیشہ یہ بتائی گئی کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک ”دیوالیہ“ ہونے کی جانب بڑھ رہا تھا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا کردار ان ہی ایام میں ذرا غور سے سمجھنے کا احساس ہوا۔ روزمرہّ تجربے سے دریافت یہ بھی کیا کہ ہمارے معاشی محاذ پر رونق لگی ہمیشہ ان ہی دنوں نظر آئی جب امریکہ کو افغانستان وغیرہ کی وجہ سے ہمارے تعاون کی ضرورت محسوس ہوئی۔

ہماری سرکار سے امریکہ کا واسطہ نہ رہے تو وہ معاشی اعتبار سے بُرے حالوں نظر آتی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کو پرکھنے کے لئے دُنیا بھر کے سرمایہ کار اس ملک کے بارے میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وغیرہ کی جانب سے تیار ہوئی رپورٹس سے رجوع کرتے ہیں۔ اب کچھ نجی طورپر قائم ریٹنگ ایجنسیاں بھی ہیں۔ ان کی اہمیت بھی اجاگر ہورہی ہے۔ اگرچہ میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا ہوں کہ کسی ملک کو معاشی اعتبار سے ”اچھا“ دکھانے کے لئے یہ تمام ادارے کیا معیار اختیار کرتے ہیں۔

مثال کے طورپر اسحاق ڈار کے زمانے میں پاکستان کے بارے میں وہاں سے ”سب اچھا“ کی رپورٹس آرہی تھیں۔ ان رپورٹس کے ہوتے ہوئے بھی اسلام آباد کی محفلوں میں وزارتِ خزانہ پر نگاہ رکھنے والے حاضر اور ریٹائرڈ افسروں سے ملاقاتیں ہوتیں تو وہ شکوہ کناں سنائی دیتے۔ کئی صنعت کار گھرانوں کے نمایاں افراد خاص طورپر وہ جن کا انحصار برآمدات کے شعبوں پر تھا ہمیشہ ڈالر کی ”مصنوعی قیمت“ کی شکایت کرتے۔ مجھے متنبہ کیا جاتا کہ معیشت کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔

شاید ایسے ہی لوگوں کی سوچ تحریک انصاف کو ایک بہتر متبادل کی صورت اُبھارنے میں مددگار ثابت ہوئی۔ عمران خان صاحب کے وزارت ِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے محض چند ہی ہفتوں بعد مجھے اسحاق ڈار کی بنائی پالیسیوں کے منفی اثرات سمجھانے والوں کی مناسب تعداد بھی لیکن ”تبدیلی“ سے مطمئن دکھائی نہ دی۔ آٹھ ماہ گزر جانے کے بعد اسد عمر اِن دنوں اُن کے ویسے ہی ”چہیتے“ ثابت ہورہے ہیں جیسے ایک زمانے میں اسحاق ڈار ہوا کرتے تھے۔

جن لکھاریوں کے اخبارات کے لئے لکھے مضامین کو ڈکشنری کی مدد سے ایک سے زیادہ مرتبہ پڑھ کر میں پاکستانی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں ان کا بھی یہی عالم نظر آرہا ہے۔ بارہا ہمیں سمجھایا جاتا ہے کہ ملک کو ”سخت“ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ مالیاتی اداروں کو درست کرنا ہے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا ہے۔ لوگوں کو ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ حکومتی اخراجات کم کرنا ہوں گے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کو ”معقول“ یعنی مہنگا کرنا ہو گا۔

نظر بظاہر عمران حکومت کے وزیر خزانہ یہ سب ہی کرتے نظر آرہے ہیں۔ خلقِ خدا مگر بجلی اور گیس کے بلوں سے بلبلا اُٹھی ہے۔ روزگار سکڑ رہے ہیں۔ دُکان داروں یا ریستوران کے مالکوں سے گفتگو کرو تو وہ ”بکری“ نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ ہر طرف ”مندی“ کا ذکر ہے۔ کوئی ایک شخص بھی خیر کی خبر نہیں سناتا۔ صحافت کے شعبے کا اپنے تئیں برا حال ہے۔ میں ذاتی طور پر بھی اس کا شکار ہوا۔ بیوی اگر کام نہ کررہی ہوتی تو شاید چند ہفتے بعد کوئی ”چھابہ“ لگانے کو مجبور ہو جاتا۔

جس شعبے کو بہت چاؤ سے ابتدائی عمر ہی میں اختیار کرلیا تھا اسے عمر کے آخری حصے میں بہت دُکھ سے چھوڑنے کو مجبور ہو جاتا۔ ہماری معیشت میں ”رونق“ بتدریج کیوں غائب ہوگئی اسے جاننے کے لئے کون سی کتابیں پڑھنا ہیں مجھے ہرگز علم نہیں۔ ایک عادی رپورٹر ہوئے لوگوں سے گپ شپ لگاتا رہا۔ اس گفتگو سے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ کاروباری افراد حکومتی ”ڈنڈے“ سے گھبرا گئے ہیں۔ معاملہ فقط احتساب تک محدود نہیں مندی کا اصل سبب فائلر اور نان فائلر والی تخصیص بھی ہے۔

اس نے گاڑیوں کے شورومز کی رونق چھین لی تھی۔ اصل زد مگر پراپرٹی کے شعبے کو لگی۔ چھوٹے پراپرٹی ڈیلروں کی ایک کافی تعداد کو میں نے گزشتہ چند مہینوں میں مثال کے طور پر دودھ بیچنے کے کاروبار کی طرف منتقل ہوتے دیکھا ہے۔ کئی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ اسلام آباد اور دیگر شہروں کے باقی بچے دیہات میں تھوڑی زمین خرید کے ”کٹے“ پالنا شروع ہوگئے ہیں۔ محض گفتگو کی بدولت جو کچھ میرے ناقص علم میں آیا ہے اس کی روشنی میں اسد عمر کی جانب سے ایک اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم متعارف کروانے کا اعلان مجھے تو خوش کن سنائی دیا ہے۔

اگرچہ مجھے یقین ہے کہ ہماری معیشت کے بارے میں مشکل انگریزی میں اخبارات کے لئے تجزیاتی مضامین لکھنے والوں کی اکثریت اسے موجودہ حکومت کا ”ایک اور یوٹرن“ قرار دے گی۔ اپوزیشن بھی طعنے دے گی۔ نصابی اعتبار سے علم معاشیات کے بارے میں قطعی نابلد ہوتے ہوئے بھی جبلی طورپر لیکن میں یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ نیا بجٹ تیار کرتے ہوئے براہِ راست ٹیکسوں کے ذریعے مطلوبہ رقم کو حاصل نہ کرنے کی وجہ سے سرکار اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے ”دیگر“ یا غیرنصابی ذرائع اختیار کرنے کو مجبور ہے۔ نصاب میں طے کیے اصولوں کو تھوڑی دیر کو بھلاتے ہوئے معاشی میدان میں ذرا رونق لگ جائے تو خلقِ خدا کی اکثریت کا بھلا ہوگا۔ تھیوریاں اس رونق کی بحالی کے دوران بھی شدومد سے زیر بحث لائی جا سکتی ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).