حشو کیول رامانی: سندھ کا پہلا جلاوطن فلاسفر


ترک وطن کا درد کیا ہوتا ہے اس کی کیفیت کیسی ہوتی ہے یے فقط وہ ہی جانتے ہیں جن کو وطن سے جبری طور پر جلاوطن کیا گیا ہے۔ جلاوطنی سے بڑھ کر کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور جو اپنے وطن سے شعوری اور جذباتی محبت کریں ان کے لئے تو جلاوطنی کفن میں آخری نوک کے برابر ہوتی ہے۔

پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا اگر جائزہ لیں گے تووہ جلاوطنیوں اور غداری کے سرٹیفیکیٹ سے بھری پڑی ہے جن میں زیادہ تر خود ساختہ جلاوطنیاں شامل ہیں مگر حشمت ٹھلرام کیولرامانی المعروف حشو کیولرامانی پاکستان کے وہ پہلے سیاسی کارکن تھے جن کو 1949 میں اپنے وطن سندھ سے جبری طور پر جلاوطن کیا گیا تھا۔ حشو کا جنم 14 دسمبر 1914 ع میں سندھ کے شھر بھریا شھر میں ہوا۔ انہوں نے بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کراچی کے این جی وی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے 1931 ع میں کولمبو گئے جہاں سے انہوں نے میٹرک کی تعلیم حاصل کی۔

حشو کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ لندن سے آئی سی ایس کا امتحان پاس کرکے سندھ میں کلیکٹر بن جائے اور اس حوالے سے حشو کو 1934 ع میں پھر لندن بھیجا گیا مگر کہتے ہیں نہ کہ جس کو اپنے وطن کی غلامی محسوس ہو جائے تو وہ اپنے تمام عیش و آرام ٹھکرا کر وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع کرتا ہے اور اپنے وطن کی آزادی تک جدوجہد میں رہتا ہے۔

لندن ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور ہندوستان کے سیاسی رہنما کرشنا مینن جیسے ذہین لوگ لندن میں انگریز سامراج سے آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھے۔ ان دنوں حشو کی کرشنا مینن، جواہر لعل نہرو اور اس کی بیٹی اندرا گاندھی کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اندرا گاندھی حشو کے ساتھ بھی پڑھتی تھی۔ کرشنا مینن کی ذہنیت اور قابلیت سے تمام اہل علم لوگ واقف ہیں مگر وہ بھی حشو کیولرامانی کی ذہنیت، قابلیت، ملکی اور عالمی سیاست کے مطابق بہت متاثر تھا۔

معروف کالم نگار اختر بلوچ اپنے کالم کے مجموعوں کے کتاب (کلانچی والا) میں لکھتے ہیں : ”حشو حقیقتاً نابغئہ روزگار شخص تھے۔ ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ انہوں نے جلاوطن ہونا پسند کیا، لیکن اپنے خیالات اور اپنی جدوجہد پر سمجھوتہ کرنے کے لیے کبھی رضامند نہیں ہوئے۔ پاکستان سے جلاوطنی کے بعد بھی انہیں پاکستان ہجرت کرنے والوں کا خیال تھا کہ کہیں ان کے ساتھ زیادتی نہ ہو، صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے ترک وطن کیا تھا اور وہ ترک وطن کی تکلیف سے بھی اچھی طرح واقف تھے، “

حشو کیولرامانی اپنے وطن سندھ سے بیحد محبت کرتا تھا وہ جب اپنے گاؤں بھریا جاتے تو اکثر سرسبز کھیتوں، باغوں اور گاؤں کی گلیوں میں گھوما کرتے تھے اور ان کو اپنے پرخوں کی سرزمین سے جذباتی لگاؤ تھا۔ تاریخ ہر کسی کو امر نہیں بناتی مگر جو کسی عظیم مقصد کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیں وہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور حشو نے بھی اس وقت انگریز سامراج کی غلامی سے نجات پانے کے لیے اپنے سپنوں کو ترک کردیا اور آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔

محترم مدد علی سندھی اپنے کتاب (حشو کیولرامانی نہ وسرندڑ شخصیت) میں لکھتے ہیں :

”حشو سندھ کا وہ مہان شخص تھا جس نے جدید سندھ کا سپنا 1945 ع میں دیکھا تھا اور تقسیم سے قبل بھی وہ دو بار آزادی کی تحریک کے نتیجے میں جیل جا چکے تھے۔ “

وہ مزید لکھتے ہیں کہ:

”میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تاریخ حشو کو کن الفاظ میں یاد کرے گی؟ ایک مفکر، ایک فلاسافر، انارکسٹ، یا صوفی، جب بھی کوئی مورخ سندھ کی ماضی قریب کی تاریخ لکھے گا توہ وہ حشو کیولرامانی کا ذکر کرنے کے سوا وہ داستان نامکمل ہوگا۔ “

حشو کیولرامانی کی فکری سوچ اور سیاسی نقطہ نظر اور اس پر جدوجہد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حشو جب 1939  میں لندن سے واپس سندھ آئے تو انہوں نے سندھ میں شاگرد تحریک کو مضبوط و منظم بنانے کے لیے جدوجہد کرنا شروع کردی اور اس کے بعد سوبھوگیانچندانی اور کیرت بابانی اور دیگر ذہین طلبہ حشو سے رابطہ کرنے لگے اور پہر کراچی میں انہوں نے انگریز سامراج کے خلاف جدوجہد کی اور اس نے انگریزی میں ایک پوسٹر چھاپہ جس پر ہندوستان کا نقشہ دیا ہوا تھا اور اس پر کھا تھا: ”Stop This March of Imperialism۔ “ اس عمل کے نتیجے میں حشو کو گرفتار کرکے 2 سال کی سزا دی گئی اور اس طرح حشو کراچی اور سکھر سینٹرل جیل میں 18 ماہ گذار کر 1941 میں آزاد ہوئے۔

حشو کیولرامانی کے قریبی دوستوں میں سائیں جی ایم سید، شیخ ایاز، ابراھیم جویو اور سوبھوگیانچندانی شامل تھے جو حشو سے بہت متاثر تھے۔ حشو اکثر ان سے ملاقاتیں کرتا تھا اور سندھ کی صورتحال پر اظھارخیال کیا کرتا تھا۔

سائیں جی ایم سید حشو سے بہت متاثر تھے اور وہ حشو کو اپنا استاد تسلیم کرتے تھے۔ جب سائیں جی ایم سید مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے تو وہ مایوس تھے کہ ان کی سیاست کا بنیاد کیا ہونا چاہیے اور پہر وہ حشو سے ملے جس کے بارے میں وہ اپنی کتاب ”جنب گذاریم جن سین“ میں لکھتے ہیں کہ:

”اس وقت حشو کی محبت اور گفتگو میرے لیے روشنی کی کرن ثابت ہوئی۔ اس نے ’مسلئہ قومیت‘ کی بنیادی روح سے مجھے متعارف کیا۔ اس حوالے سے میں نے پوری صورتحال کو ایک نئے نقطہ نظر سے پڑھنا شروع کیا۔ کانگریس کا نظریہ تھا کہ ہندوستان میں بلاتفریق مذہب ایک قوم بستی ہے، دوسری طرف مسلمانوں کا جداگانہ نظریہ دنیا کے دیگر نظریوں کے مقابلے میں فرسودہ، غلط فھمی، پر مبنی اور جذباتی لگ رہا تھا۔ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے سندھ کی جداگانہ قومیت ہی حقیقی شے نظر آئی۔ اس کے بعد مجھے مستقبل کا راستہ صاف اور واضح نظر آنے لگا۔ “

حشو اپنی جنم بھومی اور وطن سے بیحد محبت کرتے تھے اس کے لیے سرسبز کھیت، کینجھر جھیل کے نظارے، کارونجھر اور کھیر تھر کی پھاڑیاں، دریائے سندھ کی دل میں اتر جانے والی لہریں، شاہ جو کلام اور سادھ بیلو اہم معنیٰ رکھتے تھے۔

محترم مدد علی سندھی اپنی کتاب ( حشو کیولرامانی نہ وسرندڑ شخصیت) میں لکھتے ہیں کہ:

” حشو کبھی اپنے گاؤں بھریا جاتے تو کبھی سائیں جی ایم سید کے پاس سن میں جا کر رہتے تھے۔ وہ دریائے سندھ کے کناروں پر طلوع اور غروب ہوتے سورج کے نظاروں سے بہت پیار کرتے تھے۔ اسے کانگریس، مسلم لیگ اور کمیونسٹ پارٹی کی سیاست بالکل پسند نہیں تھی اور اس لیے انہوں نے سائیں جی ایم سید کو مشورہ دیا کہ سندھ کی قومیت کے بنیاد پر تحریک چلائی جائے۔ “

حشو کیولرامانی کی انگریز سامراج کے خلاف جو سوچ تھی وہ متاثر کن تھی۔ جب انگریزوں نے ہندوستان کے انقلابی رہنماؤں بھگت سنگھ، راج گرو، اور سکھ دیو کو 23 مارچ 1931 کو پھانسی دی تو سارے ہندوستان کے نوجوانوں میں غم و غصہ چھا گیا اس وقت حشو نے ان تینوں انقلابیوں کی پھانسی پر خان عبدالغفار خان سے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا اور پہر خان عبدالغفار خان بھی حشو سے متاثر ہوئے تھے۔

شیخ ایاز اپنی (ساہیوال جیل کی ڈائری) میں لکھتے ہیں کہ:

”حشو اکثر کسی کا قول دہراتا تھا کہ، میں کمیونزم کے لیے جیوں گا، میں کمیونزم کے لیے مروں گا، لیکن کمیونزم کے تحت نہیں جی سکتا۔ “

حشو عالمی سیاست، ممالک کی خارجہ پالیسی اور تمام ریاستی امور پر گہرائی سے نظر رکھتے تھے۔ جیسے جیسے حشو کی سیاسی و ادبی سرگرمیاں بڑھنے لگیں تو اس کا مزید گھیرا تنگ کیا گیا اور 1949 ع میں انہیں ایس ایم لا کالیج کے سامنے واقع اپنے فلیٹ سے گرفتار گیا کیا۔ اس وقت حشو سائیں جی ایم سید کی کتاب ”نئی سندھ کے لیے جدوجہد “ کا انگریزی میں ترجمہ کر رہے تھے۔ گرفتاری کے بعد انہیں کچھ وقت کراچی سینٹرل جیل میں رکھنے کے بعد 31 دسمبر 1949 کو پولیس کی نگرانی میں ائیرپورٹ لے جانے کے لیے تیار کیا گیا۔ اس وقت حشو کی کیفیت کیا تھی وہ صرف وطن سے محبت کرنے والا ہی محسوس کر سکتا ہے۔

حشو نے خواہش ظاہر کی کے انہیں پہلے اپنے فلیٹ پرلے جایا جائے اور پہر سائیں جی ایم سید کی کراچی کی رہائش گاہ حیدرمنزل پر لے جایا جائے اور حشو کی وہ خواہش پوری کی گئی۔ حشو نے اپنے ساتھیوں اور محب وطن دوستوں سے آخری ملاقات کی اور پھر وہاں سے شیخ ایاز بھی حشو کے ساتھ ائیر پورٹ پر گئے اور اسی طرح اس عظیم شخص کو جبری طور پر جلاوطن کردیا گیا۔

بقول سائیں جی ایم سید کے، حشو جب ہندوستان گئے تو وہاں اس نے سندھو سماج قائم کیا اور سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلانے کے لیے جدوجہد کی اور تمام اراکین پارلیمان کو اپنے اعتماد میں لیا اور اسی طرح سندھی زبان کو قومی زبان کا درجہ دلایا۔

حشو ہندوستان میں بھی خود کو رفیوجی سمجھتا تھا اسے پوری امید تھی کہ ایک دن وہ اپنی جنم بھومی سندھ میں واپس آئے گامگر افسوس کہ حشو کی وہ امید و خواہش پوری نا ہو سکی۔

شیخ ایاز اپنی (ساہیوال جیل کی ڈائری) میں لکھتے ہیں کہ:

”جب میں 1963 میں دہلی سے رخصت ہو رہا تھا تو مجھے حشو نے الوداعی ملاقات میں کہا تھا کہ، “ ایاز ایک بات ہرگز نہ بھولنا، اگرتم نے پاکستان میں کسی رفیوجی (مہاجر) پر ہاتھ اٹھایا تو سمجھنا کہ مجھ پر ہاتھ اٹھایا کیونکہ میں بھی ہندوستان میں شرنارتھی (رفیوجی) ہوں۔ ”

اس عظیم فلاسفر کی عظمت پر لکھنا اس ناچیز کے بس کی بات نہیں۔ اس عظیم شخص کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ، حشو الھاس نگر (سندھو نگر) سے 1986 میں اچانک لاپتہ ہوگئے اور وہ ممکنہ طور پر وہاں سے کچھ (صحرا) کی طرف چلے گئے جہاں سے وہ سندھ میں آنا چاہتے تھے افسوس کہ حشو سندھ کی گود میں آسودہ خاک نہ ہو سکے مگر ان کی خدمات اور وطن سے محبت ہمیشہ امر رہے گی۔

الھاس نگر کی تیز ہوائیں حشو کو ڈھونڈتی رہتی ہیں، وہ حشو جو سندھ تھا، تاریخ تھا، تہذیب تھا، وہ وطن کا دیوانہ نا جانے کس دیس چلا گیا۔ آج بھی سندھ کی ہوائیں حشو کو یاد کرتی ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).