مقامِ عورت اور معاشرتی معیار


حالیہ دنوں لاہور میں ایک نہایت ہی دل سوز واقعہ رونما ہوا۔ ایک اوربنتِ حوا کی تذلیل کی گئی، سر کے بال کاٹے گئے ظلم و تشددسے دو چار کیا گیا۔ واقعہ کا پس منظر جو بھی ہے لیکن ظلم کس طرح اور کس ذات پہ ہوا یہ قابلِ فکر ہے۔ کیا ہمارے معاشرے میں عورت کو اسی طرح کم تر اور حقیر سمجھا جاتا رہے گا؟ اسی طرح اپنا غلام سمجھ کر سلوک کیا جاتارہے گا؟ کیا اسی طرح حوس کا شکار اور درندگی کا نشانہ بنایا جاتا رہے گا؟

اسلام سے قبل عورت کے متعلق نطریات انتہائی گھٹیا اور حقیر درجے کے پاے ٔ جاتے تھے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ شاید عورت کو دائرہ انسانیت سے ہی خارج کیا ہوا تھا۔ جہاں عورت کی پیدائش سے ہی خطرات اور مصائب اُس کے سر پر منڈلانے شروع ہوتے اور دیوارِگور تک اُس کا پیچھا کرتے۔ جہاں نہ تو وراثتی حقوق نہ ہی معاشرتی مثبت رویہ۔ جہاں عورت کی توہین و تزلیل کو باعثِ فخر سمجھا جاتا۔ عورت اگر بیوی کے روپ میں بھی تھی تو تب بھی شوہر کی غلام ہی تھی۔

اُسے کوئی حق نہ تھا کہ وہ آزادی کی فضا میں سانس لے سکے۔ اپنے جائز حقوق کی بات تو در کنار نسوانی فطرت کی رو سے اپنی مرضی کے مطابق کھانا پینا، چال ڈھال اور پہناوا کر سکے۔ زمانۂ جاہلیت کے وحشی مردوں کا غصہ بھی عورت پر ظلم و تشدد کی صورت نکلتا۔ اپنی حوس پرستی کا نشانہ بنایا جاتا اور استعمال شدہ چیز کی طرح دور کر دیا جاتا۔ بازار میں جاتی عورت کے متعلق مختلف قسم کی اوباش آراء قائم کیں جاتیں۔ جسمانی خصوصیات کی بِنا پر غلیظ القابات سے پکار کر لطف اندوز ہویا جاتا۔ رقص، شراب و کباب کی محفلوں کی اہم کردار اور ذاتی سکون و تسکین سے بڑھ کر عورت کا کوئی مقام نہ سمجھا جاتا۔

ظہورِ اسلام کے بعد ہادئی برحقﷺ نے جس طرح عورت کے متعلق غلیظ افکار، بزدلانہ افعال، فرسودہ روایات، نا پاک نظریات اور غیر انسانی رویہ جات کو ختم کیا نہ صرف ختم کیا بلکہ مذہبی رو سے عورت کو وہ مقام دیا جس کی رہتی دنیا تک کوئی مثال نہ ہوگی۔ عورت اگر ماں کے روپ میں ہے تو اولاد کے لئے جنت ماں کے قدموں میں لا کہ رکھ دی، بیوی کے روپ میں ہو تو شوہر کے گھر کی زینت بنا دی گئی، بیٹی کی شکل میں ہو تو باپ کی لاڈلی اور باپ کا فخر کہلائی اور اگر بہن کی صورت ہو تو بھائی کے لئے حیا کا نمونہ قرار پائی۔

اسلام نے عورت کو آسیب زدہ زندگی سے پناہ دی اور معاشرے میں مقدس اور اہم رکن کی صورت لا کر کھڑا کر دیا۔

اگر ہم ریاستی لحاظ سے اپنے موجودہ معاشرے کا مشاہدہ کریں تو ہمیں آئے روز ایسے واقعات ہوتے ہوئے نظر آئیں گے جہاں عورت کی عصمت دری ہو۔ عورت کو زلت کا سامنا کرنا پڑے۔ جہاں عورت اگر بازار میں نکلے تو اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے اور آوارہ نظروں کا شکار بنے۔ اپنے شوہر کے ناروا سلوک اور ظلم و تشدد کا سامنا کرے۔ نام نہاد خاندانی عزت کی خاطر اِسے بھینت چڑھا دیا جائے۔ کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عورت کی توہین کر کہ اپنے آپ کو مرد سمجھا جائے۔ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے عورت کو تعلیم جیسے اہم فرض سے اجتناب کروایا جائے۔ ایسی ایسی وحشیانہ پابندیاں مسلط کرنا کہ وہ جذبات کے دم میں گُھٹ گُھٹ کر مر جائے۔

اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر اگر دماغی خلئے کھول کر سوچا جائے تو کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہم ابھی بھی زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی مشابہہ سوچ کے حامل لوگ ہیں۔ عورت کے متعلق جس طرح کا ذہنی و معاشرتی معیار اُن لوگوں کا تھا ویسا ہی ہمارا ہے۔ جس طرح کا سلوک وہ لوگ کرتے تھے ویسا ہی ہم لوگ کرتے ہیں۔ تو کیا فرق صرف اِتنا ہی ہے کہ وہ زمانۂ قدیم کے انسان تھے اور ہم زمانۂ جدید کے؟ اُ س سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم پر اسلام کا اثر اور ایک تہذہب کا رنگ کب نمایاں ہوا؟

اگر ابھی بھی عورت کے متعلق اسلامی رو سے ہٹ کر ہمارے نظریات میں فطور شامل ہے، گھٹیا قِسم کی سوچ اگر ہمارے دماغوں میں پیوست ہے، عورت کے لحاظ سے اگر دہرا معیار ہمارے معاشرے کی ضرورت بنا ہوا ہے اور محدود و مخصوص دائرہ کار سے آگے ہماری فِکر جاتی نہیں تو ہم مہذب، تعلیم یافتہ، باکردار شہری اور اسلامی نظریہ حیات پر گامزن مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).