یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانوں میں


جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے جس میں انسانوں کی گنتی کی جاتی ہے۔ آپ کی رائے اہم بھی ہے۔ یہ بھی جمہوریت ہے۔ مگر جمہوریت کو کیا خطرات لاحق ہے اس کی وجوہات آپ ایک حمام میں بیٹھے لوگوں کی طرزِ گفتگو سے سمجھ سکتے ہیں۔

آج محترم عمران خاں نے بطورِ وزیراعظم کہا ہے کہ جناب زرداری اپنا ٹھکانہ جیل میں سمجھیں کیونکہ میں حکومت میں احتساب کرنے آیا ہوں۔

اس پر مجھے ایک مداری یاد آیا۔ لوگوں کا ہجوم جمع کرنے کے لیے مداری والے نے کبھی بھی کسی ڈھول کا استعمال نہیں کیا۔ وہ اپنا تماشا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے جیسے لوگ اس تماشے سے لطف اندوز ہونے کے لیے اس کا حصہ خود بہ خود بن جاتے ہیں۔ تماشا چلتا رہتا ہے اور آخر میں مداری جھولی پھیلا کر سب سے داد وصول کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ تماشائی کو جب تک سمجھ آتی ہے کہ اس کی جیب خالی ہو چکی ہے۔ تب تلک مداری اور بندر دونوں غائب ہو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ صورتحال پر نظر رکھیں۔ کیا ہم بھی تماشائی تو نہیں بن رہے۔ خیر یہ تو ہماری پرانی عادات ہیں اور جس طرح چاہیے ہمیں بندر کا تماشا دکھائے ہم اس سے مطمن رہتے ہیں۔

ابھی یہ تماشا کچھ اس طرح سے چل رہا ہے کہ ایک بندر کے ماتھے پر پٹرول لکھا ہے۔ ایک کے ماتھے پر گیس۔ ایک بندر روپیہ کی قیمت کو پیش کر رہا ہے۔ بجلی کے قیمتیں کم یا زیادہ بتانے والا بندر الگ ہے۔ ایک کہ ماتھے پر ہم نے ٹیکس کا پوسٹر لگایا ہے۔ مداری کے ہاتھ میں فن ہے کہ وہ تمام بندروں کو نچوا رہا ہے۔ تماشائی داد رہے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کو یہ تماشا پسند نہیں آ رہا مگر وہ بھی مداری کو چھوڑ کر نہیں جا رہے۔ ہر بندر کے تماشے پر مداری داد حاصل کرتا ہے۔ تماشائی تالیاں بجاتے ہیں۔ اور کسی ایک کی غلطی دوسرے پہ ڈال دیتے ہیں۔

حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ مداری نے سب کو اپنی باتوں کے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ تماشائی لٹتے بھی جارہے ہیں اور مسکرا بھی رہے ہیں۔ ایسے معجزے تاریخ میں کبھی کبھی ملتے ہیں کیونکہ ہر مداری اس کا ماہر نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ سب کو باتوں کے سحر میں کیسے مبتلا کیا جا سکتا

مجھے ایک شعر یاد آیا
مجھ سے بات کر کے دیکھو
میں باتوں میں آ جاتا ہوں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).