مجھے لڑکی کیوں بنایا


آپ مرد ہیں کچھ خریدنا چاہتے ہیں تو اپ نے صرف جیکٹ پہنی یا پھر جس حالت میں موجود ہیں اسی حالت میں اپنا پرس اٹھایا اور مطلوبہ اشیاء خریدنے نکل پڑے بس۔ مگر ایک لڑکی کیسے جاے؟ وہ تو پہلے سوچتی رہتی ہو گی کہ باہر نکلنے کے لیے کیسا لباس پہنے، یہی گھر والا لباس پہن لے یا لباس تبدیل کر لے؟ چادر کو کیسے لپیٹے یا برقعہ پہن کر اپنے اپ کو مکمل طور پر ڈھک لے؟ کہیں ایسا لباس نہ پہن لے جس سے لوگ اسے نمائش کی پتلی نہ تصور کر لیں۔

لباس زیب تن کرنے کے اِن ان گنت سوالوں کے بعد اگلا مرحلہ گھر سے باہر قدم رکھنے کا ہوتا ہے۔ جیسے ہی گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھا تو نظریں اُس کا پیچھا کرنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ گھر پہنچ نہیں جاتی۔ مردوں کی ایکسرے کرتی ہوئی نظریں اس کو اپنے جسم کا احاطہ کرتے ہوئے اور جسم میں سوراخ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ اُس نے چاہے دوپٹہ کیا ہو یا برقعہ پہنا ہو اسے یہ گندی نظریں اپنے خدوخال کی پیمائش کرتے ہوے محسوس ہوتی ہیں۔

ایسے میں وہ لڑکی یہ تو سوچتی ہو گی مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ کیا میں گھر سے باہر نکلنے والی پہلے لڑکی ہوں یا ان سب کے گھر صنف نازک سے کوئی تعلق رکھنے والی رہتی نہیں ہے؟ راستے میں موجود ہر عمر کا مرد چاہے وہ داڑھی والے چچا ہوں، کلین شیو ہو، سولہ سال کا لڑکا ہو یا وہ نوجوان جسے نے ابھی بلوغت کی سیڑھی پر قدم بھی نہ رکھے ہوں، وہ سر سے پاوں تک موازنہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ جیسے اس نے اس لڑکی کو نہیں دیکھا بلکہ کوئی انوکھی مخلوق دیکھ لی ہو۔ وہ لڑکی سَر سے پاؤں تک پسینہ پسینہ ہوکر گھر آکر پَنکھے کے نیچے بیٹھے گی اور چادر اتار کر سامنے پھینک کر ایک مرتبہ تو سوچے گی کہ مجھے لڑکی کیوں بنایا؟

اس کے علاوہ اگر کوئی لڑکی راستے میں کسی مرد سے کسی ضرورت کی وجہ سے یا غلطی سے کوئی بات بھی کرلے تو آتے جاتے ہر بندہ دیکھتا ہوا ہی جائے گا۔ اپنے ذہن میں خود ساختہ ایک کہانی بھی گڑھ لے گا: اِس کا اِس کے ساتھ معاشقہ ہے، اِس سے یہ ملتی ہوگی، فون پر دِن رات اس سے باتیں بھی کرتی ہوگی۔ اب وہ لڑکی کبھی کہیں دِکھ بھی گئی تو کہہ کہہ کر مار ڈالیں گے، ”دیکھ کاشف! تیری والی جارہی ہے۔ لیجیے بھئی، بس ہوگیا کام!

یعنی ہم اتنے فارغ ترین لوگ ہیں کہ معاشرے میں بے وجہ کی پیچیدگیاں پیدا کر دیتے ہیں جِن کا کچھ بھی حاصل نہیں۔

اب ذرا سوچیے کہ جب ایسے مسائل درپیش ہوں گے تو ایک لڑکی بیزاری تو محسوس کرتی ہی ہوگی۔ ہم روز مرہ بول چال میں ایسے الفاظ بولتے ہیں کہ لڑکیوں کی طرح کیوں رو رہے ہو، لڑکیوں کی طرح کیوں ڈرتے ہو، یہ کیوں کر رہی ہو، ایسے کیوں چل رہی ہو، یہ کیوں پہن لیا، یعنی ہم نے لڑکیوں پر اتنی پابندیاں لگا دی ہیں کہ کبھی تو وہ سوچتی ہوں گی۔ ”مجھے لڑکی کیوں بنایا؟ “

دراصل ہمارے یہاں عورت کو صرف مثالی طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تصور کیا جائے تو عورت کو حُسن اور زندگی سے مُستعار لیا گیا ہے۔ اِس کی اہمیت کو ہم نے مفروضاتی طور پر ہی مختص کردیا ہے، جسے ہم اِس زاویئے سے نہیں دیکھتے کہ وہ ہماری بہن، بیٹی اور بیوی ہے، بلکہ وہ صرف اخذِ لذت اور رعنائی کے لیے مختص ہے۔ اگر یہاں عورت زندہ بھی ہے، تو وہ یہی سب اذیتیں بھگت کر زندہ ہے۔

ھمارا معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے عورت کو اس کا اصل مقام دے دیا ہے لیکن ہمیں اس خام خیالی سے نکلنے کی ضرورت ہے اور عورت کو اس کی شخصی آزادی پورے عزت و احترام کے ساتھ دینا ہو گی۔ اس تعفن زدہ ماحول میں ایک مرد بھی اس جیسی صورتحال میں زندہ رہنے کا سوچ نہیں سکتا تو پھر عورت کتنا عرصہ برداشت کر سکے گی۔ یہ نہ ہو اس کی ساری زندگی یہ سوچتے ہوے گزر جاے کہ ”مجھے لڑکی کیوں بنایا؟ “۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).