تعلیمی میدان میں موجود دہشتگردوں کے خلاف آپریشن


ایک وقت تھا کہ کراچی میں رات بھر کاروباری سرگرمیاں رواں رہتی تھیں، تفریحی مقامات پر دن رات ہلچل ہوا کرتی تھی۔ پھر ملک دشمنوں نے امن کے خلاف سازش رچائی، غیرملکی ایجنسیوں کی مدد سے شہر کراچی کا امن تباہ برباد کردیا گیا۔ کراچی کا ہر علاقہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن، کسی نہ کسی مسلک سے تعلق رکھنے والے فرد، کسی نہ کسی قوم کے انسان کے لئے نوگو ایریا یا علاقہ غیر ہوتا۔ روز کوئی نہ کوئی ماں اپنا لخت جگر کھو دیتی، کسی نہ کسی بہن کے ڈوپٹے کا محافظ ماردیا جاتا، کوئی نہ کوئی سہاگن بیوہ کردی جاتی۔ کراچی میں وہ دور نظر آنے لگا جب مارنے والے کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ میں کیوں مار رہا ہوں اور مرنے والے کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ مجھے کیوں مارا گیا۔

حکومت پاکستان اور قانون نافظ کرنے والے ادارے سر جوڑ کر بیٹھ گئے، کراچی کی روشنیاں بحال کرنے کا عزم کیا گیا۔ اہالیان کراچی اپنے اداروں کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ کراچی میں بلاتفریق آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ اور پھر اللہ کی نصرت سے وہ دن بھی آیا کہ کراچی میں پھر سے رات بھر کاروباری سرگرمیاں جاری رہنے لگیں، تفریحی مقامات پر پھر روشنیاں نظر آنے لگیں، کراچی میں پی ایس ایل کا میلہ بھی سجا اور غیر ملکی پہلوان بھی شہر کراچی آئے۔ کسی گورے نے کراچی آکر نلی بریانی کھائی تو کسی پردیسی نے بن کباب کا ذائقہ چکھا۔

آج کراچی سمیت سندھ بھر میں پھر دہشتگردوں کا راج ہے۔ یہ دہشتگرد کسی کی جان تو نہیں لیتے لیکن آنے والی نسلوں کے مستقبل کے قاتل ہیں۔ یہ کسی کا گھر تو نہیں اجاڑتے لیکن ترقی کی راہوں پا گامزن مملکت خداد کی نوجوان نسل کو اجاڑنے کے لئے کوشاں ہیں، ان کے پاس ٹارگٹ کلز کی ٹیم تو نہیں لیکن یہ نالائقوں کا لشکر بنانے کے لئے سرگرام ہیں۔ یہ لوگ تعلیمی میدان میں نقل کو عام کرکے ملک کی آنے والی نسل کو تباہی کے راستے پر گامزن کر رہے ہیں۔ سندھ بھر میں میٹرک کے امتحانات جاری ہیں۔ ہر طرف نقل مافیا کے چرچے ہیں۔ نسل کی تباہی کی اس جدوجہد میں والدین اور اسکول کے پرنسپل بھی شریک ہیں۔ والدین خود اسکولوں میں جاکر پرنسپل حضرات سے اصرار کرتے ہیں کہ بچوں کی نقل میں مدد کی جائے، اچھے نمبر وں اور سوسائٹی میں جھوٹی شان کی دوڑ میں والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے نتائج اچھے آئیں لیکن افسوس وہ بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے، انہیں محنت کرنے کی ترغیب نہیں دیتے، انہیں نقل کے نقصانات نہیں بتاتے بس شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پرنسپل حضرات بھی اسکولوں میں زیادہ داخلوں کے حصول کے لئے معیاری تعلیم کے بجائے اچھے نتائج ظاہر کرانے کے لئے نقل کا سہارا لیتے ہیں۔ یقینی طور پرنوجوان نسل کی تباہی کی اس تحریک میں تمام والدین اور اساتذہ شامل نہیں ہیں، لیکن ایک بڑی تعداد اس جرم میں کا حصہ بنی ہوئی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور موجودہ حکومت کوان تعلیم دشمنوں کے خلاف بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ملک سے اس تعلیم دشمنی کے خاتمے کے لئے بھی آپریشن ترتیب دینا ہوگا۔ اسی میں آنے والی نسلوں کی بقا اور ملک کی ترقی کے راز پوشیدہ ہیں۔ علما اور مذہبی طبقے کو بھی اس معاملے میں کردار ادا کرنا ہوگا۔ حدیث کے مطابق علم کی طلب ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اللہ رب العزت نے جب اپنے محبوب نبیﷺ پر وحی نازل کی تو پہلا لفظ اقرا ہی تھا۔ منبر سے یہ پیغام عوام کو دینا ہوگا کہ دین اسلام میں بھی نقل حرام ہے۔ اگر نقل کلچر کا خاتمہ نہ کیا گیا تو علم کی طلب ختم ہوجائے گی۔ اور اس اسلامی فریضے کو نوجوان نسل کے زندگیوں سے نکالنے کے ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جو نقل کلچرل کو پروان چڑھا رہے ہیں۔

دوسری جانب ملک بھر میں وفاق المدارس کے امتحانات بھی جاری ہیں۔ وفاق المدارس اپنی طرز کا ایک منفرد ادارہ ہے جو کم فیس میں امتحانات لیتا ہے اور ایک ماہ کے کم وقت میں نتائج بھی جاری کردیتا ہے۔ مدارس کے امتحانات میں اس بار ملکی سطح پر درس نظامی میں 295212 طلبہ وطالبات شرکت کررہے ہیں۔ جن کے لیے 2 ہزار سات امتحانی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ امتحانات کے عمل کو شفاف بنانے کے لئے 17 ہزار 888 افراد پر مشتمل امتحانی عملہ امتحانی عمل کی نگرانی کررہا ہے۔

وفاق المدارس کو جن مسائل کا سامنا ہے یقینی طور پر وہ مسائل اسکول انتظامیہ اور بورڈ آف ایجوکیشن کو درپیش نہیں۔ چند نام نہاد اسلامی لوگوں اور اداروں کو بنیاد بنا کر کئی بار مدارس کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ملک میں اس وقت بھی ایک ایسا گروہ سرگرم ہے جو اس نظام کا مخالف ہے۔ ان اداروں میں بھاری فیس بھی وصول نہیں کی جاتی نہ ہی ان کو کوئی خاص فنڈنگ ملتی ہے۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود وفاق المدارس کا نظام ایک مثالی نظام ہے۔

کبھی بھی مرچہ آؤٹ ہونے کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ کسی بھی امتحانی مرکز پر چلیں جائیں کاپی کلچر کا نام و نشان نہیں ملے گا۔ نہ تو کئی ناظم مدرسہ اپنے بچوں کے اچھے نتائج کے لئے نقل کا سہارا لینے کی کوشش کرے گا اور نہ مدارس میں پڑھنے والے والدین۔ اور اگر کوئی ایسا کرے گا بھی تو اس کی ہر ہر کوشش ناکام ہی ثابت ہوگی۔

حکومت مدارس کا کنٹرول حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ مدارس کو بھی حکومتی دھارے میں لایا جائے۔ مدارس اس نظام کے مخالف ہیں۔ لیکن میری رائے کہ مطابق حکومت ایسا کرلے اور مدارس کو باقاعدہ سرکاری اسکولوں کالجوں کی طرح فنڈنگ بھی کرے لیکن پہلے اپنے زیر اثر اداروں کے نظام ہر توجہ دے یہ نہ ہو کہ جس طرح حکومت کے زیر اثر کام کرنے والے اداروں کے امتحانات میں نقل رجحان ہے جس طرح ان امتحانات میں ہماری نسل کو تباہ کیا جارہا کہیں مدارس کا بھی ایسا حال نہ کردیا جائے۔ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ منظم امتحانی نظام کہاں ہے؟ وفاق المدارس یا تعلیمی بورڈز میں؟ جہاں نظام منظم ہے اصولی طور پر اس نظام کو ملک بھر میں نافذ کردینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).