شاہ لطیف کی سات شہزادیاں


سراج انسٹیٹیوٹ آف اسٹڈیز کی ڈاکٹر فہمیدہ حسین اور انڈاومنٹ فنڈ ٹرسٹ کی میں شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے یہ عزت بخشی کہ شاہ لطیف کی شاعری میں عورت کی عکاسی پر اپنے معروضات پیش کروں۔ شاہ کی شاعری کے اس پہلو پر یوں تو بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن ڈاکٹر فہمیدہ حسین نے اس موضوع پر وقیع کتاب لکھی، جسے ہمارے بڑے لکھاری اور دانشور سراج الحق میمن نے انگریزی میں ترجمہ کیا۔

اس لمحے مجھے وہ وقت یاد آ رہا ہے جب میں شاہ کی درگاہ کے محرابی دروازوں تک پہنچی تھی اور پھر ایک دروازے پر ٹھہر کر ریشم کے پھولوں سے ڈھکے ہوئے اس بستر کو دیکھا تھا جس پر پونے تین سو برس سے وہ شخص آرام کر رہا تھا جس نے جوگیوں اور بنجاروں کے ساتھ گھوم کر اپنی دھرتی کے چپے چپے کو دیکھا، جس کے بالوں اور پیروں کو سندھ کی مٹی نے اپنے رنگ میں رنگ دیا اور وہ اس سرزمین کے ان لوگوں کی آواز بن گیا جو زور آوروں کے سامنے قالین کی طرح بچھنے پر مجبور تھے، جنھیں حملہ آوروں کے گھوڑوں نے بار بار روندا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کے لفظوں کی کونجیں اڑان بھرتی ہیں اور جانی انجانی بستیوں میں رہنے والے کے سینوں میں بسیرا کرتی ہیں۔

ان داستانوں میں سانس لیتی ہوئی سسّی، نوری، ماروی، مومل، سوہنی، لیلا اور ہیرکی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔ وہ سندھ جہاں عورت صدیوں سے جور اور جبرکی رنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، وہاں کی دم گھونٹ دینے والی فضا میں سندھ کی یہ سات شہزادیاں ہیں جنھیں شاہ نے لوک کہانیوں سے اٹھایا اور عالمی ادب میں عشق، پیمانِ وفا، ذہانت اور جرات کا استعارہ بنا دیا۔ یہ شاہ کی شاعری تھی جس نے سندھ کی عورت کے سینے میں بغاوت کا وہ شعلہ رکھ دیا جو ظالموں سے بجھائے نہیں بجھتا۔ دست قاتل کے سامنے سر بلند رہنے کی ادا سندھ کی عورت نے شاہ کی شاعری میں جاری و ساری احتجاج اور انحراف سے سیکھی۔

مجھے قرۃ العین حیدر یاد آتی ہیں جنہوں نے 58 یا شاید 59 میں شاہ کے مزار پر حاضری دی تھی تو شاہ لطیف کی بات کو دہراتے ہوئے لکھا تھا کہ ”زمین میں اتنوں کی خاک موجود ہے، کیسے کیسے لوگ چلے گئے زندگی اتنی مختصر ہے۔ لطیف جاگو اور ڈھونڈو“ وہ اس سفر میں لطیف کو ڈھونڈ رہی تھیں تب ہی انھوں نے لکھا تھا کہ ”راستے میں ایک جگہ صحرا پر اچانک بادل گھر آئے۔ جاڑوں کا ساون، شاہ نے“ سُر سارنگ ”میں لکھا۔ ساون نے جھیل کو بھر دیا اور زمین سرسبز ہوگئی اور ایک جگہ کہا کہ ہر سمت بجلیاں چمک رہی ہیں۔ بادل ہر سو پھیل گئے۔ استنبول، چین، ثمر قند، روم، قندھار، دلی، دکن، گرنار، جیسلمیر، بیکا نیر، امرکوٹ، اللہ سندھ پر بھی بارش برسا اوراسے شاداب کر دے۔ “

شاہ کی طرف اس سفر میں جھیلوں اور جنگلوں میں تیتر بول رہے تھے۔ سارس، بگلے، باز، طوطے، مور، قصبوں میں مغلوں اور کلہوڑوں کے عہدکے مکانات اور زرد دھوپ میں صحرا جو تنہا تھا۔ شاہ نے کہا تھا کہ صحرا، جہاں پرندوں کا گزر نہیں وہاں جوگی اپنی آگ جلاتے ہیں اور جب وہ جوگی چلے گئے تو ان کی جگہ پر نہ تنکے ملے نہ پتھر، راکھ اڑ گئی اور جوگی سنکھ پھونکتے ہوئے اپنے ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔

ہم شاہ کے سُرماروی میں ڈوب کر دیکھیں تو ماروی سندھی عورت کا ایک نادرکردار ہے۔ عشق کا شعلہ اس کے سینے میں لپکتا ہے، وہ حُبِ وطن میں سرشار ہے۔ ضمیر کی آزادی، عزت نفس اور خود داری اس کی شخصیت کے جوہر ہیں۔ جبر کے خلاف مزاحمت اس کی صفت ہے۔ اس کا کردار خالص ہے، وہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔ اپنی مفلسی پر ناز کرتی ہے اور ایک جوہر ناتراشیدہ کی طرح ہماری آنکھوں میں کھب جاتی ہے۔ شاہ ماروی کی لوک کہانی سنتے ہیں، اسے اپنے سینے میں سمو لیتے ہیں اور سُرماروی میں وہ اسے ابدیت بخش دیتے ہیں۔ شاہ کی شاعری میں لوک داستان کی کمزور اور مفلس ماروی ایک لافانی ہیروئن کی طرح ابھرتی ہے۔ یہ تھرکی ماروی ہے۔

شاہ نے سُرسسّی تحریر کیا۔ یہ وہ کردار ہے جو پنجابی، سرائیکی، بلوچی، راجستھانی، کچھی، اردو اور ہندی زبانوں میں ملتا ہے۔ اس کے بارے میں پنجاب، سندھ اور کئی دوسرے علاقے کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سسی ان کے علاقے سے تعلق رکھتی تھی۔ ان اختلافات سے قطع نظر شاہ نے جس سسی کو ہمارے سامنے پیش کیا۔ وہ درد ِعشق کی ماری ہوئی ایک نازک اندام لڑکی ہے۔ جسے اپنے محبوب کی آرزو ہے۔

یہ جستجو ہمیں شاہ کی داستانوں میں ان کی ہیروئنوں کی زندگیوں میں کہاں نہیں ملتی۔ یہ اسی جستجوکا شرارہ ہے جس کی لپک آج بھی لوگوں کو بے قرار رکھتی ہے۔ ”شاہ جو رسالو“ کے شارحین اور مفسرین کی کمی نہیں، لیکن میرے خیال میں جس طرح شاہ کے کلام کی تفسیر سائیں جی ایم سید نے کی ہے۔ وہ اس لیے یکتا ہے کہ وہ شاہ کی شاعری کو آج کی سیاست سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

انھوں نے ”شاہ جو رسالو“ کے اشعار کو موجودہ حالات کے تناظر میں رکھتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ شاہ کے زمانے میں جدید سیاسی نظام موجود نہیں تھا لیکن جس طرح لکڑی میں آگ ہمیشہ موجود ہوتی ہے اور وہ اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب اسے جلائے جانے کے اسباب پیدا ہوں۔ اسی طرح شاہ کے وقت میں بھی سندھ میں آج کی طرح کا طبقاتی نظام موجود تھا۔ جس میں مفلس، نادار اور بے گھر و بے آسرا لوگ ڈر ڈرکر سانس لیتے تھے اور اس روز کے منتظر تھے جب انقلاب برپا ہو اور ان کی زندگی کے صبح و شام بدل جائیں۔

سائیں سید نے ”پیغام لطیف“ میں کہا ہے کہ اگر ہم شاہ کی شاعری کا جائزہ جدید اصطلاحات کی روشنی میں لیں تو ہمیں اس میں نیشنل ازم کی حمایت، جمہوریت کی طرف داری، سوشل ازم کی طرف جھکاؤ، سرمایہ داری سے نفرت، آمریت اور فاش ازم کی مخالفت نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ پین اسلام ازم سے شاہ دورکا واسطہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ شاہ نے اپنے اشعار میں ہمیشہ وطن کی آزادی اور خوشحالی کے لیے بارش کی دعائیں مانگیں۔ یہ دراصل اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنے غیر منصفانہ سماج میں انقلاب برپا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔

شاہ نے اپنی شاعری میں لوک داستانوں کی سات شہزادیوں کے ساتھ سندھ کی عام عورت کو اٹھایا ہے اور اسے بھی بلندی پر پہنچا دیا ہے۔ ان کے کلام میں مچھیروں کی بیویاں ہیں، ساقی گری کرنے والی موکھی ہے۔ سُر سورٹھ میں جلوہ دکھانے والی سورٹھ ہے۔ سُرکاموڈ کی نوری ہے۔ مومل رانوں کی مومل ہے جو باوفا ہے لیکن ایک غلط فہمی کے سبب بے وفا ٹھہرتی ہے۔

سُرکیدارو میں ہمیں محاذ جنگ پر جانے والے مردوں کا دل بڑھانے والی وہ سیہ پوش عورت نظر آتی ہے جو گریہ و ماتم کر رہی ہے۔ سُرکیدارو لکھتے ہوئے شاہ کی نظر میں کربلا کا پس منظر اور سندھ کا ستم زدہ پیش منظر ہے۔ وہ سندھ کی عورت کو اس لڑائی کے لیے تیار کرنا چاہتے ہیں جو سندھ کے سر پرکھڑی تھی اور آج بھی کھڑی ہے۔ وہ اسے سکھاتے ہیں کہ وطن کے لیے لڑنے اور مرنے والے بہادروں کوکس طور ہمت دلائی جائے۔

شاہ کی شہزادیاں دین دھرم کی اور طبقات کی قیدی نہیں وہ عشق کی اسیر ہیں۔ یہ تن بدن کا نہیں وطن کا عشق ہے جو مومل اور ماروی کو، سسّی اورنوری کو، لیلا، سوہنی اور ہیرکو ایک پل چین نہیں لینے دیتا۔ شاہ کی یہ شہزادیاں ہجروفراق کے دشت و جبل سے گزرتی ہیں اور محبوب کو پانے کی تمنا انھیں کڑے کوسوں سے گزار دیتی ہے۔ یہ دراصل زندگی کی جہد کی اشارہ ہے۔ شاہ کے سُر سسّی کو پڑھیے تو اس کے ہر لفظ سے اضطراب کی آنچ آتی ہے۔

”اب کیا شہر بھنبھور میں رہنا، ویراں ہے شہر بھنبھور، سارے شہر بھنبھور میں میرا کوئی نہیں غمخوار“ جیسے مصرعے لہو میں بھنور ڈالتے ہیں۔ اس میں سسّی کا شاہ نے اپنے پانچ سروں میں احاطہ کیا ہے۔ یہ وہی ہے جو تپتے ہوئے صحرا میں اپنے محبوب کی تلاش کرتی ہے اور کن کن مصائب سے نہیں گزرتی، وہ ہمیں سُر حسینی میں نظر آتی ہے، جو چٹانوں اور پہاڑوں سے ٹکراتی ہے۔ سُرمعذوری، سُردیسی میں ہمیں اس کی شخصیت کے مختلف پہلو نظر آتے ہیں۔

شاہ کی شاعری کے یہی چہل چراغ، غیرت اور غرور سے بھری ہوئی یہ شہزادیاں اور اپنی روایات کا پالن کرتی ہوئی عام سندھی عورت اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔

ڈاکٹر فہمیدہ حسین کا ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے شاہ کی شاعری کے اس اہم ترین پہلو سے ہمیں روشناس کرایا۔
(شاہ لطیف انٹرنیشنل سیمینار میں پڑھا گیا۔ )
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).