قصاب اور کتے کا گوشت


ہم نے کتابوں میں ساری زندگی ایماندار لکڑ ہارے کی کہانی اور سیرت نبوی اور نبی کریم کی زندگی متعلق پڑھا مگر دنیاوی معاملات اس سب پڑھے پر حاوی ہیں۔ ماموں کا تعلق چونکہ ایک دیہات سے ہے تو وہاں ہر بات کو قصے کے طور پر سمجھایا جاتا ہے جس سے سننے والے کو مزاح اور سبق بھی حاصل ہو۔ سردی کا موسم تھا شام کی چائے پر سب زمین پر بیٹھے توجہ سے پرانے وقتوں کے قصے کہانیاں سن رہے تھے کہ اچانک بے ایمانی اور حرام خوری پر گفتگو شروع ہوگئی تو ماموں نے ایک قصہ سنایا۔

ایک حرام خور یعنی حرام کھانے والا چاھے حرام کا لقمہ کھائے، سور کھائے، حتی کہ بیت الخلاء کی گندگی بھی کھائے تو اس کے لیے سب ایک برابر ہے۔ چند عرصہ قبل کتے کا گوشت بیچتے ایک قصاب پکڑا گیا لیکن اس مرد کے بچے نے عدالت میں جو مؤقف اختیار کیا وہ سلام کیے جانے کے قابل تھا۔ اس معاشرے کے حرام خوروں کے ساتھ ایسا ہی کیا جانا چاھیے۔ جو غریب لوگوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔

جب اُسے جج صاحب کے سامنے پیش کیا گیا،

تو جج نے پُوچھا : کیا یہ سچ ہے کہ تُمھارے پاس سے کُتے کا گوشت پکڑا گیا ہے؟

مُلزم : جی جناب! یہ سچ ہے۔

جج : تُمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اِنسانوں کو کتُوں کا گوشت کھلاتے ہو؟

مُلزم : نہیں جناب میں اِنسانوں کو کُتوں کا گوشت نہیں کِھلاتا۔

جج : کیا مطلب ابھی تو تُم نے خُود اِقرار کیا؟

مُلزم : ہاں جناب میں نے اِقرار کیا کہ میرے پاس سے کُتے کا گوشت پکڑا گیا ہے، لیکن وہ گوشت میں نے کسی اِنسان کو نہیں کھلایا۔

جج : تو پھر وہ گوشت کس کو کھلایا؟

ملزم : جج صاحب میں نے وہ کُتوں کا گوشت کُتوں کو ہی کھلایا۔

جج : کیا مطلب؟

مُلزم : مطلب یہ ہے جج صاحب کہ میرے پاس ہمارے ضلع کے ”ڈی سی او“، ”ڈی ایس پی“ اور اُن جیسے اور بھی بڑے لوگ آتے تھے اور مُفت میں چھوٹا گوشت لے کر جاتے تھے، اور نہ دینے پر جُرمانہ کرنے کی دھمکیاں دیتے تھے۔ بکری کے آٹھ، نو کلو گوشت میں ایک دو کِلو وہ لے جاتے تھے تو مُجھے فائدے کے بجائے اُلٹا نُقصان ہوجاتا تھا

اِس لئے میں کُتا ذبح کرکے رکھتا تھا، جب وہ لوگ مُجھ سے مُفت کا گوشت لینے آتے، تو میں اُن کو وہ گوشت دے دیتا تھا۔ قصہ بتلانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ رشوت دھوکا دہی یا بے ایمانی سے کسی کا حق مارو گے تو وہ مال تمھارے لیے گندگی حرام اور کتے کی گوشت کے مترداف ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).