اپوزیشن حکومت گرانے سے باز رہے


سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو چالیس برس بیت گئے مگر اُس پھانسی کو ”عدالتی قتل“ کہنے والوں کی آواز بجائے کمزور ہونے کے وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوئی ہے۔ بھٹو مرحوم کی سیاست میں اہمیت سے انکار پہلے تھا نہ اب ہے، اِسی طرح اُن کے طرزِ سیاست سے اختلاف کرنے والوں کی کمی پہلے تھی نہ اب ہے۔ ایسا دور بھی رہا ہے، جب ہماری قومی سیاست بھٹو اور اینٹی بھٹو کے گرداب میں گھومتی رہی۔ بھٹو کی سیاسی قد آوری میں جتنا رول اُن کی پھانسی کے متنازع فیصلے کا رہا، اُس سے کہیں زیادہ اُن کی پُر عزم بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی بھرپور اور ولولہ انگیز جمہوری جدوجہد کا ہے۔

ہمیں بھٹو کی سیاست سے ان گنت شکایات ہو سکتی ہیں مگر اُنہیں جس بے رحمانہ طریقے سے پھانسی پر لٹکایا گیا، اُس سے ایک نوع کی ہمدردی ازخود پیدا ہو جاتی ہے۔ بہرحال اب ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عوامی عدالت سے سرخرو ہوئے۔ عوامی لیڈر کا یہی اصل اثاثہ ہے، اس کی یاد گزشتہ چار دہائیوں سے گڑھی خدا بخش میں پیہم منائی جا رہی ہے۔ ماقبل یہ فریضہ اُن کی سیاسی جانشین محترمہ بے نظیر بھٹو ادا کیا کرتی تھیں، اب محترمہ کے فرزند بلاول بھٹو ادا کر رہے ہیں۔

اِس سال بلاول بھٹو اور اُن کے والد کی تقاریر میں خاصی تلخی سنائی دی، آصف علی زرداری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جیالے تیار ہو جائیں ہم بہت جلد اسلام آباد میں دھرنے کی کال دیں گے اور حکومت ختم کر کے دم لیں گے۔ میں جیل میں رہوں یا باہر اب ہم اِنہیں مزید وقت نہیں دے سکتے۔ بلاول بھٹو کا لب و لہجہ بھی زرداری صاحب سے کم نہ تھا، البتہ اُن کی تقریر زیادہ جامع تھی، جس میں اُنہوں نے طاقتوروں کے متنازع فیصلوں پر نپے تلے الفاظ میں تنقید کی اور یہ سوال اٹھایا کہ کیا بھٹو کیس، محترمہ بے نظیرقتل، اکبر بگٹی، اصغرخاں، 12 مئی، پرویز مشرف غداری کیس اور لاپتہ افراد کے ہزاروں مقدمات سست روی کا شکار نہیں؟

کیا یہ سب انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں؟ جب میں پوچھتا ہوں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟ وفاقی وزیروں کے کالعدم تنظیموں سے رابطے کیوں ہیں؟ میں نے تین وزیروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا مگر اُنہوں نے ایک ایسا نیا وزیر لگا دیا، جس پر ڈینیل پرل سے لے کر محترمہ کے قتل تک کے الزامات ہیں۔ یہ کس قسم کا وزیراعظم ہے جو مودی اور کالعدم تنظیموں کے خلاف بات تک نہیں کرتا مگر اپوزیشن کے لئے بڑا شیر بنا پھرتا ہے ”۔ اس نوع کی تلخ نوائی بلاول بھٹو کی تقریر میں واضح تھی۔

پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو یا سابق صدر آصف زرداری کو موجودہ حکومت سے جو بھی اور جتنی بھی شکایات ہیں، ان پر اور دیگر حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے کا حق حاصل ہے اور اس سلسلے میں وہ اپنے تمام سیاسی و جمہوری ساتھیوں کو ساتھ ملاتے ہوئے اپنی آواز کو مزید توانا بنا سکتے ہیں لیکن موجودہ حکومت کو فوری گرانے کی مہم سے اجتناب کرنا چاہیے۔ موجودہ حالات میں ایسی مہم جوئی سے ملک مزید بڑے بحران میں چلا جائے گا۔

یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کو اقتدار میں آنے کی جو شتابی تھی اور اس کے لئے اُنہوں نے عوام سے جھوٹے وعدے کرتے ہوئے یہ تک نہیں سوچا کہ کیا یہ وعدے قابلِ عمل بھی ہیں یا نہیں؟ اپنے مخالفین کو رگیدتے ہوئے کسی اصول ضابطے کی پروا نہیں کی، اب یہ سب باتیں عوام کے سامنے ہیں۔ لہٰذا عوام ہی کو ازخود ان سے یہ سب پوچھنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ حکومتی حمایتی یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری حکومت نے نیا پاکستان تو بنا دینا تھا مگر اپوزیشن نے ہمیں اس کا موقع نہیں دیا۔

پی پی کی قیادت کو سخت گیر پالیسی اپناتے ہوئے اپنا وہ طرز عمل پیشِ نظر رکھنا چاہیے، جو اُنہوں نے دھرنوں کے بعد، الیکشن 2018 سے پہلے، دوران اور مابعد اپنائے رکھا۔ بلوچستان کی حکومت گرانے سے چیئرمین سینیٹ بنوانے تک، پنجاب سے وفاق تک، کوئی مرحلہ ایسا نہیں جب مولانا فضل الرحمن کو مایوس نہ کیا گیا۔ اب مولانا سے زرداری صاحب کی بھی ملاقاتیں ہو چکیں، (ن) لیگ کی ظاہری خاموشی کے پیچھے جو طوفان چھپا ہے، کوئی بے خبر ہی اُس کی حدت سے انکار کر سکتا ہے۔

جہاں تک بلاول بھٹو کی طرف سے اٹھائے گئے دیگر ایشوز کا معاملہ ہے، حکومت کی طرف سے ان کا تسلی بخش جواب آنا چاہیے۔ کابینہ میں اگر واقعی ایسے وزراء بیٹھے ہیں، جن کے شدت پسند تنظیموں سے تعلقات ہیں تو انہیں کارنر کرتے ہوئے ان کی جگہ اچھی شہرت کے حامل ممبران اسمبلی کو موقع دیا جانا چاہیے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے معاملے میں قطعی طور پر زیرو ٹالرنس ہونا چاہیے۔ بلاول کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ اگر قومی سیاستدانوں کے خلاف JITبن سکتی ہے تو کالعدم تنظیموں کے خلاف کیوں نہیں۔

اس طرح الیکشن 2018 کے حوالے سے وسیع تر عوامی شکایات کے تناظر میں یہ مطالبہ بلا جواز نہیں کہ ان کی شفافیت واضح کرنے کے لئے تمام شکایا ت پر JITبناتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔ ہمارے آئین میں بھی انسانی حقوق سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جہاں انسانی حقوق پامال ہوتے ہوں، وہاں آئین و پارلیمنٹ کا تقدس اور برتر مقام کیسے منوایا اور مضبوط بنوایا جا سکتا ہے؟
بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).