عطر شیشہ اور دوسرے مقامات پر زلزلے کی ضرورت


اسے عطر شیشہ سے لایا گیا تھا۔

ایبٹ آباد سے مظفرآباد کے راستے پر مانسہرہ سے نکل کر جب پہاڑی سلسلے شروع ہوتے ہیں، بڑی بڑی اونچی چوٹیوں کو پھلانگتے ہوئے سرسبزوادیوں سے گزرتے ہوئے جھرنوں، نالوں، نالیوں، ندی کے کنارے سفر کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی جگہ عطر شیشہ کے نام سے آتی ہے۔ عطر شیشہ کے پاس کی کسی چھوٹے سے گاؤں سے ایدھی ایمبولینس کے رضاکار اسے لے کر آئے تھے۔

اس کے گھر کا کوئی فرد نہیں بچا تھا۔ نہ باپ نہ ماں نہ بھائی نہ بھابھی اور نہ ہی گھر کے تینوں بچے۔ زلزلہ سب کواپنے ساتھ لے گیا، صرف وہی اس گھر کی زندہ فرد تھی۔ اسے زلزلے نے تو کوئی نقصان نہیں پہنچایا مگر زلزلے کے فوراً بعد جب وہ اپنی پوری قوت سے اپنے ہی گھر کے ملبے کو کوڑ ہی تھی تو گرتے ہوئے گھر کی ایک دیوار کا حصہ اس پر آن گرا اور اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔

مانسہرہ کے بی ڈی او ہسپتال میں وہ بستر پر پڑی ہوئی تھی اوراس کا بستر گیلا تھا اور اس کے پاس سے سخت بدبوآرہی تھی۔ میں نے ہی سب سے پہلے اسے دیکھا تھا۔

اس کی عمر پینتس، چھتیس سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس علاقے کے رہنے والوں ہی کی طرح وہ گوری چٹی خوبصورت سی عورت تھی۔ اس کے جسم پر کوئی بہت اچھے کپڑے نہیں تھے اور نہ ہی کانوں گلے اور بانہوں میں کسی قسم کے زیور، وہ ایدھی ایمبولینس کے اسٹریچر پر بے ہوش پڑی ہوئی دھیرے دھیرے سانس لے رہی تھی۔

ایدھی ایمبولینس کے رضاکاروں کی گاڑی جب گاؤں پہنچی تو گاؤں کے کچے مکانوں کی دیواریں ڈھلکی ہوئی یا گری ہوئی تھیں۔ ان چھوٹے چھوٹے گھروں کے مکین اپنے اپنے گھروں کے باہر بے کسی اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ گاؤں کا واحد پکا مکان زمین بوس ہوا ہوا تھا، اور اس گھر کی واحد بچ جانے والی حمیدہ بی گھر کی ایک دیوار کے گرنے سے اپنے دونوں پیروں پر چل نہیں سکتی تھی۔ گاؤں والے نے دیوار کے نیچے سے اسے اٹھا کر ایک چارپائی پر لٹادیا تھا جہاں وہ مسلسل درد سے کراہ رہی تھی۔

ایدھی ایمبولینس میں موجود ڈاکٹر نے حمیدہ کے دونوں پیروں کے نیچے لکڑی کے پھٹّے لگا کر، پیروں کو سیدھا کرکے پٹی سے باندھ دیا اور درد سے نجات کے لئے انجکشن لگا کر اسے مانسہرہ کے کے بی ڈی او ہسپتال بھیجا تھا۔ ہڈیوں کی صحیح حالت کا تو ایکسرے کے بعد ہی پتہ چلتا، فوری طور پر رضاکار نرسوں نے اسے صاف کپڑے پہنا کر وارڈ میں ایک بستر پر لٹادیا، وہاں ہی اس کے پیروں کے زخم کو صاف کرکے پٹی باندھ دی گئی۔ اینٹی بائیوٹک سے فوری علاج بھی شروع کردیا گیا تھا۔ فی الحال اس کا چلنا پھرنا ممکن نہیں تھا تو ایک نرس نے پیشاب کی نلکی لگادی تاکہ پیشاب کے لئے بار بار جانے کی ضرورت نہ پڑے۔

میں نے اسے پھر سے درد سے بچاؤ کا ایک اور انجکشن لگادیا تاکہ اس کی تکلیف تو کم ہو۔

ہسپتال میں مسلسل مریض آرہے تھے۔ اوپر اورنیچے جتنے بھی بستر تھے ان پر اور زمین پر ہر طرف مریض پڑے ہوئے تھے۔ اب صرف زخموں والے مریضوں کی مرہم پٹی کی جارہی تھی۔ زیادہ زخمی مریضوں کو ایبٹ آباد اور اسلام آباد کی طرف بھیجا جارہا تھا۔

دو ہزار پانچ کا زلزلہ بڑی تباہی لے کر آیا، پاکستان ہندوستان کی سرحدوں کی دونوں جانب، خوبصورت کشمیر کی وادی میں۔ زلزلے، طوفان، سیلاب، بہار، خوشبو، سردی، گرمی، ہوا، سرحدوں کا احترام نہیں کرتے ہیں۔ پاسپورٹ ویزا اور سفری دستاویزات کا خیال نہیں رکھتے۔ جب زمین کے نیچے بہت نیچے دھرتی کے پرت آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان کا اثر اوپر تک ہوتا ہے۔ زمین ہل جاتی ہے، پہاڑ گرجاتے ہیں، چٹانیں لڑھک جاتی ہیں، نالہ، ندی، دریا راستے بدل دیتے ہیں، وہ زمین کے اوپر کھینچی ہوئی لکیر، کنٹرول لائن اور جھنڈوں کا خیال نہیں رکھتے۔ بالکل خوشبو کی طرح جو پاکستانی ہندوستانی نہیں ہوتی، جو ہندو مسلمان نہیں ہوتی، جو وہابی دیوبندی، بریلوی نہیں ہوتی، جو شیعہ سنی نہیں ہوتی، خوشبو تو خوشبو ہی ہوتی ہے، بالکل بدبوکی طرح ہرطرف ہر سُو پھیل جاتی ہے۔ ایک کی پذیرائی کی جاتی ہے دوسرے سے لوگ بھاگتے ہیں۔

دوہزار پانچ کے زلزلے میں یہی ہوا تھا۔ سرحد کے دونوں جانب لاکھوں مکان گرگئے، پہاڑوں نے وادیوں کا نقشہ بدل دیا اور دریا اپنے راستے بھول گئے۔ نہ جانے کتنے لوگ، ہزاروں لوگ اپنی جان سے چلے گئے، دونوں ملک اپنے اپنے مضبوط فوجیوں بے شمار ہتھیاروں اور ایٹم بموں کے باوجود اپنے زخمی، سسکتے بلکتے شہریوں کی امداد کو نہیں پہنچ سکے، ماؤں نے اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں میں بلکتے ہوئے، سسکتے ہوئے مرتے دیکھا، نوزائیدہ بچے زخمی اور مرتی ہوئی ماؤں کے چھاتیوں سے لپٹے ہوئے امداد کی راہ تکتے رہے۔

سرحدوں کی دونوں جانب سے اس قسم کی بے شمار کہانیاں سننے کو ملی تھیں، انسان جب بن رہا تھا تو بھی مجبور تھا اب بن گیا ہے تب بھی مجبور ہے۔ میں اس جیون کے کھڑاگ کو سمجھنے سے قاصر تھا۔

دوسرے دن ایکسرے کی فلمیں آگئیں۔ حمیدہ بی بی کے دونوں پیروں میں گھٹنے سے نیچے کی دونوں ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔ ہسپتال میں کراچی اور لاہور سے ہڈیوں کے مشہور ماہر ڈاکٹر آگئے تھے، سب کا خیال تھا کہ اس وقت تو دونوں پیروں میں پلاسٹر لگادیا جائے تو تھوڑے دنوں میں دونوں ہڈیاں جڑجائیں گی۔ پلاسٹر اترنے کے بعد فزیوتھراپی کرکے حمیدہ بی بی پھر چلنے پھرنے کے قابل ہوجائے گی۔

پلاسٹر لگانے کی تیاری ہوہی رہی تھی کہ نرس نے مجھے بتایا کہ پیشاب کی نلکی کے باوجود حمیدہ بی بی کا پیشاب ہروقت بہتا رہتا ہے، اس کاخیال تھا کہ پلاسٹر کے بعد تو بستر پر ہی لیٹی رہے گی اور پیشاب رس رس کر پلاسٹر کے اندر تک جائے گا اوراس سے دوسرے مسائل شروع ہوجائیں گے۔ زخم گندہ ہوگا، اس میں انفیکشن ہوجائے گا، بیماری سے ایک اوربیماری پیدا ہوجائے گی۔

یہ نرس آسٹریلیا سے زلزلہ زدگان کی خدمت کرنے آئی تھی جب ایبٹ آباد، پشاور، اسلام آباد کے بہت سارے ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ مریضوں کو دیکھ رہے تھے، جب کراچی لاہور جیسے بڑے شہروں کے بڑے بڑے ڈاکٹر کیمپوں میں تصویریں کھنچوا رہے تھے، اور فلمیں بنوارہے تھے، اخباروں میں تصویریں چھپوا رہے تھے اور ٹیلی ویژن پر اپنی فلمیں چلوارہے تھے۔ اس وقت آسٹریلیا کی یہ نرس، اپنے اسپتال سے دور، دوا اور پیسے جمع کرکے پاکستان کے زلزلہ زدہ علاقے میں زلزلہ زدگان کی مدد کرنے آئی تھی۔

پورا علاقہ کیوبا، فرانس، جرمنی، ترکی، ایران، روس، سعودی عرب، امارات، جارجیا، اٹلی اور بہت سارے دوسرے ملکوں کے ڈاکٹروں نرسوں سے بھرا ہوا تھا۔ نہ جانے کہاں کہاں کی ایجنسیاں خیرات اور امداد لے کر آئی تھیں، ایسا نہیں تھا کہ پاکستان کے ڈاکٹر نہیں آئے تھے۔ آئے تھے مگر اتنے نہیں جتنے آنے چاہیے تھے۔ زلزلے نے انسانوں کی دوسری شکل بھی دکھائی جو افسوسناک بھی تھی اور خوفناک بھی۔

زلزلے کے فوراً بعد میں ایدھی ایمبولینس کے رضاکاروں کے ساتھ جب مظفرآباد پہنچا تومجھے پتہ چلا کہ زلزلے کے دوسرے دن جب ملبے کے نیچے سے سسکتے ہوئے آہ وبکا کرتے ہوئے مرنے والوں کی آوازیں آرہی تھیں تو کچھ لوگ تباہ شدہ کاروں میں سے پہیے، کیسٹ پلیئر اور جو بھی سامان تھا، منظم طریقے سے نکال کر لے گئے ٹوٹے ہوئے گھروں میں جہاں کے مکین مرگئے یا بھاگ گئے وہاں سے باضابطہ سامان ٹرکوں میں ڈال کر نکل گئے تھے، جب پوری وادی میں مرے ہوئے آدمیوں، دبے ہوئے انسانوں کے جسموں کی باس پھیل رہی تھی اس وقت کچھ لوگ ان مرے ہوئے سڑتے ہوئے لوگوں کی خوبصورت بیٹیوں کو امداد کے بہانے بہلاپھسلا کر اغواء کرچکے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بے سہارا معصوم بچوں کی کھیپ پاکستان کے دوسرے شہروں میں پہنچادی گئی تھی۔ کیسے انسان تھے یہ لوگ؟ کیسا جہان تھا یہ؟

زمین کے اندر لوگ مر کے سڑ رہے تھے، جن کی باس سے فضا بوجھل تھی۔ اوپر سڑے ہوئے زندہ لوگوں کی بدبو کسی کو نہیں محسوس ہوئی، حکومت نے اچھا کیا کہ کشمیری لڑکیوں اور بچوں کی نقل و حمل پر پابندی لگادی اس سے پہلے کہ عرب دنیا کے حسن کے بازار ان لوگوں سے بھرجاتے، عرب شیخوں کے حرم میں یہ کشمیر کی کلیاں پہنچادی جاتیں۔

نرس پٹریشیا کے توجہ دلانے پر جب حمیدہ سے بات ہوئی تو حمیدہ نے بتایا کہ سترہ سال پہلے اس کے پہلے حمل میں مرا ہوا بچہ پیدا ہوا جس کے بعد سے اسے پیشاب بہنے کی مسلسل بیماری ہے۔ ہر وقت پیشاب آنے کی وجہ سے اس کے شوہر نے اسے چھوڑدیا تھا جس کے بعد وہ اپنی ماں باپ کے گھر عطر شیشہ واپس آگئی تھی۔

تھوڑے دنوں تک گھر میں رہی مگر اس کے پاس سے مسلسل بدبو آنے کی وجہ سے اس کے بھائی کی بیوی نے یہ انتظام کیا تھا کہ اس کے لئے گھر سے باہر ایک کچا کمرہ بنوادیا تھا جہاں وہ اپنے پیشاب سے لتھڑے ہوئے جسم اوربدبو کے ساتھ رہتی تھی۔ شاید یہی مناسب انتظام تھا، شکر ہے اسے گھر سے نہیں نکالا۔ لوگ ایسا بھی کرتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2