کمزور، طاقتور اور قانون


وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں پیغمبرِ اسلام نے فرمایا کہ ماضی میں وہ قومیں تباہ ہوئیں جہاں طاقتور اور کمزور کے لئے الگ قانون تھے۔
بظاہر یہ اس بات کا اعتراف یا اس پر دکھ کا اظہار ہے کہ پاکستان میں بھی طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہے۔

ظاہر ہے اس صورت حال کے لیے محترم وزیر اعظم موجودہ پی ٹی آئی حکومت یا خود کو قصوروار نہیں سمجھتے۔ ان کا مطلب یقینی طور پر یہ ہے کہ سابقہ حکومتوں کی وجہ سے یہاں طاقتور لوگ قانون سے بالاتر ہیں تو کیا وہ خود یا موجودہ حکومت کو اس سلسلے میں بری الذمہ اور صرف سابقہ حکمرانوں کو قصوروار قرار دینے میں حق بجانب ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صاحب، جن کی پارٹی پچھلے تقریباً چھ سال سے خیبر پختونخوا اور پچھلے آٹھ ماہ سے اسلام آباد اور پنجاب پر حکومت کر رہی ہے، نے اس صورتحال کو تبدیل کیا ہے یا حالات جوں کے توں رکھنے پر مائل رہے ہیں؟

ماضی کے حکمران جب اپنے دوستوں کو نوازتے، ان کی قانون شکنی کی پشت پناہی یا ان پر کرشن کے الزامات سے چشم پوشی کرتے تو خان صاحب بجا طور پر ان پر تنقید کرتے تھے۔ لیکن لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا انہوں نے اپنے قریبی طاقتور دوستوں کو نہیں نوازا؟ سپریم کورٹ سے کرپشن پر سزایافتہ اپنے ساتھی کو کیا انہوں نے ویسا ہی قابل نفرت سمجھا جس طرح وہ وہاں سے سزا یافتہ اپنے سیاسی مخالف نواز شریف صاحب کو سمجھا؟ کیا انہوں نے اپنے چند ایک طاقتور ساتھیوں، جن پر کرپشن کے الزامات ہیں، کے خلاف خود کوئی ایکشن لیا ہے؟

کیا بی آر ٹی میں مبینہ کرپشن اور سرکاری رپورٹ کے مطابق اربوں روپے کی مبینہ ضیاع پر یا سابقہ احتساب کمیشن کو پانچ سال بعد بند کرکے 80 کروڑ روپے ضائع کرنے پر انہوں نے کوئی ریفرنس اپنے کسی ساتھی کے خلاف دائر کیا یا انہیں پارٹی یا حکومتی عہدے سے الگ کیا ہے؟ اگر قانون سب کے لیے ایک ہے تو کیا ایک وفاقی وزیر کا وزیر اعظم عمران خان کے خلاف سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال پر تحقیقات کھولنے پر نیب سے معافی مانگنے کا مطالبہ ٹھیک تھا؟ لوگ تو یہ سوال کرتے ہیں پی ٹی آئی کے رہنماٶں پر دھرنے کے دوران درج شدہ دہشت گردی وغیرہ کے مقدمات میں انہوں نے قانون اور متعلقہ اداروں کا کتنا احترام کیا اور خود کو قانونی کارروائی کے لیے کیسے پیش کیا؟

مان لیتے ہیں خان صاحب غریبوں سے پیار کرتے ہیں اور جب قانون کی عمل داری کی بات آئے تو یہ اپنے پرائے اور کمزور و طاقتور میں فرق نہیں کرتے لیکن لوگ سوال کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ایک طاقتور وزیر کی شکایت پر آئی جی پولیس اسلام آباد کو ہٹایا لیکن کیا وزیر کے خلاف ایکشن تب نہیں لیا جب عدالت عظمیٰ نے اس واقعے کا نوٹس لیا؟ یا انہوں نے ڈی پی او ساہیوال کو ہٹایا کہ اس نے ان کے ایک قریبی طاقتور بندے سے پنگا لیا اور اس کے ڈیرے پر جانے سے انکار کیا تھا لیکن انہوں نے ساہیوال سانحے میں بظاہر غلط اطلاع فراہم کرکے بے گناہوں کی قتل کا موجب بننے والے طاقتوروں کے خلاف کیا کارروائی کی؟

کیا الٹا کمزور بے گناہوں کو بعد از مرگ متہم نہیں کیا گیا؟ کیا خان صاحب نے خود یا ان کی حکومت نے سرکاری تحقیقات کے مطابق ساہیوال میں بے گناہ قتل کیے گئے والدین کے کمزور بچوں کے سر پر دستِ شفقت رکھا ہے؟ لوگ کہتے ہیں بظاہر ان کے خیال میں بھی کمزور اور طاقتور اور اپنے اور پرائے کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔

اب معیشت پر آتے ہیں۔ اب تک یہ حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی طرح برآمدات بڑھانے اور طاقتور سرمایہ داروں کو ٹیکس نٹ میں لانے کے لیے درکار جرات اور تیاری نہیں دکھا پائی ہے اور اس نے بھی روپے کی قدر گھٹانے اور بجلی گیس اور پٹرول کو مہنگا کرکے بالواسطہ ٹیکسوں اور بہت زیادہ قرضے لینے کے ذریعے بجٹ خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے جس سے غریب و بے کس عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ حکومت اب تک کتنے طاقتور افراد کو ٹیکس نٹ میں لائی ہے؟ اس نے غریبوں پر بوجھ ہی میں کیوں اضافہ کیا ہے؟ کتنے ”کرپٹ“ افراد سے ریکوری کی ہے؟ لگتا تو یہ ہے کہ بے بس غریبوں کو ہی ماضی کی طرح قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

جب اب بھی طاقتور افراد کے غیر قانونی گھروں کو ریگولرئز اور عام لوگوں کے گھروں کو مسمار کیا جارہا ہو اور جب اب بھی احتساب کرتے اورقانون نافذ کرتے وقت میرٹ کے بجائے کھلم کھلا اپنے پرائے میں تمیز ہوتا دکھائی دے تو اس اعتراف اور اظہار غم کا کیا فائدہ۔

قانون کی عملداری قائم ہونے میں دیر ہی نہ لگے اگر حکومتی عہدوں پر براجمان طاقتور لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آزادی سے کام کرنے دیں، میرٹ پر ان کے لیے ایماندار افسران تعینات کریں، اپنے گروہ سے تعلق رکھنے والوں کی پشت پناہی یا ان کے خلاف ایکشن لینے والے اہلکاروں کی سرزنش نہ کریں اور خود کو اور اپنے گروہ کو بھی احتساب کے لیے پیش کریں۔

وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اب تک سیاست کے انداز و اطوار، نظم و نسق کے امور، معیشت کی تدبیر، غیرملکی تعلقات کی نوعیت اور اداروں کے بارے میں طرزعمل وغیرہ کی نکات پر سابقہ حکومتوں کا تسلسل رہا ہے اور کسی طور پر بھی مختلف نظر نہیں آئی۔ وہ چاہیں تو تاریخ میں امر ہوسکتے ہیں۔

عمران خان صاحب اب ملک کے منتظم اعلیٰ ہیں۔ وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور انہیں دو میں سے ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ وطن عزیز کی ہر غلطی، بدنامی، ناکامی، نقصان اور کمزوری کا الزام اپنے سیاسی مخالفین پر دھرنے اور انہیں شیطان مجسم کے طور پر پیش کرنے کا شغل ہی جاری رکھیں اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس صورت حال کو بدلنے کے لیے کمر کس لیں۔ تمام مخالفین کا احترام کریں۔ ملکی سیاست، معیشت اور سماج کی اصلاح کے لیے ان کے مشورے سے ایک پروگرام بنائیں اور بغیر کسی امتیاز کے قانون کی بالادستی قائم کرنے اور بے لاگ احتساب کی طرف پیش رفت کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).