گن نمبر 6: ایک مہلک پستول کی کہانی


گن نمبر چھ

David Weller y Jim Howells
کہا جاتا ہے کہ گن نمبر چھ سے برطانیہ میں سب سے زیادہ گولیاں چلائی گئیں اور سب سے زیادہ قتل بھی ہوئے ہیں

گولی چلنے کے بعد کسی پستول یا بندوق کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟

برطانیہ میں یا تو وہ کھو جاتی ہیں یا پھر ایک دوسرے کو مستعار یا کرایے پر دینے یا ادلا بدلی کے نام پر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہونے کا حصہ بن جاتی ہیں۔

یہ کہانی اسی طرح کے ایک ہتھیار’گن نمبر 6′ کی ہے۔ پولیس اسے اسی نام سے جانتی اور پکارتی ہے۔ کسی بھی ہتھیار کے استعمال کی نگرانی کے لیے اسے ایک خاص نمبر دیا جاتا ہے۔

‘گن نمبر 6’ یا سی زیڈ 75 ایک نیم خود کار پستول ہے جو کہ چیک جمہوریہ کی بنی ہوئی ہے۔

پولیس کے ریکارڈ کے مطابق اس ہتھیار کا استعمال ایسے کئی جرائم میں ہوا ہے جسے ابھی تک نہیں سلجھایا جا سکا ہے۔

تاہم اس پستول سے منسلک معاملات کے تار آپس میں جڑے ہوئے نہیں ہیں اور بعض معملات میں مجرم کو نہیں پکڑا جا سکا ہے۔

اگرچہ گذشتہ ایک دہائی سے ‘گن نمبر 6’ نامی اسلحہ خاموش تھا لیکن حال ہی میں بی بی سی کی تحقیقات نے اس پستول کی تاریخ پتہ کی ہے۔

فلم ساز زیک بیٹّی، جارجینا کیمالری اور جیمز نیوٹن نے نیشنل بیلسٹک انٹیلی جنس سروس (نابس) کی مدد سے ‘گن نمبر 6’ پر ایک دستاویزی فلم بنائی ہے۔

نابس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں اس سے زیادہ قتل اور واردات کسی اور ہتھیار کے ساتھ نہیں ہوئے ہیں۔

پستول نمر چھ

برمنگھم سے ابتدا

وہ 23 فروری سنہ 2003 کی رات تھی۔ گھڑی میں تین بج رہے تھے کہ پولیس سٹیشن میں فون کی گھنٹی بجی۔ برمنگھم کے ایک نائٹ کلب کے باہر گولیاں چلی تھیں۔

فون کرنے والے نے اتنا ہی بتایا تھا۔ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کو وہاں سے دو خالی کارتوس ملے لیکن کوئی دوسرا سراغ نہیں مل سکا اور تفتیش اس سے آگے نہ بڑھ سکی۔

اینڈی ہاگ اس وقت ویسٹ مڈلینڈز میں پولیس جاسوس کے چیف انسپکٹر ہوا کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ نہ تو کوئی گواہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی وہ شخص جس پر گولیاں چلی تھیں۔ ‘گن نمبر 6’ کی کہانی برمنگھم کی اسی گلی سے شروع ہوتی ہے۔

‘سنہ 2000 کے بعد ہم نے دیکھا کہ قتل کے معاملے میں اضافہ ہونے لگا اور ہمارے سامنے وہ لوگ تھے جو کسی خوف کے باعث اس کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔

‘ہمارے پاس کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا، خالی کارتوس کے علاوہ ایک بھی ایسی چيز نہیں تھی جس کی سائنسی اہمیت ہو۔ کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں تھا۔۔۔

فون کرنے والے شخص کا کوئی پتہ نہیں تھا، اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کوئی یہ کہنے کے لیے بھی سامنے نہیں آیا کہ کسی نے فلاں دن مجھے گولی مار کرنے کی کوشش کی۔

‘صرف ایک ہی شخص تھا جو یہ جانتا تھا کہ وہاں کیا ہوا تھا اور کیوں۔۔۔ اور وہ وہی شخص تھا جس نے پستول کا ٹریگر دبایا تھا۔

‘جس نے بھی اس پستول سے گولی چلائی اس نے اس ہتھیار کے بارے میں پولیس کو کبھی نہیں بتایا۔

‘اس پستول کا استعمال کرنے والے بہت سے لوگوں کا تو آج تک سراغ نہیں ملا جبکہ بعض قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔’

برمنگھم

اس پستول سے زیادہ تر وارداتیں برمنگھم کے علاقے میں ہوئیں

وہ جرم جس سے کہانی بدل گئی۔۔۔

در حقیقت برطانیہ میں غیر قانونی ہتھیاروں کا صرف ایک مرکز رہا ہے، یہ چھوٹا سا سکاٹش شہر ڈنبلین ہے۔ یہ 13 مارچ سنہ 1996 کی بات ہے۔

تھامس ہیملٹن ڈنبلین الیمنٹری سکول میں داخل ہوئے اور وہاں جاری جسمانی تعلیم کی کلاس میں انھوں نے فائرنگ شروع کر دی۔

صرف تین منٹ میں، تھامس ہیملٹن نے ایک استاد اور 16 بچوں کی جان لے لی۔ مرنے والوں میں زیادہ تر پانچ سے چھ سال کے بچے تھے۔

اس قتل عام کے بعد، ہیملٹن نے اپنے چار ہتھیاروں میں سے ایک سے خودکشی کر لی۔ ڈنبلین کے قتل عام نے برطانوی تاریخ کی سب سے مذموم قتل کی تصویر ہی بدل دی۔

دو سال میں ہی برطانیہ نے ذاتی استعمال کے لیے چھوٹے اسلحے رکھنے پر پابندی لگا دی۔ دنیا بھر میں اسلحے کے خلاف برطانیہ سے زیادہ سخت قوانین شاید ہی کہیں ہوں۔

ہتھیار رکھنے یا اس کی خریدو فروخت کے لیے برطانیہ میں ایک سخت نظام سے گزرنا پڑتا ہے۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ‘گن 6’ جیسے ہتھیار برطانیہ کی سڑکوں پر کس طرح آتے ہیں۔

نارتھمپٹن یونیورسٹی میں اسلحے کے ماہر ہیلن پول کا خیال ہے کہ ایک راستہ تو اس کے قانونی مالک سے چرا کر اسے حاصل کرنا ہے۔

‘جبکہ بعض اوقات بندوق کے فروخت کرنے والے پرانے اسلحے کے شوقین حضرات کے لیے مخصوص طور پر اسے بناتے ہیں لیکن اسے ناکارہ رہنے دیتے ہیں۔

‘لیکن اگر یہ غلط ہاتھوں میں پڑ جائیں تو انھیں پھر سے قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے اور یہ پھر مہلک ہو سکتے ہیں۔’

پستول نمر چھ

ڈنبلین گولی باری نے برطانیہ میں جرائم کی تاریخ بدل کر رکھ دی

‘کمیونٹی ہتھیار’

تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحال انگلینڈ اور ویلز میں 586،000 ہتھیار ہیں، جو سرکاری ریکارڈز کے مطابق قابل استعمال ہیں۔

ایک تخمینے کے مطابق، اس میں سے ہر سال تقریبا 600 ہتھیار چوری ہو جاتے ہیں جسے کسی شخص نے قانونی طور پر خریدا ہوتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ چوری شدہ ہتھیار فروخت کے لیے بلیک مارکیٹ میں جاتے ہیں۔

غیر قانونی ہتھیار حاصل کرنے کا ایک طریقہ بیرون ملک سے آنے والی بڑے کنسائنمنٹ میں سیندھ لگانا بھی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ باہر سے آنے والے یہ ہتھیار دنیا کے جنگ زدہ علاقوں اور بلقان کے ممالک سے آتے ہیں۔

ان میں سے ناکام ہتھیار کو دوبارہ قابل استعمال بنا لیا جاتا ہے۔ یہ فوجی سطح کے ہوتے ہیں بڑی مجرم پیشہ تنظیمیں انھیں غیرقانونی طور پر منگاتی ہیں۔

ہتھیاروں کی حصول یابی کا آخری طریقہ ان کے حصوں کو ان انٹرنیٹ پر تلاش کرنا ہے جو ڈارک سائٹوں پر مل جاتے ہیں اور پھر انھیں منگا کر یکجا کر لیا جاتا ہے۔

ہیلن ڈی این اے اور فنگر پرنٹس جیسے بنیادی مضامین پر کام کر چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ایک وقت تھا جب مجرمانہ کاموں کے لیے ایسی گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا تھا ‘کمیونٹی کے کام’ کے لیے ہوتی تھیں۔

‘ٹھیک اسی طرح سے ایسے ہتھیار بھی ہوتے ہیں جو ‘کمیونٹی ويپن’ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یعنی ان کی خرید فروخت نہیں ہوتی بلکہ مل جل اسے استعمال کرتے ہیں۔

‘اس کمیونٹی میں سے کسی ایک کو اس کے آخری استعمال کے بارے میں علم ہوتا ہے۔’

پستول نمر چھ

احمد کو جتنی گولیاں لگیں تھیں ان میں سے ایک گن نمبر چھ سے چلی تھیں

20 نومبر سنہ 2004 کی ایک سرد رات

جب بھی کسی گن یا پستول سے فائر کیا جاتا ہے تو گولی پر ایسے نشانات چھوٹ جاتے ہیں جن سے یہ پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس ہتھیار سے چلائی گئی تھی۔

یہ ایک قسم کا فنگر پرنٹ ہے۔ یہی وہ سراغ تھا جس سے تحقیقات کرنے والے افسران نے پتہ چلایا کہ گذشتہ دو سالوں میں گن نمبر چھ سے سات مرتبہ گولی چلائی گئی۔

اگرچہ اس میں کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا لیکن ان واقعات کے معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔ لیکن نویں شوٹنگ کے بعد ‘گن نمبر 6’ ایک بار پھر سرخیوں میں آ گئی۔

وہ 20 نومبرسنہ 2004 کی ایک سرد رات تھی۔ اس دن برمنگھم کے نائٹ کلب ‘پری مانیشن’ کے دربان اشفاق احمد اپنی ڈیوٹی پر تھے۔

صبح ساڑھے تین بجے جانسن کرو گینگ کے لوگوں نے بغیر فیس دیئے نائٹ کلب پری مانیشنز میں داخل ہونے کی کوششکی۔

اشفاق احمد نے انھیں روکنے کی جس کے نتیجے میں انھیں تین گولیاں ماری گئيں۔ احمد کو لگنے والی گولیوں میں سے ایک ‘گن نمبر 6’ سے چلی تھی۔

احمد کی عمر اس وقت 24 سال تھی۔ اسی سال دسمبر میں چھ افراد کو ان کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا ہوئی۔

یہ قاتل کم از کم 30 سال قید میں رہیں گے۔ لیکن احمد کی ہلاکت میں استعمال ہونے والی ‘گن نمبر 6’ کا پھر بھی کوئی سراغ نہیں ملا۔

گن نمبر چھ

گن نمبر چھ کا شکار ہونے والے اینڈیو کی تصویر

‘گن نمبر 6’ کا شکار

آٹھ ماہ بعد 23 جولائی سنہ 2005 کو ‘گن نمبر 6’ کی خبر ایک بار پھر آئی۔ اس بار یہ کیمار وٹیکر کے ہاتھوں میں آئی تھی۔ وہ 23 سال کا منشیات کا ڈیلر تھا۔

اس دفعہ ‘بندوق نمبر 6’ کا شکار ہونے والے کا نام اینڈریو ہنٹلی تھا۔ ہنٹلی نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم وہ کیمار سے نہ بچ سکا۔ اس نے رحم کی بھیک مانگی۔

لیکن کیمار نے ہنٹلی کے سر میں دو گولیاں داغ دیں۔ مقدمہ چلا اور احمد کے قاتلوں کی طرح اسے بھی وہی سزا دی گئی۔ ‘گن نمبر 6’ ایک بار پھر غائب ہو گئی۔

اس بار چار سال کے لیے غائب رہی۔ اینڈی ہاگ کے پاس ‘گن نمبر 6’ کی گمشدگی کا جواب ہے۔

اگر آپ قتل میں استعمال ہونے والے ہتھیار کے ساتھ پکڑے جاتے ہیں تو آپ کو مشکل سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اس کا مالک جلد از جلد اس سے چھٹکارا چاہتا ہے۔

اسے کسی قبرستان یا باغیچے میں دفن کر دیا جاتا ہے یا اپنی شناخت کے باہر کسی شخص کو اس کو ٹھکانے لگانے کے لیے دے دیا جاتا ہے۔

لیکن ‘گن نمبر 6’ بار بار برطانیہ کی سڑکوں پر واپس آ جاتی ہے۔

گن نمبر چھ

کین ہڈسن نے لوٹ مار کے ایک واقعے میں اپنے بیٹے کو کھو دیا

پوسٹ آفس قتل کیس

ہنٹلی کی موت کے چار سال بعد ‘گن نمبر 6’ سے ایک بار پھر گولی چلی۔ اس بار یہ پستول ایک بدنام زمانہ مجرم انسلم ریبیرو کے ہاتھ میں تھی۔

سینٹرل برمنگھم سے 45 منٹ کے فاصلے پر فیئرفیلڈ نام کے ایک پرسکون گاؤں میں ریبیرو ایک پوسٹ آفس لوٹنے کے ارادے سے پہنچے۔

پوسٹ آفس کے انچارج کین ہڈسن واکر وہیں اپنے دو بچوں اور بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پوسٹ آفس کا کام سات بجے اٹھ کر نپٹاتے تھے۔

لیکن 9 جنوری، 2009 کی اس صبح کین کی بیوی جوڈی گھر کے کسی دوسرے کام میں لگ گئی۔

جوڈی نے بتایا: ‘ہم اس بات پر اب بھی افسوس کرتے ہیں کہ اگر اس دن کھڑکی کھلی رکھتے تو ہم انھیں گاڑی سے باہر آتے دیکھ لیتے۔’

کین کی بیوی جن کے بارے میں بتا رہی ہیں وہ مسلح افراد کا گروہ تھا جو اس دن لوٹ مار کے لیے فیئرفیلڈ آیا تھا۔

اس دن کین کی زندگی میں مسلح افراد کسی ٹریجڈی کی طرح آئے۔ بندوق کی نال پر ان کا خاندان تھا کہ ان کا بڑا بیٹا کریگ ہال میں داخل ہوا۔

گن نمبر چھ

کریگ اپنے والدین کو بچانے کے سلسلے میں اسی گن سے ہلاک ہوئے

اسی وقت ایک گولی چلی۔۔۔

29 سالہ کریگ نے کرکٹ بیٹ سے ماں کو بچانے کی کوشش کی جبکہ کین نے بھی لٹیروں کا مقابلہ کیا لیکن اسی وقت ایک گولی چلی۔

کین نے کہا: ‘کریگ کو گولی لگی۔ میں نے کرکٹ بیٹ کے گرنے کی آواز سنی۔ انھوں نے مجھے گھٹنے میں گولی ماری، اور پھر وہ وہاں سے چلے گئے۔’

کین اور جوڈی نے کریگ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس وقت تک وہ مرچکا تھا۔ اس کے سینے میں گولی لگی تھی۔

گولی اس کے پھیپھڑوں اور دل میں داخل ہو گئی تھی۔ سال کے اختتام تک کریگ کے قتل میں تین لوگوں پر مقدمہ چلا۔ ان میں ریبیرو شامل بھی تھے۔

دس ہفتوں کے بعد ان افراد کو قتل اور قتل کرنے کی کوشش کے الزامات میں قصور وار ٹھہرایا گیا تھا اور تینوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

گن نمبر چھ

اینسلم ریبیرو کو کم از کم 34 سال جیل میں گزارنے ہوں گے

ایک قاتل کی کہانی۔۔۔

اینسلم ریبیرو کی ساتھی ایلیسن کوپ بتاتی ہیں: ‘میں 19 سال کی تھی جب پہلی بار میں انسلم ریبیرو سے ملی تھی۔ اس وقت وہ 18 سال کا تھا۔

‘اس میں قاتل بننے کی علامات نہیں تھی، وہ دور دور تک اس قسم کا آدمی نہیں تھا۔ وہ بہت خاموش، شرمیلا تھا۔ اس میں اعتماد کی کمی تھی۔ وہ میرا خیال رکھتا تھا۔ ایک اچھے دل کا انسان تھا۔

‘میں اس بات سے خوش تھی کہ ریبیرو جیسا کوئی شخص میری زندگی میں تھا۔ میں اور ریبیرو ساتھ رہنے لگے اور چند ماہ بعد پتہ چلا کہ میں حمل سے تھی۔’

ایلیسن کوپ اس وقت 21 سال کی تھیں اور وہ نوے کی دہائی تھی۔ ایلیسن حاملہ تھیں اسی وقت ریبیرو کو چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اگرچہ ریبیرو کو چھوٹی سی سزا دی گئی تھی اور انھیں چند ہفتوں تک ہی جیل میں رہنا پڑا تھا لیکن ریبیرو پہلے جیسے نہیں رہے۔

ایلیسن نے کہا: ‘مجھے یہ یاد ہے کہ جیل جانے سے پہلے ریبیرو کو جرم کے بارے اتنی معلومات نہیں تھی جتنی کہ جیل سے لوٹنے کے بعد تھی۔’

پستول نمر چھ

ایلیسن نے ریبیرو کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا

محبت کی کہانی کا خاتمہ

دس اگست سنہ 1995 کو ایلیسن کے یہاں ریبیرو کا بیٹے جوشوا ریبیرو پیدا ہوا۔ اس کی پیدائش کے بعد کچھ ماہ ہنسی خوشی گزرے۔

لیکن جلد ہی حالات بدلنے لگے۔ جوشوا جب بہت چھوٹا تھا تو ریبیرو ایک بار پھر لوٹ مار کے جرم میں جیل گئے۔

اور یہ طے ہوگیا کہ ان کا رشتہ اس سے آگے نہیں جاسکے گا۔

ایلیسن نے کہا: ‘میں نے کہا کہ سنو! اس رشتے سے میں ایسی چیزوں کی توقع نہیں کرتی۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے لیکن اس طرح نہیں۔۔۔’

جوشوا جب سات سال کا تھا تو ریبیرو ایک بار پھر گرفتار ہوئے، انھیں سزا ہوئی اور ان دونوں کی کہانی وہیں ختم ہو گئی۔

سنہ 2007 میں اینسلم ریبیرو کو رہائی ملی۔ دو سال بعد پوسٹ آفس پر ڈاکہ پڑا اور ریبیرو اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں کریگ کی موت ہو گئی۔

گن نمبر چھ

ایک کنسرٹ میں جوشوا کے سینے میں کسی نے خنجر اتار دیا

جوشوا کی جان

کریگ کے قتل کے وقت جوشوا صرف 14 سال کے تھے۔ انھیں یہ سمجھنے میں ایک عرصہ لگ گیا کہ ان کے والد قاتل بھی ہو سکتے ہیں۔

جب ایلیسن نے جوشوا کو بتایا کہ ریبیرو کو پولیس نے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے تو وہ رونے چیخنے لگے۔ یہیں سے مشکلات شروع ہوئیں۔

اخبار میں جوشوا کے والد کو قاتل قرار دیا گیا اور اس کا کافی حد تک اثر جوشوا پر ہوا۔ لیکن پھر حالات بہتر ہو گئے۔

16 سالہ جوشوا کو موسیقی سے محبت ہو گئی۔ ریپ میوزک کی لے پر نوجوان جوشوا کا دل دھڑکنے لگا۔ کامیابی ان کے قدم چومنے لگی۔

البم فروخت ہونے لگے، پیسہ آیا، ٹویٹر پر فالوورز کی تعداد بڑھنے لگی لیکن اچانک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی کسی کو امید نہیں تھی۔

20 ستمبر سنہ 2013 کو ایک دوست کی یاد میں منعقد ایک کنسرٹ میں کسی نے جوشوا کی سینے میں خنجر اتار دیا۔

یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ جس دوست کی یاد میں کنسرٹ منعقد کیا گیا تھا ایک سال قبل اسے بھی چاقو سے ہلاک کیا گیا تھا۔

ایلیسن اب پرانی یادوں کے ساتھ زندہ ہیں اور نئی نسل کے بچوں کو تشدد سے دور رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔

پستول نمر چھ

پستول نمبر چھ ایک فوجی استعمال کا ہتھیار ہے

زیادہ سے زیادہ نقصان

ویسٹ مڈلینڈز پولیس کے بیلسٹک ماہر گیرتھ کوپر کہتے ہیں: ‘نو ایم ایم کی گولی فوجی استعمال کے لیے ڈیزائن کی گئی تھی۔

‘یہ گولی گردش کرتے ہوئے اپنے ہدف کو لگتی ہے اور گہرا زخم دیتی ہے۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو گن نمبر 6 خطرناک مہلک ہتھیار ہے۔’

اس طرح کے ہتھیار کا کسی کے پاس یوں ہی ہونا کسی کے حق میں نہیں ہے۔

اس ہتھیار نے کئی زندگیاں تباہ کردی لیکن تصویر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ پولیس ابھی تک اسے برآمد نہیں کر سکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp