شاہ محمود قریشی کی حسرت کیا ہے؟


اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی موجودہ حکومت کے پرفیکٹ فارن منسٹر ہیں، حالیہ دنوں میں بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران انہوں نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ پاکستان ایک پر امن اور دہشت گردی کا دشمن ملک ہے اور بھارت کا ہمارے مقابلے میں کتنا وحشیانہ کردار ہے، انہوں نے غیر ممالک سے اپنے ملک کو چلانے کے لئے مالی امداد اور قرضے لینے کی مہم میں بھی اہم کردار ادا کیا، شاہ محمود قریشی انیس سو پچاسی سے سیاست میں ہیں۔

انہوں نے ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا، جیتے اور پھر آگے بڑھتے رہے، انہوں نے مقصد بتائے بغیر لاہور میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے پہلو میں بٹھایا اور جہانگیر ترین کے خلاف دھواں دار پریس کانفرنس کھڑکا دی، وہ اپنے مقصد میں کامیاب و کامران رہے، میرا خیال ہے کہ ان کی یہ پریس کانفرنس جہانگیر ترین کے نہیں براہ راست وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تھی، اور انہیں اس پریس کانفرنس کے لئے“ کچھ اور افراد“ کی تائید بھی حاصل ہو سکتی ہے، کیونکہ یہ“ کچھ اور لوگ“ بھی امور مملکت میں جہانگیر ترین سے مشاورت اور ان کی تائید سے نالاں ہو سکتے ہیں، وہ باتیں جو وزیر خارجہ کو وفاقی کابینہ میں، پارٹی کے اندر اور وزیر اعظم کے سامنے کہنا چاہئیں تھیں انہوں نے عوام کو مخاطب کرکے کہہ ڈالیں۔

یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے پریس کانفرنس سے پہلے یہ سب کیا بھی ہو اور نتیجہ کوئی نہ نکلا ہو، عمران خان نے اپنے وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس پر اظہار نا پسندیدگی کیا، جہانگیر ترین کی وکالت کرنے والوں کی لائن لگ گئی، جس جس کا داؤ لگا اس نے نواز شریف کی طرح ملک کی اعلی ترین عدالت سے عمر بھر کی نا اہلی کا سرٹیفکیٹ پانے والے جہانگیر ترین کو خوش کیا، شاہ محمود قریشی کا موقف ہے کہ سزائیں دو آدمیوں کو ایک جیسی اور اطلاق صرف نواز شریف پر ہی کیوں؟

دوسری جانب عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف نا اہل ہوئے، جیل میں گئے، رسوا ہوئے، مگر ن لیگ کے کسی آدمی نے ان پر تنقید نہیں کی، تو پھر ہمارے لوگوں کو جہانگیر ترین کے امور مملکت میں حصہ لینے پر اعتراض کیوں ہے؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے تو شاہ محمود قریشی کو یہاں تک تڑی لگادی کہ جہانگیر ترین آئندہ بھی وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہیں گے، یعنی کسی نے جو کرنا ہے کر لے، دوسرے کئی وزراء کرام نے بھی جہانگیر ترین کی“ خدمات“ کو خراج تحسین پیش کیا۔

اب جھانکتے ہیں شاہ محمود قریشی کے دل میں۔ وہ ہمیں اس کی اجازت دیں نہ دیں ماضی کے دریچوں میں جھانکنا کبھی کبھی ضروری بھی ہو جاتا ہے، وزیر خزانہ سیاست کا جو تجربہ رکھتے ہیں موجودہ حکومت میں عمران خان کے پاس اس پایہ کا کوئی ایک بھی وزیر، مشیر موجود نہیں، ان کا پارلیمانی تجربہ وسیع ہے، ضیاء الحق سے سیاست کے پہلے درس لئے، پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے ان لوگوں سے بہت کچھ سیکھا جو انہی کی طرح بلکہ ان سے بھی چار ہاتھ آگے تھے، پنجاب کے وزیر خزانہ اور وزیر منصوبہ بندی رہے۔

محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے دور اقتدار میں پارلیمانی امور کے وزیر مملکت رہے، وہ پہلے بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، اس وزارت میں ان کے لئے کچھ نیا نہیں، کسانوں کے حوالے سے جو پہلا تھنک ٹینک بنا تھا اس کے سربراہ بھی شاہ محمود قریشی تھے۔ بہت برداشت کر لیا اور کئی بار کر لیا، ان کی برداشت کے امتحان پاکستان پیپلز پارٹی بھی لیتی رہی، انہوں نے پی پی پی انیس سو ترانوے میں جوائن کی تھی، انہیں ایم این اے کا ٹکٹ ملا وہ کامیاب ہوئے اور پھر اس سے بھی اگلا دریا عبور کرنے کی سوچنے لگے، ان کے دل میں پیپلز پارٹی کے خلاف نفرت کی پہلی لہر اس وقت اٹھی تھی جب یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا گیا تھا، ان کے خیال میں وزارت عظمی کے لئے وہ زیادہ بہتر امیدوار تھے، شاید اپنا یہی ٹارگٹ لے کر وہ اس وقت پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں چلے گئے تھے جب پی پی پی اقتدار میں تھی، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان، بائیس برس کی جدوجہد کریں برائے اقتدار تو پھر یہ تو نا ممکنات میں سے ہے کہ شاہ محمود قریشی سوچیں کہ پاکستان تحریک انصاف الیکشن جیتے گی تو وہ وزیر اعظم شاہ محمود قریشی کو بنا دیں گے، جناب!

 یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ عمران خان شاہ محمود کے سیاسی تجربات اور ان کی سیاسی بصیرت سے مرعوب ہوجاتے، خود صدر بن جاتے اور شاہ صاحب کو نامزد کر دیتے وزارت عظمی کے لئے، کوئی وزارت عظمی کے لئے شاہ صاحب کا خواب نہیں چرا سکتا، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ شاہ محمود قریشی پاکستان تحریک انصاف کو نہیں چھوڑیں گے تا وقتیکہ پی ٹی آئی کی حکومت موجود رہتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہی نہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ عمران خان کا واحد متبادل ہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).