فلسفے کے بنیادی سوال۔


کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے یا پوچھا ہے کہ حقیقی شے اور بظاہر نظر آنے والی شے میں کیا فرق ہے؟ کیا مادی چیزیں حقیقی ہیں؟ کیا مادی چیزوں کی دنیا، یہ اجسام، یہ جانور، یہ پہاڑ، یہ چاند تارے، یہ سورج غرضیکہ یہ ساری چیزیں واقعی ایسی ہی ہیں؟ کیا وہی چیز حقیقت ہے جس کا مادی وجود ہو؟ جو کنکریٹ ہو؟ کیا مادے کے اجزأ کی بے معنی حرکت جس کا انجام موت اور فنا ہو جانا ہے ہی اصل حقیقت ہے؟ یا کیا ان بظاہر نظر آنے والے مادی اجسام کی حقیقت کچھ اور ہے اور یہ محض فریبِ نظر ہے کہ یہ ہمیں ایسے دکھائی دیتے ہیں؟ کیا حقیقت کی دنیا کہیں اور ہے؟ سچ مادی اشیأ سے ماورا کہیں ذہن کی دنیا میں ہوتا ہے؟

آپ کی اپنی حقیقت کیا ہے؟ کیا آپ صرف ایک ایسا مادی جسم ہیں جو دکھ سے بھاگتا ہے اور خوشی تلاش کرتا ہے اور ایٹمز کا ایسا مجموعہ ہے جس کی ساخت ہی کچھ ایسے بنائی گئی ہے، جو موروثی، نفسیاتی اور ماحولیاتی جبر کے نتیجے میں تشکیل پانے والا ایک جسم ہے؟ یا کیا آپ کی اصل آپ کا ذہن اور آپ کی روح ہے؟ لیکن یہ کس قسم کی حقیقت ہے؟ کس طرح روح جیسی غیر مادی چیز جسم جیسی مادی چیز میں سمو سکتی ہے؟ میٹافزکس فلسفے کی وہ شاخ ہے جو مندرجہ بالا اور ان جیسے دیگر سوالات کو زیرِ بحث لاتی ہے۔ کیا ظاہری ہی حقیقی ہے؟ کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہیں جو میٹافزکس کے دائرۂ کار میں آتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہم کیا جان سکتے ہیں اور جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ کیسے جانتے ہیں؟ کیا کوئی ایسا سچ ہے جس پہ ہم یقین کر سکیں؟ کیا کوئی قضیہ صرف اسی صورت میں سچ ہوتا ہے اگر اسے حواسِ خمسہ کے ذریعے ثابت کیا جا سکے؟ کیا کوئی حتمی سچائی موجود ہے؟ کیا سچ وہ ہے جو کچھ فلسفیانہ نظریات اور بڑے مذاہب ہمیں بتاتے ہیں یا سچ تبدیل ہوتا رہتا ہے؟ سائنس تو ہمیشہ نئے نظریات پیش کرتی رہتی ہے اور سائنسی سچ بھی بدلتا رہتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائنس کا سچ ہی صحیح سچ ہے؟ سائنس تو اکثر فلسفے اور مذہب کے نظریات پہ سوال اٹھاتی ہے اور مؤخرالذکر ایک دوسرے کے سچ پہ بھی سوال اٹھاتے ہیں تو پھر سچ ہے کہاں؟ یہ تمام سوال فلسفے کی شاخ فلسفۂ علم یا ایپسٹیمالوجی میں زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اخلاقیات پہ عمل کرنا کیوں ضروری ہے؟ اگر اخلاقی قدریں نہ ہوں تو کیا؟ دیکھنے میں آتا ہے کہ سچ بولنے والے اور اچھائی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونے والے اکثر اوقات مفلوک الحال رہتے ہیں جب کہ جھوٹ کے سوداگر ترقی پاتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔ تو پھر ایک بندے کو اچھے کام ہی کیوں کرنے چاہیں؟ کیا وہ بات جو کسی کو نفع پہنچائے وہی اچھائی ہے یا اچھائی کوئی معروضی شے ہے؟ کیا کوئی حتمی اچھائی ہے؟ انسانی افعال میں اچھے برے سے کیا مراد ہے؟ ایتھکس فلسفے کی وہ برانچ ہے جس میں یہ تمام موضوعات زیرِ بحث لائے جاتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ بہترینِ نظامِ حکومت کون سا ہے؟ کیا جمہوریت آج تک آزمائے گئے نظام ہائے حکومت میں سے بہترین نظام ہے یا ایسا نہیں ہے؟ حکومتی نظام پارلیمانی طرز کا ہونا چاہیے یا صدارتی طرز کا؟ کیا انصاف، برابری، سچائی اور آزادی جیسے تصورات کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود ہے یا یہ جمہوریت کے حق میں پراپیگنڈہ کرنے والوں کی اپنی اختراع ہے تاکہ وہ ہمیں ایسی طفل تسلیاں دے کے ہم پہ حکومت کر سکیں؟ جدید دنیا کو کیمیائی ہتھیاروں، آبادی میں بے ہنگم اضافے، ماحولیاتی آلودگی اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے قدرتی وسائل جیسے سنگین بحرانوں کا سامنا ہے۔ کیا جمہوریت ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ یا کمیونزم ایک بہتر متبادل نظام ہے؟ فلسفے کی جو برانچ ایسے مسائل پہ بات کرتی ہے پولیٹیکل فلاسفی کہلاتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ تاریخ میں رونما ہونے والے واقعات کی کیا اہمیت ہے؟ کیا تاریخ کا کوئی دھارا بھی ہے یا یہ بے ربط واقعات کا ایک بے معنی سا قصہ ہے؟ تاریخ کے اوراق پہ نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ ہر دور میں اتنا ظلم، اتنی بے انصافی، اتنا جبر اور اتنی مشکلات کیوں؟ یہ تاریخ کو دیکھنے کا فلسفیانہ انداز ہے اور فلسفے کی شاخ ’فلسفۂ تاریخ‘ ان موضوعات پہ روشنی ڈالتی ہے۔

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ماہرینِ معاشیات، سیاستدانوں، مولویوں، فلسفیوں اور صحافیوں کے وہ تمام دلائل جو وہ آپ کو قائل کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں کتنے ’ساؤنڈ‘ ہیں؟ صحیح استدلال کے اصول کیا ہیں؟ ہم کس طرح مغالطوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں؟ صحیح نتیجہ اخذ کرنے کا طریقۂ کار کیا ہے؟ منطق فلسفے کی وہ شاخ ہے جو ان تمام سوالوں کو اپنا موضوعِ بحث بناتی ہے۔

انسان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ آپ سوال کریں۔ انسان ایک ’کوئسچننگ بی انگ‘ ہے۔ کیا آپ ایسی دنیا کا تصور بھی کر سکتے ہیں جس میں اس طرح کے فلسفیانہ سوال پوچھنے والا کوئی نہ ہو؟ ایسی دنیا ہر گز جیتے جاگتے انسانوں کی دنیا نہیں ہو سکتی بلکہ یہ چلتی پھرتی مشینوں کی دنیا ہو گی جس میں ہر مشین سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو گی۔ اور ایسی دنیا کھوکھلے لوگوں کی دنیا ہو گی جن کی زندگیوں میں انتہا درجے کی بے مقصدیت اور بے معنویت ہو گی۔ تو سوال اٹھائیے اور اپنے جیتے جاگتے انسان ہونے کا ثبوت دیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).