اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا


کچھ دنوں سے پے در پے چند ایسے مضامین پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ جن میں بچپن کے قصے، سہانے دنوں کی یادیں تھیں۔ جب شام بھی ہوا کرتی تھی اور اب تو صبح کے بعد سیدھی رات ہو جاتی ہے۔ تہذیب سے جڑے خوبصورت، روایتی کھیلوں کا ذکر تھا۔ جن سے تقریباً ہر شخص کو جذباتی لگاؤ ہے۔ لکھنے والے گریہ کناں تھے۔ بچپن چھن جانے، کھیل مر جانے کا نوحہ تھا۔ بچوں کے پاس وقت نہ ہونے کی آہ و زاریاں تھیں۔ سائنسی ترقی میں رشتوں کی مضبوطی کے لیے براہ راست ملنے کے بجائے جیسے ہم ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہیں کھیلوں میں بھی وہی ٹیکنالوجی ٹانگ اڑائے نظر آتی رہی۔ خیر کیا کیا جائے کہ انسان علم و فن اور ایجادات کی ارتقائی دوڑ میں جس کامیابی سے دوڑ رہا ہے اس سے کھیلوں میں بھی تو بتدریج ترقی ہی ہو گی۔ اور وقت کے ساتھ طور طریقے بھی تو بدل گئے۔

ابھی اسی کیفیت میں تھا کہ واٹس ایپ پر متحرک تصاویر کا مجموعہ ملا۔ جس میں ایک کے بعد ایک یادوں کا قصہ تھا۔ پرانے کھیلوں کی تصاویر، کہیں بچے پیٹھو گرم کھیل رہے تو کہیں آنکھ مچولی، کسی تصویر میں گلی ڈنڈا تو کسی میں کانچ (بنٹے ) کھیلتے بچے دکھائی دیتے تھے۔ بیک گراؤنڈ میں دھیمی دھنوں میں سحر انگیز گیت ”میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن“ چل رہا تھا۔ عجیب ہی کوئی کیفیت طاری ہو گئی تھی۔ میں لبوں پر کرب لیے سراپا سوال تھا ”میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی“۔

اس وقت سرشکِ باراں دماغ میں یہی چل رہا تھا ”کتنا بھلا وقت تھا وہ“۔ ہم کھیل رہے ہوتے تھے اور دیکھنے والوں کے چہروں پر مسکراہٹوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ اور ہمارے اپنے دل طمانیت کے احساس سے لبریز ہوتے تھے۔ لیکن اب؟ اول تو والدین بچوں کو گھر سے باہر قدم رکھنے نہیں دیتے کہ ساری چیزیں مٹھی میں قید، انٹرنیٹ پر مہیا کر دی گئی ہیں۔ ”باہر کیوں جا رہے ہو؟ لوفری کرنے۔ “ اب انہیں کون بتائے کہ میاں! بچوں کو ان جھمیلوں میں پھنسا کر حقیقی خوشیوں سے محروم کر رہے ہو۔

خیر! یادوں کی پٹاری بند کی اور سوچنے لگا۔ عجیب بات ہے نا صرف ایک بات بتائی، یاد دلائی جاتی ہے۔ ایک ہی نوحہ ہے۔ ’‘ اجی! ہمارے زمانے کے تو کھیل ہی مر گئے ”۔ “ آج کل کے بچے جانتے ہی نہیں نہ ان کھیلوں کو، نہ ان کے مزے کو ”۔ “ چھوڑو یار! کیا رونا روئیں اب بچوں کے پاس وقت ہی کہاں ہے ”۔ “ جی آج کل تو بچے موبائل، ٹیبلٹ، لیب ٹاپ میں ہی مگن رہتے ہیں ؛ انہیں فرصت ہی کہاں؟ ”مان لیا ساری باتیں پتھر پر لکیر ہیں۔

اب نہ بچوں کا بچپنا ہے، نہ ہی مزے مزے کے وہ کھیل، نہ وقت ہے اور نہ ہی دل کا زور۔ لیکن یہ بھی تو دیکھیے کہ کیا ہم نے اپنی ذمہ داری نبھائی؟ کیا صرف نوحہ گر بننا ہی ذمہ داری ہے۔ یادوں کے دریچے سے یادیں ضرور کاغذ پر اتاریں۔ ضرور بضرور اتاری جائیں۔ لیکن یادوں کا بستہ کھول کر دیکھیے تو؛ آپ نے اپنے بچوں کو اس میں سے کیا دیا؟ صرف دریچے کھول کر بیٹھ جانے سے تو بچے خبردار نہیں ہوں گے۔ نہ ہی اس چاشنی سے مستفید ہوں گے۔

آپ نے اپنے بچوں کے ساتھ کوئی پرانا کھیل کھیلا؟ کبھی کچھ وقت نکال کر، کوکلا چھپاکی، اندر مندر، لکن میٹی، پٹھو گرم کھیلے؟ نہیں! تو اب جب بچوں کے سامنے کوئی ذکر کرے گا تو انہیں کیا خبر ہو گی؟ وہ ٹکر ٹکر دیکھتے ہی رہیں گے۔ کیا آپ نے چندلمحے نکال کر اپنے بچپن میں لوٹنے کی کوشش کی؟ سوچیں آخری بار پٹھو گرم کب کھیلا؟ آنکھ مچولی؟ کانچ، گلی ڈنڈا؟ چھپن چھپائی؟ ٹھیک ہے آپ بڑے ہوگئے۔ ایسے کھیلوں سے آپ کے وقار میں کمی آئے گی۔

ٹائر کو لڑھکا کر ڈنڈے سے مار کر چلایا؟ لٹو گھمایا؟ چلو! لڈو کی الٹی طرف سانپوں والی گیم؟ چار چار پرچیاں (بادشاہ، وزیر، چور، سپاہی) ؟ اپنی گڑیا (بیٹی) کے ساتھ گیٹیاں کھیلے؟ اس کے ساتھ گڈی گڈیاں اور ان کی شادیوں کا کھیل کھیلا؟ مان لیا عزت خاک میں ملتی ہو گی۔ کوئی اور ایسا کھیل جو آپ نے تو کھیلا لیکن آپ کے بچے نہیں کھیلتے؟ وہ فسانے کسی نے دہرائے؟ بچوں کو قصے سنانے کے علاؤہ کبھی زندگی میں رنگ بھرا؟ نہیں تو کیوں؟ کیا ہم خود ذمہ دار نہیں ان کھیلوں کو دفن کرنے کے؟ یقیناً ہیں۔

تو پیارو! مان لیا آپ کا بستہ بھی میرے یادوں کے بستے کی طرح بھرا پڑا ہے۔ ”ہمارے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے“ اس سے اگلی بات سوچیے نا اب۔ کیسے ہمارے بچوں کا بچپن بھی اچھا بن جائے۔ کل کو وہ موبائل سے سر اٹھا کر کہہ سکیں ہاں یہ کھیل تو ہم بابا، مما کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ ہاں ہم نے لڈو کھیلی، گوٹیاں کھیلی ہیں، ارے یہ تو وہی گیم ہے جو باباہمارے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ بیٹی کہے :ماما مجھے گڈیوں کے کپڑے بنا کے دیتی تھیں۔ نوحے بہت ہو گئے آئیے اب خواب کو حقیقت میں بدلتے ہیں۔ مان لیا وقت کی شدید قلت ہے۔ یار! پندرہ بیس منٹ سوشل میڈیا پرا سکرول کی بجائے اگر گزری زندگی میں ا سکرول کر دیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا یا فیس بک ناراض ہو جائے گی کہ نا بھئی تو نے پندرہ منٹ کم دیے۔ قطعاً ایسا نہیں ہوگا۔

میں نے بھی نوحے پڑھے، یادوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ پہروں اداس رہا۔ ”ہائے ہمارا بچپنا اور آج کل کے بچوں کا بچپنا“۔ لوٹنا مشکل ہے نا؟ لوٹانا مشکل تو نہیں۔ پھر طے کیا کہ بچوں کے ساتھ روزانہ بیس منٹ کوئی نیا روایتی کھیل، جو اب مٹ گیا وہ کھیلوں گا۔ بچوں کو خبردار کر دیا کہ موبائل ٹیبلٹ آدھ گھنٹہ کے لیے چھوڑیں۔ آئیں کھیلتے ہیں۔ اب جب پڑھے لکھے، مصروف والدین کے مصر وف بچوں کو پیٹھو گرم، پکڑم پکڑائی، آنکھ مچولی، گلی ڈنڈا، لڑکیوں کو گیٹیاں، گڈیاں کھیلتے دیکھتا ہوں۔

یقین کریں خوشی ہوتی ہے۔ گریہ و زاری کو خوشی میں بدلنے کا مزہ آپ بھی چکھیے۔ تھوڑا سا، بالکل تھوڑا سا وقت نکال کر ٹیکنالوجی کی دوڑ میں جو کھیل بہت پیچھے رہ گئے انہیں دہرائیے۔ آپ کے بچے پسند کریں گے اور مجھے امید ہے کہ آپ بھی تھوڑا سا وقت نکال کر اس حسین دور کے بچپن میں جائیں گے تو اس کی رعنائی کو قدرتی رنگ میں محسوس کریں گے۔ آپ کو اچھا لگے گا۔ تو کیا آپ بچپن لوٹانا پسند کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).