سلیم الزماں صدیقی، رلکے اور عمر بڑھانے کا نسخہ


دوتین ہفتے پہلے ممتاز سائنس دان سلیم الزماں صدیقی کے بارے میں علیم احمد کی تحریر عزیز دوست رفاقت حیات نے فیس بک پر شیئر کی جس کاعنوان تھا:

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی پر ڈراما نہیں بن سکتا!

اس کے بعد وہ لکھتے ہیں:

’’ کیا مشہور پاکستانی سائنسدان ،پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی زندگی پر ڈراما نہیں بن سکتا؟‘‘

یہ سوال گذشتہ دنوں کراچی ادبی میلے(کے ایل ایف )میں ’’ پاکستانی ڈرامے کا عروج وزوال ‘‘ کے عنوان سے ایک نشست میں کسی خاتون نے کیا۔ اسٹیج پر براجمان ، نابغہ روزگار پاکستانی ہدایت کاروں کاجواب متفقہ اور بے رحمانہ تھا: نہیں! ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی زندگی پر ڈراما نہیں بن سکتا۔ ایک سائنٹسٹ کی زندگی سے بھلا کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ؟ کون انویسٹ کرے گا؟ کون ’’ اسپانسر ‘‘ کرے گا اس ڈرامے کو؟‘‘

ان سطور کے بعد علیم احمد نے سلیم الزماں صدیقی کی زندگی کے چند اہم واقعات بیان کیے ، ہر واقعہ کے بعد وہ طنزیہ لہجے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ واقعہ بھی بھلا کیا کسی ڈرامے کا حصہ بنے گا۔

یہ تحریر پڑھ کرہمیں سلیم الزماں صدیقی بے طرح یاد آئے اور وہ بھی رائنرماریا رلکے کے تعلق سے۔ اس عظیم شاعر کے کلام سے ہمارے تعارف کا ذریعہ وہی بنے تھے۔ منفرد شاعر اور اردو ادب کی نرالی ہستی زاہد ڈار سے تعلق استوار ہوا تو ان سے رلکے کا ذکر بہت سنا۔ انھوں نے ایک روز بتایا کہ سلیم الزماں صدیقی نے رلکے کی نظموں کے عمدہ تراجم کیے ہیں جو پہلے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پرچے ’’ جامعہ ‘‘ میں اور بعد ازاں ’’ سویرا ‘‘ میں شائع ہوئے۔

صلاح الدین محمود جس بھلے زمانے میں ’’ سویرا ‘‘ کے مدیر تھے، انھوں نے شاکر علی سے ان ترجموں کے بارے میں جانا تو ’’ جامعہ ‘‘ کے پرچے ڈھونڈنے کی ذمہ داری زاہد ڈار کو سونپی ۔ زاہد ڈار کی کاہلی ضرب المثل ہے ، لیکن صلاح الدین محمود جانتے تھے کہ رلکے کا عشق انھیں پرچے تلاش کرنے پر مجبور کر دے گا۔ توقعات کے عین مطابق زاہد ڈار نے پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری سے یہ قیمتی خزانہ ڈھونڈ لیا۔ صلاح الدین محمود نے جرمن زبان سے براہ راست ترجمہ ہوئیں سترہ نطمیں ’’ سویرا ‘‘ میں سلیم الزماں صدیقی اور زاہد ڈار کے شکریے اور شاکر علی کی یاد میں شائع کر دیں اور لکھا

’’ اب ایک بار پھر یہ تراجم ہمارے وقتوں کی بینائی کا حصہ ہیں ‘‘

salimuzzaman siddiqui (Right)

زاہد ڈار بڑے کھوجی ہیں انھوں نے ’’ جامعہ ‘‘ کے مطلوب شمارے ڈھونڈ نکالے، ہم نے بھی تھوڑی ہمت کی اور ’’ سویرا‘‘ کا مذکورہ پرچہ تلاش کرلیا تھا جس میں سے تین نظموں کا ترجمہ ملاحظہ ہو :

بیوہ کا گیت

شروع شروع میں زندگی میں ایک مزہ تھا،

ایک اُمنگ تھی، ایک ڈھارس تھی،

یہ کہ جوانی میں یونہی ہوتا ہے۔

اُن دنوں کیا معلوم ہوتا

نہ معلوم تھا کہ زندگی کیا چیز ہے،

اور دفعتاً زندگی یہ ہو گئی

کہ سال آیا اور سال گیا۔

نہ اس میں مزہ رہا، نہ تغیّر، نہ تحیّر

جیسے کوئی بیچ سے دو ٹکڑے کر دے۔

اس میں نہ اُس کی خطا تھی نہ میری،

ہم دونوں صابر تھے اور صبر بھی کرتے رہے،

لیکن موت کو صبر نہیں۔

میں نے اُس کو آتے دیکھا (کیا ہی منحوس آنا تھا اُس کا آنا)

اور میں اس کو تکتی رہی، اور وہ سمیٹتی گئی، سمیٹتی گئی۔

کچھ میری تھوڑی ہی تھی، میری!

پھر تھا کیا میرا؟ میری، میرا؟

کیا میرا سوگ تک مانگے کا نہ تھا،

قسمت کا دیا قرض؟

تقدیر، نصیب ہی نہیں لیتی،

دل کا رنج اور جگر کے نالے تک، لوٹ لیتی ہے

اور پھر اُجڑے کھنڈل کو گُدڑی کے داموں خرید لیتی ہے۔

ہاں! تقدیر آئی اور ایک نہیں کے بدلے سب کچھ لے گئی،

میرے چہرے کی ہر ہر بات،

میری چال ڈھال،

سب،

جیسے روز کے روز کا نیلام،

اور جب کچھ نہ رہا تب اپنے حالوں چھوڑ دیا۔ ۔ ۔

خالی ہاتھ کھڑی ہوں!

***     ***

رنج کی گھڑی

کوئی کہیں رو رہا ہے دنیا میں،

آپ ہی آپ رو رہا ہے دنیا میں،

میرے لیے۔

کوئی کہیں ہنس رہا ہے دنیا میں،

آپ ہی آپ ہنس رہا ہے دنیا میں،

میرے اُوپر۔

کوئی کہیں جا رہا ہے دنیا میں،

آپ ہی آپ جا رہا ہے دنیا میں،

میری جانب۔

کوئی کہیں مر رہا ہے دنیا میں،

آپ ہی آپ مر رہا ہے دنیا میں،

مجھے تکتے ہوئے۔

*

انجام

موت ایک عظیم حقیقت ہے؛

اور ہم؟

اس کا ایک تبسم زیرِ لب!

جب خیال ہوتا ہے کہ زندگی

عین شباب پر ہے، تو وہ،

عین مجلسِ نشاط میں،

اپنا ناچ ناچنا شروع کر دیتی ہے۔

رلکے کے ایک عاشق صادق ممتاز مصور شاکر علی بھی تھے ۔ معروف نقاد سہیل احمد خان نے لکھا ہے کہ ان کے پلنگ کے ساتھ تپائی پر پڑی کتابیں بدلتی رہتی تھیں سوائے رلکے کی تصانیف کے ۔ وہ کبھی کبھار رلکے نظموں کے مصرعے سناتے بھی تھے۔ سہیل احمد خان کو بھی رلکے پر شاکر علی نے ہی لگایا۔ ان کے بقول : رلکے کی شاعری میں وجود کے سناٹوں، تنہائی اور راتوں کے طلسمات اور روح کے جس کرب کا احساس ہوا ہے وہ شاکر صاحب کو اپنے مزاج سے مماثل نظر آتا تھا انھوں نے اپنی بعض تصویریں بھی رلکے کی بعض نظموں کے موضوعات پر بنائی تھیں اور ایک دو تصویروں پر رلکے کے مصرعے بھی درج کیے تھے ، ذاتی طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجھے رلکے کی شاعری کی طرف مائل کرنے میں بنیادی اثر شاکر صاحب کا تھا۔ ‘‘

1965کی جنگ کے دوران انتظارحسین نے شاکرعلی سے پوچھا کہ وہ ان دنوں کیا کررہے ہیں توانھوں نے جواب دیا ’ انتظارصاحب ، میں تو ان دنوں رلکے پڑھتا ہوں اورچاند پینٹ کرتاہوں جو سرحد کے اس طرف بھی چمکتا ہے اور اس طرف بھی چمکتا ہے۔ ‘

shakir ali

مجلس ترقی ادب نے اچھا کام یہ کیا کہ ساٹھ برس بعد رلکے کے شاہکار دس نوحوں کی اشاعت ثانی ممکن بنائی۔ ان نوحوں کو ہادی حسین نے اردو روپ دیا اور یہ پہلی دفعہ ’’ نیا دور ‘‘ کراچی نے 1953 میں شائع کیے تھے ۔ مترجم کا کہنا ہے کہ اس کے ترجمے بڑی حد تک مطابقِ اصل ہے۔ مجلس سے شائع شدہ کتاب میں محمد سلیم الرحمٰن کے قلم سے ترجمہ ہونے والی رلکے کی چھ نظمیں بھی شامل ہیں۔ رلکے کے بارے میں ڈاکٹر این میری شمل کے مضمون کا ترجمہ بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔ رلکے کی طویل نظم ’’ اورفیئس کے لیے نغمہ‘‘ کا ترجمہ فہمیدہ ریاض نے کیا تھا جو ان کی شاعری کے آخری مجموعے ’’ تم کبیر۔۔۔‘‘ میں شامل ہے۔ رلکے کی شاعری کے یہ ترجمے نہ جانے کتنی ہی بار پڑھے اور ہر بار اس کے مترجموں کے لیے دل سے دعا نکلی ۔ بہت سال پہلے ’’ مشعل ‘‘ نے رلکے کے ’’ نوجوان شاعر کے نام خطوط ‘‘ شائع کیے تھے ،جن کا ترجمہ رضی عابدی نے کیا تھا۔

بات سلیم الزماں صدیقی سے شروع ہوئی اور رلکے تک پہنچی اور پھر آگے بڑھتی چلی گئی ، اس تحریر کے آخر میں ہم ممتاز سائنس دان کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ رلکے کے بعد بعد میرے لیے سلیم الزماں صدیقی کا دوسرا حوالہ ممتاز صحافی اور دانش ور غازی صلاح الدین ہیں جو ان سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ انھیں سلیم الزماں صدیقی پر جس اعتبار سے رشک آتا اسے ناظم حکمت نے یوں بیان کیا ہے:

مجھے ان پر رشک آتا ہے جنھیں اپنی عمریں بڑھنے کا علم ہی نہیں ہے

وہ اپنے کاموں میں اس قدر مصروف ہیں۔

غازی صاحب نے ایک مرتبہ ان سے بڑھاپے میں تندہی سے کام کرتے رہنے کا راز پوچھا توانھوں نے رسان سے جواب دیا:

پہلی بات یہ کہ محبت کرو، شدت کے ساتھ ۔ دوسری محنت کرو۔ اور تیسری یہ کہ کسی سے حسد نہ کرو۔

غازی صلاح الدین کے بقول ’’ کتنا اچھا فارمولا ہے جیسے وزن کم کرنے کے لیے ڈاکٹر مقررہ غذا کا ایک نظام تجویز کرتے ہیں یہ عمر بڑھانے کا روحانی نسخہ ہے۔ ‘‘

سلیم الزماں صدیقی کے تین نکاتی منشور زندگی سے برٹرینڈ رسل یاد آئے جنھوں نے اپنی آپ بیتی کے شروع میں ان تین جذبوں کا ذکر کیا ہے جو ان کی زندگی پر حکمرانی کرتے رہے ہیں :

محبت کی تلاش

علم کی جستجو

انسانی دکھوں کے لیے بے پایاں درد

یہ تین جذبے محض خالی خولی جذبے ہی نہیں تھے رسل کی زندگی گواہی دیتی ہے کہ وہ عملی اعتبار سے بھی ان کی جستجو کرتے رہے۔ محبت کی تلاش اور علم کی جستجو تو انفرادی دائرے میں آتے ہیں لیکن انسانی دکھوں کے لیے بے پایاں درد تو آپ کوعالمی انسانی برادری سے جوڑ دیتا ہے،اور رسل ایسے ہی فلسفی تھے، سارے جہاں کا درد جن کے جگر میں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).