کیا میں تم جیسا مسلمان بن سکوں گا؟


لندن آکر میری دوستی ایک فرانسیسی مسلمان سے ہوئی۔ داؤد میری یونیورسٹی سے International and Commercial Dispute Resolution میں LLM کر رہا ہے۔ اس سے پہلے وہ دو ماسٹرز پیرس میں کر چکا ہے۔

داؤد کے والدین نے فرانس میں اسلام قبول کیا تھا۔ میرے نوجوان دوست نے بتایا کہ وہ اپنے فرانسیسی لہجے کی وجہ سے قرآن درست تلفظ سے نہیں پڑھ سکتا۔ شادی کے بعد بیوی نے اسے احساس دلانا شروع کیا کہ وہ قرآن پڑھنے میں خاصا کمزور ہے۔ داؤد نے بتایا کہ اس کی بیوی اس سے زیادہ مسلمان ہے۔ میں نے اسے دلاسا دیا کہ میں بھی اپنی بیوی سے کم مسلمان ہوں۔

داؤد نے چاہا کہ میں اسے قرآن پڑھنے میں مدد کروں۔ جب اس نے چند آیتیں پڑھ کر سنائیں تو میں سمجھ گیا کہ اس کے ساتھ بہت محنت کرنی پڑے گی۔

داؤد کو قرآن پڑھانے والوں نے وہی غلطی کی جس کی نشاندہی میرے والد صاحب بطورِ معلم بارہا کرتے ہیں۔ قرآن پڑھانے والا ایک آیت پڑھتا اور داؤد اسے دہراتا۔ یوں داؤد کی زبان پر قرآن کا کچھ حصہ رواں ہوگیا لیکن اسے حروف جوڑ کر الفاظ بنانے کے اصول سمجھ نہ آئے۔ مجھے اسے قرآن پڑھاتے ہوئے میرے والد صاحب کا یہ قاعدہ بارہا یاد آتا ہے جو انہوں نے ہمیں ناظرہ پڑھاتے ہوئے سکھایا تھا۔ والد صاحب کہتے تھے کہ ”اس صفحہ کو پڑھنے کے دو طریقے ہیں۔ پہلا ہجے سے، دوسرا بغیر ہجے سے“۔ داؤد کو اب ہجے کرنا آگئے ہیں۔

دوسرا بڑا مسئلہ اس کا فرانسیسی لہجہ ہے۔ میں نے کراچی کی گرینچ یونیورسٹی سے گریجویشن کرتے ہوئے فرانسیسی زبان کا ایک کورس اضافی مضمون کے طور پر پڑھا تھا۔ داؤد کو میں نے پہلی نشست میں ہی بتایا دیا تھا کہ تمہیں ”ر“ اور ”غ“ کا sound ادا کرنے کے لیے محنت کرنی پڑے گی۔ داؤد کی ادائی میں ”ر“ کی جگہ ”ل“ اور ”غ“ کی جگہ ”خ“ نکلتا ہے۔ ان دو حروف نے میرے صبر کا امتحان لیا۔ میں اپنے دوستوں میں ”شین قاف“ درست کروانے کے لیے تو مشہور تھا۔ لندن آکر ”ر“ اور ”غ“ درست کروانے کا کام بھی مل گیا۔

میں داؤد کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان یاد آتا ہے کہ اٹک اٹک کر قرآن پڑھنے والوں کے لیے دوگنا اجر ہے۔ اس حدیث کے مطابق داؤد نے خوب نیکیاں سمیٹی ہیں۔ قرآن پڑھتے ہوئے اس کے چہرے پر معصومانہ سنجیدگی ہوتی ہے۔ جب وہ کوشش کے باوجود بھی کچھ الفاظ درست انداز سے ادا کرنے میں دو تین بار ناکام ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھوں میں بچگانہ سی بے بسی اتر آتی ہے۔ ایسے موقع پر میں اسے یہاں وہاں کی باتوں میں لگا دیتا ہوں۔ داؤد سے بات چیت کرکے اندازہ ہوا کہ اس کا اسلام بہت سیدھا سادھا ہے۔ اس کے لیے مذہب بنیادی طور پر ایک اعلی اخلاقی وجود کی تکمیل کے لیے سب سے موثر و کارگر فلسفہ ہے۔

فرانس میں مسلمانوں کو اس طرح کی مذہبی آزادی میسر نہیں جیسی برطانیہ میں حاصل ہے۔ داؤد کی خواہش ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے لندن شفٹ ہو جائے تاکہ اس کی بیوی کو اسکارف پہننے کی وجہ سے فرانس میں پائے جانے والے نفرت بھرے رویے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ داؤد نے مجھ سے کہا کہ وہ لوگوں کو ان کے عقائد اور لباس کی وجہ سے judge نہیں کرتا اور نہ وہ چاہتا ہے کہ اسے اور اس کی بیوی کو ان کے لباس و عقائد کی وجہ سے discriminate کیا جائے۔

ایک دن ہم یونیورسٹی میں بیٹھے قرآن پڑھ رہے تھے کہ میں نے اسے چند آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ اس نے حسرت بھری نگاہوں سے میری طرف دیکھ کر پوچھا: ”نجم! کیا میں کبھی تمہاری طرح قرآن پڑھ سکوں گا؟ “ میں نے کہا تم تو میری طرح کسی نہ کسی دن قرآن پڑھ لوگے۔ لیکن بڑا سوال یہ ہے کہ کیا میں تمہاری طرح کا سیدھا سادھا مسلمان بن سکوں گا؟

نجم سہروردی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نجم سہروردی

نجم سہروردی دی نیوز انٹرنیشنل، ایکپریس ٹریبیون اور انگریزی چینل ٹریبیون 24/7 میں بطور رپورٹر، سب ایڈیٹر اور نیوز پروڈیوسر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان دنوں لندن میں یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر سے ''مذہب، قانون اور معاشرے" کے موضوع پر ماسٹرز کر رہے ہیں

najam-soharwardi has 7 posts and counting.See all posts by najam-soharwardi