عراقی ادیب ”حسن بلاسِم“ : حُریت چوک کا مجنوں
”موسیقار ’کا کردار دوسرے عراقیوں کی طرح اپنے ملک کو محبوب گگردانتا ہے مگر وہ بھی اسلام پسند حکومت کی کارروائیوں سے بیزار نظر آتا ہے۔ وہ اپنے جذبات کو بیان کرنے کے لیے شاعری اور موسیقی کا سہارا لیتا ہے مگر اس پر کفر کا فتوی لگا کر اس کو ٹریکٹر سے رسی سے باندھ کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ موسیقی حقیقت پسندی سے نکل کر گناہ بن جاتی ہے۔
”بکریوں کا گیت“ میں بکریاں عراقی عوام کا استعارہ ہیں، ان کی خواہشات، ان کے معصوم جذبات اور امن کے داعی لوگوں کی خواشات کو بیان کیا گیا ہے۔ جبری فوج میں بھرتی کے لیے انکار بغاوت کا استعارہ ہیں۔ اسلامی شرعی سزاؤں کے لیے لوگوں کا سر عام قتل عام اور بچوں کا ان پھانسی گھاٹ کے کھمبوں، جن پر لوگوں کو پھانسی دی جاتی ہے ان کو کھیل کی خواہش کے لیے استعمال کرنا جنگ کے خاتمے کی خواہش ہے۔ ان بکریوں کو ہانکا جا رہا ہے۔ یہ فوجی آمر اور عام عراقی عوام کے درمیان تعلق کو بیان کرنے کی کہانی ہے۔
”کارلوس فیونتیس کے کابوس“ ایک مہاجر عراقی کی کہانی ہے۔ یہ عراق سے ایک بہتر مستقبل کے لیے نقل مکانی کر جاتا ہے مگر پھر بھی یہ اپنی عراقی عوام کے اوپر ہونے والے مظالم کو نہ بھول سکتا ہے، اس کو آنے والے خواب نفسیاتی طور پر شکستہ و کمزور کر رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے باوجود عراقی شناخت کو نہ بھلا سکتا ہے۔ ڈچ شہریت حاصل کرنے کے با وجود وہ چھٹی منزل سے کود کر خودکشی کر لیتا ہے۔ آخر میں ڈچ میڈیا کا رول بھی کافی الم ناک ہے۔
حسن بلاسم نے اپنی کہانیوں کے اندر ایسے کرداروں کی زبان سے خاص عراقی صورت حال کو بیان کیا ہے کہ جس میں جنگ کویت اور اسلامی حکومت کا قیام، اس کی کی گئی اصطلاحات، ان کا عوام پر اثر۔ امریکہ کا عراق پر حملہ اور اس کے تناظر میں عام عوام کے متاثر ہونے کی روداد بیان کی گئی ہے۔ وہ اپنے خاص استعاراتی انداز میں کہانی کو بیان کرتے ہیں۔ ان کے کرداروں میں عام عوام، بچے، نوجوان سرکاری عہدیدار، نقل مکانی کر جانے والے کردار اور جہادیوں کو جگہ دی گئی ہے ان سب لوگوں کے ذہن پر ایک خوف سوار ہے اور کئی طرح کے سوالات ہیں کہ آخر ان کا قصور کیا ہے؟ وہ کس کی جنگ لڑ رہے ہیں؟ کب اس کا انجام ہو گا؟
ان کو امید ہے کہ عراق کا اور دوسرے عرب ممالک کا مستقبل شاندار ہو گا کیونکہ اب وہاں پر ہیومن رائٹس کی تنظیمیں، حقوق نسواں کی حمایت کے علاوہ لوگ کرپشن اور ظلم کے خلاف کیفے اور ہوٹلوں پر بیٹھ کر با آسانی بات کر سکتے ہیں جو کہ پہلے نا ممکن تھا۔ اب سنسر شپ جوکہ پہلے زیادہ تھی ختم ہو گئی ہے۔ امن کی امید کو مزید تقویت ملی ہے۔
- عطا محمد عطا کی نظم: معاشرتی مسائل کی عکاس - 27/08/2022
- عراقی ادیب ”حسن بلاسِم“ : حُریت چوک کا مجنوں - 13/04/2019
- ” گل مینہ“ از زیف سید - 02/04/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).