سر بچانے کی کوشش


تحریک انصاف کو حکومت میں لانے والے لوگ خواہ وہ ووٹرز ہوں، صحافی یا پھر غیبی ہاتھ اپنے اپنے مقاصد کے سوا شاید ان کے پیش نظر یہ مقصد بھی تھا کہ عمران خان ایماندار شخص ہیں اور وہی کرپشن کی دیمک سے متاثر اس ملک کی بنیادیں مضبوط کر سکتے ہیں۔ مزید توقع تھی اس کام کے لیے ان کے پاس عزم و ارادہ بھی موجود ہے۔ لیکن کیا دانائی اور معاملہ فہمی کی صلاحیت کے سوا یہ تین خوبیاں کسی منزل تک پہنچا سکتی تھیں؟ غیر جانبداری سے تجزیہ ہو تو یہ خوبیاں بھی عمران خان کی شخصیت میں موجود نہیں، مگر کچھ دیر کو یہ تسلیم کر بھی لیں تو دانائی اور معاملہ فہمی کے سوا ملک کو مصائب کے بھنور سے وہ کس طرح نکال سکتے تھے۔

عمران خان کے کھاتے میں آج سے قبل کسی کارنامے کا سوال ہو تو ورلڈ کپ کی جیت، شوکت خانم، نمل یونیورسٹی اور خیبر پختونخواہ کی پچھلی صوبائی حکومت کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کھیل اور حقیقی زندگی میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔ چندے سے ہسپتال اور تعلیمی ادارہ قائم کرنے اور بائیس کروڑ آبادی رکھنے والی مملکت کے نظم و نسق سنبھالنے میں زمین و آسمان کا فرق سمجھنا بھی راکٹ سائنس نہیں۔ باقی رہا ان کی صوبائی حکومت کا معاملہ تو پچھلے برس وہ بزبان خود اعتراف فرما چکے، ”شکر ہے کہ ہمیں دو ہزار تیرہ میں وفاق میں حکومت نہیں ملی ورنہ اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو خیبر پختون کا پچھلے پانچ سالوں میں ہمارے ہاتھوں ہوا“۔ بایں ہمہ بی آر ٹی کے متعلق حالیہ رپورٹ بھی ان کی صوبائی حکومت کی قلعی کھولنے کو کافی ہے۔

وہ اپنی ضد اور بعض قوتوں کی خواہشات کے نتیجے میں وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھ تو چکے مگر بیانات اور اقدامات بتاتے ہیں کہ دو ہزار اٹھارہ میں بھی اقتدار ملنے کی نہ تو انہیں توقع تھی اور نہ ہی حکومت چلانے کے لیے ان کی تیاری مکمل۔ حکومت چلانا تدبر اور حوصلے کا تقاضہ کرتا اور مضبوط مینڈیٹ کی حامل حکومتیں بھی حزب مخالف سے تصادم مول لینے سے حتی الامکان گریز کرتی ہیں۔ وفاقی وزرا اور وزیراعظم کے اب تک کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے حکمران جماعت اپوزیشن دور کے مائنڈ سیٹ سے نجات حاصل نہیں کر پائی۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی پھسپھسی دہائیوں اور چیئرمین سینیٹ کے احتجاج کے باوجود نہ تو ایوان میں کشیدگی بالکل کم نہ ہوئی۔ اس کشیدگی کے ماحول میں معاشی بحران یا عوامی مفاد پر مبنی کسی قانون پر غور و فکر کس طرح ہو سکتا تھا۔ وزیراعظم کی سوئی بس اسی پر اٹکی ہے کہ کسی مخالف کو نہیں چھوڑیں گے اور نہ کسی کو این آر او ملنے والا ہے۔ نجانے وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ وزیراعظم کا اختیار نہیں کہ کسی کو پکڑنے اور چھوڑنے کے فیصلے کرتا رہے۔ سر دست این آر او کا تذکرہ کرنے والا احمقوں کی جنت کا باسی ہی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگر این آر او ہوا بھی تو وہ اپنی حیثیت اور اوقات سے واقف کیوں نہیں کہ یہ بات ان سے بالادست ہوگی جس میں چاہ کر بھی وہ کوئی دخل نہیں دے سکیں گے۔

اصل وجہ شاید ہے عمران خان کارکردگی کے میدان میں بری طرح ناکام ہیں اور یہ بات ملک کا بچہ بچہ جان چکا ہے۔ اب تک تحریک انصاف کی قیادت کی گڈ بک میں شامل دوست کالم نگار اور اینکر کے مطابق عمران خان کو یہ احساس شروع ہو چکا ان حالات میں زیادہ عرصہ انہیں مقتدر قوتوں کی آشیرباد میسر نہیں رہے گی۔ اس تشویش کے سبب نجی محفلوں میں ان کی بڑبڑاہٹ بھی بڑھ چکی۔ لہذا جھنجلاہٹ چھپانے اور attention divert کرنے کے لیے کبھی شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے اختلاف تو کبھی اٹھارویں ترمیم کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں۔

جب سے ان کے منہ سے یہ بات نکلی آصف زردای کو بھی اپنے خلاف کرپشن کیسز سے توجہ ہٹانے ہٹانے اور سندھ کارڈ کے استعمال کا موقع مل گیا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں کو علم ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی اور ایوان میں حکومتی اراکین اتنی تعداد میں موجود نہیں۔

واللہ اعلم سچ ہے یا فسانہ، مگر کہا جا رہا ہے مضبوط مرکز کی حامی لابیز کو مجموعی وسائل میں وفاقی حکومت کے حصے کی کٹوتی پر زیادہ غصہ ہے جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں 50 فیصد سے کم کر کے 42.5 فیصد کردیا تھا۔ 18 ویں ترمیم میں، آئین کے آرٹیکل 160 ( 3 ) (a) میں صراحت سے صوبوں کو یہ تحفظ دیا تھا کہ ”قومی مالیاتی کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ، اُس حصے سے کم نہیں ہوگا جو صوبوں کو پچھلے ایوارڈ میں دیا گیا تھا۔

” اس ترمیم کے ناقدین کو زیادہ اعتراض اسی پر ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کو مجموعی وسائل میں اپنا حصہ بڑھانے نہیں دیتی۔ وفاق کے حصے کی رقم کا بڑا حصہ ایک دفاعی بجٹ کی مد میں جاتا ہے۔ دوسرا بڑا حصہ debt سروسنگ پر خرچ ہوتا ہے۔ لہذا وفاقی اخراجات پورے ہونے مشکل ہو جاتے ہیں اسی باعث واویلا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے غیر متناسب شرح آبادی اور وسائل رکھنے والی وفاقی اکائیوں کو باہم مربوط رکھنے کے لیے اس ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سنگین مضمرات کی حامل یا چھوٹی اکائیوں کے لیے تحفظات کا سبب بن سکتی ہے۔ وفاق کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر ذرائع مثلا محاصل اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی سنجیدہ کاوش کرنی چاہیے۔

18 ویں ترمیم پر صوبوں کے چند اعتراض بھی لا یعنی ہیں۔ جیسے کہ اس ترمیم میں صحت اور تعلیم صوبوں کی ذمہ داری قرار پائی۔ یکساں تعلیمی نظام جو درست حقائق پر مبنی ہو سمجھ نہیں آتا اسے نافذ کرنے میں کیا قباحت ہے مگر، اس میں صوبے اب تک ناکام ہیں۔ صحت کے شعبے میں بھی کسی بھی صوبے کی کارکردگی خاطر خواہ نہیں لیکن مداخلت ہو تو پھر گراں گزرتی ہے۔ بعض اعتراض اپنی جگہ اہم بھی ہیں مثلا مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں وفاق کی جانب سے لیت و لعل سے کام لینا۔

مشترکہ مفادات کونسل کا اپنا سیکریٹیریٹ نہ ہونا۔ قدرتی وسائل کی تقسیم پر اعتراض بھی قابل غور ہے۔ 18 ویں ترمیم کے ناقدین کہتے ہیں یہ ترمیم جلد بازی میں منظور کی گئی۔ حالانکہ ترمیم کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے نو ماہ میں 200 اجلاس ہوئے۔ اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے رائے عامہ لی گئی۔ بار کونسلوں سے بھی درخواست ہوئی کہ وہ تجاویز دیں۔

اب اچانک جانے کہاں مروڑ اٹھا زرداری صاحب چیخ رہے ہیں ان پر زمین و آسمان تنگ کرنے کے پیچھے 18 ویں ترمیم ختم کرنے کی خواہش ہے قائد انقلاب خود اس بات کو مہمیز دیتے ہیں کہ چوروں اور لٹیروں کے خلاف کارروائی ہوئی تو جمہوریت اور 18 ویں ترمیم خطرے میں پڑ جائے گی۔ قائد انقلاب یہ جانتے ہوئے بھی کہ وفاق اور پنجاب حکومت ایک پھونک کی مار نہیں سندھ فتح کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ جس شاخ نازک پر وہ بیٹھے ہیں ان کا یہ عمل خودکشی کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

نظر بظاہر یہی ہے کہ عمران خان اور آصف زرداری دونوں اپنا سر بچانے کی تگ و دو میں ہیں۔ دعا ہے اسی حکومت کو فہم و استحکام نصیب ہو، پھر بھی اگر تبدیلی نا گزیر ہو تو ان ہاؤس ہونی چاہیے۔ انقلاب کی راہ دکھلانے والے دانشور مگر چند دنوں سے غیر محسوس انداز سے صدارتی نظام اور 18 ویں ترمیم کے خاتمے کے لیے عوام کو تیار کر رہے ہیں، مختلف لسانی اکائیوں والے وفاق پر اس کے نتائج سوچ کر دل دہل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).