بیجنگ نے تو مجھے تتّے توے پر بٹھا دیا


بیجنگ میں میرا حال تتّے توے پر بیٹھنے جیسا ہوگیا تھا۔ پہلی حیرت اسلام آباد سے بیجنگ کے لیے جانے والے مسافروں کو دیکھ کر ہوئی۔ ان میں اکثریت تو نوعمر بچیوں اور بچوں کی تھی۔ جن کی بہار آئی پڑی تھی۔ دوسری پختہ عمر کے لوگوں کی تھی جن کے چہرے مہرے، لباس اور حال احوال انہیں کہیں جنوبی پنجاب اور کہیں خیبر پختون سے تعلق کا بتاتے تھے۔ اب کچھ جاننے کا تجسّ کشاں کشاں اُن کے پاس لے گیا۔ لڑکے لڑکیوں سے بات چیت نے بتایا کہ سب طلبہ و طالبات ہیں۔

بیشتر تو ڈاکٹری پڑھ رہے ہیں، کچھ ا نجنیئرنگ، کچھ اکاؤنٹس، کچھ بزنس ایڈمنسٹریشن۔ اب یہ تو پوچھنا فضول تھا کہ پاکستان کی بجائے چین میں کیوں پڑھ رہے ہیں؟ ایک وجہ تو معلوم ہی تھی کہ میڈیکل اور انجنیئرنگ میں میرٹ پر نہیں آئے ہوں گے۔ اُن کے مطابق چین میں پرائیوٹ میڈیکل اور نا ن میڈیکل تعلیم بمقابلہ پاکستان بہرحال سستی ہے۔ چھ، سات لاکھ سالانہ اور کوئی پچیس ہزار کا ماہانہ ہوسٹل خرچہ۔ چلو یہ تو خوشی کی بات تھی کہ پاکستانی والدین نے یہ حدیث کیا لڑکوں بلکہ لڑکیوں کے لیے بھی پلّے سے باندھ لی ہے کہ بھئی علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ اب کُریدا کہ فرق کیا محسوس کرتے ہیں۔

ذہین لڑکوں کا جواب تھا۔ تھیوری پر زور ہے۔ عملی کام صفر ہے۔ میڈیکل کے بعد پاکستان میں ٹیسٹ دینا پڑتا ہے۔

چینی کتنے لوگوں کو آتی ہے اور چینیوں کو کیسا پایا ہے؟ کچھ کا جواب تھا کہ ہماری یونیورسٹی میں پاکستانی ہی اتنے ہوتے ہیں کہ ہمیں چینیوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ کچھ کا جواب تھا بس اچھے ہیں۔ جوابات نے مجھے بتا دیا تھا کہ بھیجنے سے پہلے تربیت نہیں کی گئی۔ کسی پلاننگ سے نہیں آئے۔ جانتے نہیں ہیں کہ پاکستان کے سفیر ہیں۔ چین جیسے دوست اور قابل رشک ترقی کرنے والے ملک سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ نجی طور پر ساری کوششیں ہیں کہ بیچارے ماں باپ یہ فخر کرسکیں کہ دھی یا پتر پڑھنے کے لیے چین گیا ہے۔

دوسرے لوگوں بارے پتہ چلا کہ بزنس کرتے ہیں۔ چائنہ آنا جانا اُن کے لیے معمول کی بات ہے۔ موتیوں، ہوزری، گارمنٹس، بیگز، پھلوں، سبزیوں، دفاعی آلات وغیرہ وغیرہ۔ کپاس پیدا کرنے والا ملک جس کا لائل پور کبھی مانچسٹر تھا۔ زرعی ملک جس کی منڈیوں میں بہت سے پھل، سبزیاں باہر سے آتی ہیں۔ بیجنگ ایرپورٹ پر لائنوں میں کھڑے ایک تیز طرّار لڑکے سے بات چیت سے پتہ چلا کہ وہ گیس سلنڈروں کی بکنگ کے لیے آیا ہے۔ یہ سلنڈر کیا پاکستان میں نہیں بن سکتے؟ بن سکتے تھے مگر اب نہیں۔ 1972۔ 73 میں بننے بنانے کے عمل کا آغاز ہونے کی ضرورت تھی۔ ہر صنعت غلطیاں کرنے، سیکھنے اور چیزوں کو بہتر کرنے کے عمل سے گزرتی ہے۔ چالیس سال کے عرصے میں یہ ان مرحلوں سے گزر کر بہت آگے چلے گئے ہیں۔ زمانہ تو اب آرٹیفشل انٹیلیجنس کا آگیا ہے۔

تو اب کھڑی سوچتی تھی کہ بھٹو کہاں کا وژنری لیڈر تھا۔ اس نے صنعتوں کو کیوں قومیایا؟ ایوب گو فوجی تھا پر صنعتی ترقی تو ہوئی اور بہت ہوئی۔ انڈونیشیا، ملائیشیا، کوریا کی مثالیں سامنے ہیں۔ ہم تو چلتی صنعتوں کو قومیانے میں لگ گئے۔ ایسے میں مزید صنعتوں کی گنجائش کہاں رہی۔

اب کلیجے سے لمبی لمبی آہیں نہ نکلتیں تو کیا ہوتا۔

بیجنگ ایرپورٹ کا طول و عرض اور طور طریقے مختلف سے نظرآئے تھے۔ باہر نکلنے تک سیکورٹی کے صبر آزما مرحلوں نے رات سر پر کھڑی کردی تھی۔

باہر کا منظر اِس تاریکی میں دہلاتا تھا۔ فلک بوس عمارتوں کے شیشوں سے آتی مدھم مدھم اورسٹریٹ لائٹس کی معمولی سی ٹمٹماتی روشنی میں رات کی تاریکی جنوں بھوتوں والی دنیا کا ایک گہرا تاثر اجاگر کررہی تھی۔ سڑکوں پر جرمنی، امریکہ، جاپان بھاگا پھرتا تھا۔ مرسیڈیز، اوڈی، رولس رائز، واکس ویگن، ہونڈا، لیکسز دائیں بائیں چیختی چنگھاڑتی گزر رہی تھیں۔

تو پھر جینگوامن وائے Jianguomenwai کے علاقے DRC یعنی ڈپلومیٹک ریذیڈنسی کمپاونڈ کے چھٹے فلور کے ایک گھر میں داخل ہوئی۔ جہاں میری بیٹی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ گھر کے سامنے رنگ روڈ نمبر 2 پر ساری رات گاڑیوں کی بھاگ دوڑ اسی طرح جاری تھی جیسے کہیں آگ لگی ہواور فائر برگیڈ دھواں دھار رفتار سے بھاگتا جا رہا ہو۔ صبح دم آنکھ کھلنے کی بیماری نے یہاں بھی نور پیر کے تڑکے ہی اٹھا کر بیٹھا دیا۔ بالکونی میں آئی۔

سوا دو کروڑ آبادی کا شہر بیجنگ چار پانچ سال پہلے سموگ کا بُری طرح شکار ہوا تھا۔ انتظامیہ نے بڑی فیکٹریاں فوراً شہر سے باہر منتقل کیں۔ درخت جڑوں سے اُکھاڑ کر لائے گئے اور ان کی پلانٹیشن ہوئی۔ کہاں کی سموگ اور کہاں کی گرد آلود فضا۔ اس وقت میرے سامنے بیجنگ کا آسمان شفاف، آواخر مارچ کی خنکی سے بھرا تاحد نظر پھیلا، فلک بوس عمارتوں کے بے انتہا خوبصورت جنگل میں گھرا حیران کرتا تھا۔ دائیں بائیں جاتی، مڑتی ایک دوسرے کا کاٹتی، کہیں جھپیاں ڈالتی شاہرائیں اورگاڑیوں کا طوفان۔

”خدایا“۔ میں رشک اور حسد میں جلتی بُھنتی اندر آگئی تھی۔ 1960 میں یہی چینی میرے کراچی شہر کی بلندوبالا عمارتوں کو دیکھ کر کہتے تھے کاش ہمارے پاس کراچی جیسا بھی ایک شہر ہو۔ بیٹی نے میری کیفیات پر کہا۔ تیس میل مشرق، تیس چالیس میل مغرب، ایسے ہی جنوب اور شمال کی طرف آسمان کو چُھوتا بیجنگ نظرآئے گا۔ شام تک داماد نے چاروں کھونٹ گھما کر میرا حشر نشر کردیا تھا۔ صفائی کا وہ عالم کہ کھانے کی پلیٹ نہ ملے تو دال چاول فرش پر ڈال کر کھالو۔

شعیب بن عزیز نے جناب تھانگ منگ شنگ سے ملنے کا کہا تھا۔ پیکنگ یونیورسٹی میں ہیڈ آف دی پاکستان سڈیز ڈپارٹمنٹ ہیں۔ ملنسار اور محبت والے انسان۔ خوبصورت اردو بولتے ہیں۔ اپنے چھوٹے سے سادہ سے کتابوں، کاغذوں سے بھرے کمرے میں لے گئے۔ بیٹھنے کے ساتھ جو پہلی بات کہی وہ تھی پاکستانی ہمارے اُستاد تھے۔ جب چین میں اصلاحات اور اوپن پالیسی کا نفاذ ابتائی مراحل میں تھا تو عالمی بینک کے قرض کو انفراسٹرکچر کی تعمیر وغیرہ کے سلسلے میں موثر طور پر استعمال کرنے میں پاکستان نے چین کی بہت مدد کی تھی۔ چینی حکومت نے پاکستان کی معلومات، تجربات، مشوروں اور تجاویز کو بہت اہمیت دی اور سفارشات سے فائدہ اٹھایا۔ آج جبکہ اصلاحات اور اوپن پالیسی کے نفاذ میں چین نے شاندار کامیابیاں حاصل کرلی ہیں تو ہم پاکستان جیسے دوست کے لیے بھی یہی چاہتے ہیں۔

اِس اتنے محبت بھرے اظہار پر دل تو جیسے دھاڑیں مارنا چاہتا تھا۔ ہم تو اپنے دشمن آپ بنے ہوئے ہیں۔ آنکھوں میں بھی نمی اترآئی تھی۔ ان کی باریک بین نگاہوں نے میری اِن کیفیات کو ہمدرد آنکھ سے دیکھا۔ قدر ے نرم سے لہجے میں بولے۔ پاکستان میں باتیں بڑی بڑی اور کام تھوڑا۔ منصوبے بہتیرے پر عمل پیرائی صفر۔ سیمیناروں اور مقالوں پر زور۔ سات سمیناروں میں شرکت کی۔ نششتند و برخاستند تک ہی معاملات رہے۔ پانچ سال سے کوئی کام نہیں ہوا۔ ٹانگیں کھینچنے کی عادت پڑگئی ہے۔ سیاسی استحکام نہیں۔ قومی معاملات پر مل کر چلنے کا چلن نہیں۔ جو نسلی رنگارنگی اِس ملک میں موجود ہے اس میں اتحاد اور یگانگت نہیں۔

1970۔ 80 کا زمانہ یاد آتا ہے۔ پاکستان آنے والے چینیوں سے گھڑی لانے کی خواہش کی جاتی تھی۔ یہ زمانہ ہمارے ہاں بُھوک ننگ کا تھا۔ 1987 میں ایک گھر کو ماہانہ راشن میں آدھ کلو چینی اور آدھی درجن انڈوں کی اضافی اجازت ایک طرح عیاشی تصور کی جاتی تھی۔

دو گھنٹے کی نشست رہی۔ اسلام آباد کے بہت سے لوگوں کا ذکربھی ہوا۔ رخصت ہوتی ہوں۔ مزید جھلکیاں انشاء اللہ پھر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).