بھٹو کو ہنری کسنجر کی دھمکی کا ماجرا


میزبان شخص نے مہمان کی ساری بات تسلی سے سننے کے بعد مہمان سے الٹا سوال کیا کہ آپ ہی میرے دوست ہیں آپ ہی مجھے مشورہ دیں کہ مجھے اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟

مہمان کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور وہ بولا کہ دیکھیں مسٹر۔ سفارت اور اقتدار کے کھیل میں اصول کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوا کرتا۔ اور اس بات کو آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ میں تو ایک میسنجر ہوں باقی فیصلہ کیا کرنا ہے اس بابت اگر رہنمائی درکار بھی ہے تو آپ کو مشورہ اپنے مشیروں سے کرنا چاہیے۔

میزبان نے پھر مسکراتے ہوئے شائستہ لہجے میں کہا کہ دیکھیں میں آپ کو اپنا دوست سمجھتا ہوں اور اس بابت آپ ہی سے مشورے اور رہنمائی کا طلبگار ہوں۔

مہمان نے قہقہہ لگایا میزبان کی طرف دیکھتے ہوئے بولا کہ مسٹر۔ آپ واقعی بڑے ذہین ہیں گفتگو میں ہلکا توقف کیا گلے کو صاف کرنے کے لیے ہلکی کھانسی کا سہارا لیا اور پھر ذرا سخت لہجے میں بولا کہ مسٹر۔ اگر سچ پوچھیں تو میں آپ کو کوئی مشورہ دینے ہرگز نہیں آیا بلکہ دھمکی دینے آیا ہوں ہمیں آپ کے اِس پروگرام سے خدشات اور خطرات لاحق ہیں آپ کے پاس اس پروگرام کو ختم کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔

میزبان نے مہمان سے پوچھا کہ اگر میں انکار کروں تو !

اس بار دونوں نے آپس میں آنکھیں ملا لیں۔ مہمان کے چہرے پر مزید سنجیدگی اور غصے کے آثار نمایاں ہوئے اور وہ بولا کہ مسٹر۔ اگر آپ انکار کرتے ہیں تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ہم اس صورت میں آپ کو عبرت کی مثال بنا دیں گے!

مہمان کا جواب سن کر میزبان کے چہرہ پر بھی غصہ نمودار ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور مہمان کی طرف سلام کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا کہ میرا فیصلہ بھی سن لیں میں اس پروگرام کو اب ختم نہیں کروں گا اس پروگرام کا آئندہ نسلوں کے تحفظ کے لیے جاری رکھنا اب نہایت ضروری ہے۔

یہ گفتگو وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو (میزبان) اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر (مہمان) کے درمیان اس وقت ہو رہی تھی جب بھٹو صاحب نے ایٹمی پروگرام شروع کیا اور امریکہ ان پر ہر طرح سے دباؤ بڑھا رہا تھا کہ وہ اس پروگرام سے باز رہیں اور اسے فی الفور روک دیں مگر انہوں نے ہر دباؤ کے باوجود یہ فیصلہ کیا کہ پروگرام کو جاری رکھنا اب ملکی تحفظ کے لیے بہت ضروری ہو چکا ہے۔

اسی طرح ایک بار امریکی صدر جانسن نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کو علیحدگی میں کہا کہ ہمارے راستے سے ہٹ جاؤ جتنی دولت چاہیے اور دنیا کے جس حصے میں چاہیے بتاؤ وہ تمہیں مل جائے گی

اس پر شہید بھٹو نے جواب دیا کہ ہم غیرت مند قوم ہیں کوئی بکاؤ مال نہیں۔

یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایک عظیم رہنما ہمیشہ اپنے فیصلے اپنی نسلوں کی بقا اور تحفظ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا کرتا ہے اور وہ عوام کے اعتماد کی سودے بازی کبھی نہیں کرتا۔ پھر ان فیصلوں اور اقدامات کے لیے اس سے جتنی بڑی قربانی طلب کی جائے وہ اس سے دریغ بھی نہیں کرتا۔ بعد میں یہی قربانیاں آنے والی نسلوں کے تحفظ و سلامتی کا باعث بنا کرتی ہیں۔

تاریخ کا واضح اصول ہے کہ یہ آسانی سے کبھی کسی شخص کو اپنے ماتھے کا جھومر نہیں بناتی بلکہ اس کے لیے کڑا سے کڑا امتحان لیا کرتی ہے تاریخ عالم میں جن قائدین کو عظیم مقام اور مرتبہ حاصل ہوا ہے انہیں اس کے لیے بے شمار مشکلات اور مصائب بھی جھیلنے پڑے ہیں (اس بابت تایخ کھنگالنا یا دہرانا ضروری نہیں ) ۔

شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی ایسے ہی عالمی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری اور اپنے ملکی عوام کے ساتھ بے پناہ محبت، وطنِ عزیز کی سلامتی و استحکام اور سِول سپرمیسی کے لیے باطل قوتوں سے ہر خفیہ سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا جس وجہ انہیں سخت سے سخت اذیت سے گزرنا پڑا مگر وہ ثابت قدم رہے انہوں نے اپنی جان قربان کر دی مگر اصولوں سے پیچھے نہ ہٹے۔

انہیں نظر بند رکھا جاتا رہا۔ گرفتار کر لیا جاتا رہا ملک کی مختلف جیلوں میں رکھا جاتا رہا وہ پاکستان میں جہاں بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سلسلے میں عوامی جلسہ کرنے کا اعلان کرتے تو ان کی جماعت کے علاقائی کارکنان اور سیاسی رہنما گرفتار کر لیے جاتے مگر وہ حوصلہ نہ ہارے اور ثابت قدم رہے۔

آخری بار بھٹو صاحب کو ان کی رہائش گاہ المرتضیٰ سے مارشل لا ضابطہ 12 کے تحت گرفتار کر لیا گیا الزام یہ تھا کہ بھٹو صاحب کی سیاسی سرگرمیاں مارشل لا کے لیے نقصان دہ اور خطرہ ہیں۔ اسی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے جنرل فیض علی چشتی نے اپنی کتاب، بھٹو، ضیا اور میں، میں انکشاف بھی کیا کہ مجھے اس رات جنرل ضیا نے بھٹو خاندان کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ یہ گرفتاری بھی تب عمل میں لائی گئی کہ بھٹو صاحب کو ابھی جیل سے رہا ہوئے صرف تین دن گزرے تھے۔

اس آخری قید میں شہید بھٹو پر کون سا ظلم روا نا رکھا گیا اس بارے لکھنے اور پڑھنے کے لیے حوصلہ چاہیے۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ میں فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا لیکن تاریخ کے ہاتھوں نہیں۔

آج دیکھا جائے تو شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کہا سچ ثابت ہو چکا ایک طرف ظالم و جابر جنرل ضیا الحق تھا کہ جس نے ڈالروں کے لالچ میں ملک کی پرامن گلیوں کو لہو سے تر کیا۔

اپنی ہی معصوم عوام کے لہو بہانے والوں کو نہ صرف محفوظ پناہ گاہیں دیں بلکہ ان کی پشت پناہی بھی کی اور شاباش بھی دیتے رہے۔

نفاذِِ شریعت کی آڑ میں شدت پسندی کی پرورش کے منصوبے بنائے اور دہشتگردی کی راہ کو ہموار کیا۔ ملک کو ایک کرائے کی کالونی بنا دیا بس ڈالر دو اور جو من چاہے کام لو۔

ان گیارہ سالوں میں ایسے فیصلے کیے کہ جن کی وجہ سے پیدا شدہ مسائل سے ہم آج تک جان نہیں چھڑا سکے۔

جبکہ دوسری طرف شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نام ہے جنہیں آج بھی ہر با شعور انسان خراجِ تحسین پیش کر رہا ہے۔

ایک طرف سیلِ موجِ بلا کہ جب سر سے گزری تو یہ سمجھی کہ اب نہ بھٹو کا نام ہوگا نہ ہی کوئی نام لیوا۔

مگر دوسری طرف ایک عوامی رہنما تھا کہ جس نے اپنی آنکھوں پر پٹی بھی نہ باندھنے دی اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو فقط یہ کہا کہ اے خدا گواہ رہنا میں بے قصور ہوں۔

ایک طرف آئین کو کاغذ کا بیکار سا ٹکڑا کہنے والا جنرل تھا جو، روح پرواز کر چکی ہے، کی خبر پا کر محفلِ یاراں میں محوِ رقص ہوا جبکہ دوسری طرف بظاہر ایک رسی سے جھولتا جسم تھا لیکن درحقیقت اب وہ ایک نظریے کی صورت ہر ذی شعور انسان کی فکر میں ہمیشہ کے لیے للکار بن چکا تھا۔

بقلم ساحر لدھیانوی صاحب کہ

جسم کی موت کوئی موت نہیں ہوتی ہے

جسم مٹ جانے سے انسان نہیں مٹ جاتے

دھڑکنیں رکنے سے ارمان نہیں مر جاتے

سانس تھم جانے سے اعلان نہیں مر جاتے

ہونٹ جم جانے سے فرمان نہیں مر جاتے۔

سچائی اور وطن پرستی کے ذریعے ضمیروں کو فتح کرنے کی اپنی حقیقت ہے جسے کوئی بھی قلم لکھ کر قرض نہیں اتار سکتا کیونکہ خود کو امر کر لینے والے خود ہی جانتے ہیں کہ وہ کیسے عجیب بہادرانہ مزاج کے مالک ہوتے ہیں جو نہ تو خوفزدہ ہوتے ہیں نہ ہی ہارتے ہیں۔ سالہا سال گزر جانے کے بعد آج زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور جئے جئے جئے بھٹو کہنے والے لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں آج بھی بھٹو کے نام کے کاروان کا لوگ استقبال کرتے نظر آتے ہیں ان کی برسی پر انہیں سرخ سلام پیش کرتے نظر آتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا یے کہ ذوالفقار علی بھٹو تاریخ میں کامیاب و سرفراز ہوچکے ذوالفقار علی بھٹو کا نام آج بھی سیاست کے میدان میں اپنی تاب و چمک کے ساتھ موجود ہے جبکہ ان کے مخالفین کا نام ملکی تاریخ میں سیاہ کالک کے طور پر شمار ہو رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).