پاکستان کے خلاف اسرائیل اور بھارت کی منصوبہ بندی؟


وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت کے پیش نظر قابل اعتماد معلومات عوام کے ساتھ اس لئے شیئر کیں تاکہ عوام ذہنی طور پر پاکستان کے خلاف ہونیوالی بھارتی جارحیت کے لئے تیار رہے اور پاکستان نے عالمی برادری سے بھی کہا کہ وہ اس معاملہ کا نوٹس لے اگر بھارت نے جارحیت کی تو اس کا نقصان بھارت کو ہوگا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کے پاس قابل بھروسا معلومات ہیں بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر میں خود پلوامہ جیسا حملہ بھی کروا سکتا ہے انہوں نے ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں سے بھی درخواست کی ہے کہ بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت کے پیش نظر حکومت کے ساتھ کھڑی ہوں۔

میں سمجھتا ہوں کہ بھارت نے جب بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اور یہ قوم بھارتی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی رہی کیونکہ ملک کی بائیس کروڑ عوام کی آن ’بان اور شان اسی ارض پاک کی بدولت ہے اس میں تو پاکستان مخالف کسی دشمن قوت کو کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھے اور یہ قوم اس کے سامنے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لے دنیا جانتی ہے افواج پاکستان کا امن کے لئے دنیا میں ایک کلیدی کردار رہاہے اور اس ملک کے ایٹمی اثاثے اس کی سلامتی و بقاء کے ضامن ہیں۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی سینٹ کام کے کمانڈر جنرل کنتھ میکنزی نے اپنے وفد کے ہمراہ ملاقات کی پاک بھارت کشیدہ صورتحال میں اس ملاقات کو بڑا اہم قرار دیا جارہا ہے ممکن ہے کہ پاکستان نے اس ملاقات کے ذریعے بھارت کو سخت پیغام بھی دیا ہو کہ اگر جارحیت کی غلطی کی گئی تو پاکستان جواب میں بالکل دیر نہیں کرے گا۔ بھارت میں چونکہ عام انتخابات کا موسم عروج پر ہے اورمودی ہر حربہ سے اس انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے پاکستان کے تمام مکتبہ فکر حلقوں میں اس تاثر کو تقویت حاصل ہے کہ مودی اپنی افواج کو جارحیت کی صورت پاکستان کے خلاف استعمال کر کے اپنی انتخابی مہم کو مضبوط بناناچاہتاہے جس کا اظہار وزیر اعظم بھی کر چکے ہیں کہ بھارت الیکشن تک پاکستان کے خلاف کوئی بھی جارحانہ قدم اٹھا سکتا ہے۔

اس بات میں کوئی شائبہ نہیں کہ مودی اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر پاکستان کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے لیکن یہ بات بھی عیاں ہے کہ عالمی دشمن قوتوں کو اس ملک کی ترقی و خوشحالی ایک آنکھ نہیں بھاتی ان کی ہمیشہ یہی مذموم کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کے ایٹمی اثاثوں اور وسائل پر قبضہ کیا جائے اور خطے میں بھارت کو چوہدراہٹ سونپ کر با اختیار نگران بنایا جا سکے تاکہ پاکستان سے وابستہ مفادات کا ایجنڈا مکمل ہو سکے۔

یاد رکھیں پاکستان اور اسرائیل دنیا کی دو ایسی ریاستیں ہیں جو ایک نظریے کے تحت وجود میں آئیں پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا جبکہ اسرائیل یہودیت اور صیہونیت کے نظریے پر قائم ہوادونوں ممالک کے نظریے ایکدوسرے سے متصادم ہیں۔ قائد اعظم نے کہا تھا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل جیسی متنازع ریاست کو تسلیم نہیں کریگا اور اسی وجہ سے پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اربوں روپے کی پیشکش سختی کے ساتھ یہ کہہ کر ٹھکرا دی تھی کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔

اس تناظر میں دیکھنا پڑے گا کہ اسرائیل اپنے آپ کو پاکستان سے ہی کیوں منوانے پر مصر ہے قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی قوم سے خطاب میں کہا تھا کہ ہمیں عربوں سے کوئی خطرہ نہیں خطرہ صرف پاکستان سے ہے اس لئے اس کے وجود کو مٹانا ہوگا۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک اسرائیل نے ہر محاذ پر پاکستان کو زیر کرنے کے لئے اپنے مذموم ہتھکنڈے ا ستعمال کیے پاک بھارت جتنی جنگیں ہوئیں اسرائیل اپنی پوری خباثت کے ساتھ بھارت کی پشت پر کھڑا رہا۔

اس وقت عالمی دجالی قوتیں دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کا نفاذ چاہتی ہیں جس میں پاکستان سے اسرائیل کو منوانے کا پلان بھی شامل ہے اس نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دنیا کو اپنے مذاہب اور آئین سے دستبردار ہوکر ایک مذہب اور ایک آئین کے تابع ہونا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسرائیل کو ہی تسلیم کرنا ہے تو پھر جھگڑا کس بات کا ہے کیا ہمارے مقتدر حلقوں میں بیٹھے لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان کے خلاف ہر سازش کے پیچھے کون سی قوت ہے اگر اسرائیل کو ہی تسلیم کرنا ہے تو پھر ہمیں اتنی جنگیں لڑنے کی کیا ضرورت تھی سترہ سال امریکہ کو افغانستان میں کیوں برداشت کرتے ایٹم بم کیوں بنایا گیا اور ہمیں کیا ضرورت تھی کہ ہم مقامات مقدس کے تحفظ کی قسم کھاتے پاکستان ہی وہ ملک ہے جو اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کر کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔

اس وقت بھارت نے اپنی افواج کو ہائی الرٹ کر رکھا ہے اور اپنے تمام جہازوں کی اپ گریڈیشن بھی مکمل کر چکا ہے ہو سکتا ہے کہ بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت میں اسرائیل بھی کھل کر حصہ دار بن جائے کیونکہ بھارت کی پشت پر اسرائیل اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ کھڑا ہے امریکہ اور بھارت کے درمیان اب وہ اعتماد کا رشتہ نہیں رہاکیونکہ امریکہ ان حالات میں پاکستان کے خلاف بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہتا جب پاکستان امریکہ کو افغانستان سے نکالنے کے لئے اس کے اور طالبان کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔

لیکن دشمن کیوں بھول جاتا ہے کہ کبھی اس ارض پاک کے قیام کے ایک سال بعد ہی اس کے ختم ہونے کی پشین گوئیاں کی گئیں ’کبھی 1965 ء میں رات کی تاریکی میں بزدل دشمن نے شب خوں مارنے کی ناکام کوشش کی‘ کبھی 1971 ء کو دشمن نے غداری کے ہتھیار سے وار کر کے مشرقی پاکستان کو اس دھرتی سے الگ کروایا ’کبھی افغانستان میں سوویت یونین سے ٹکرانے پر اسے نوشتہ ء دیوار بنانے کی باتیں کی گئیں‘ کبھی ایٹمی پروگرام شروع کرنے پر لاہور کی دھرتی پر آکر ہنری کسنجر نے دھمکایا ’کبھی سی پیک منصوبہ کو سبو تاژ کر نے کے لئے بم دھماکوں‘ خود کش حملوں ’ٹارگٹ کلنگ اور بلوچستان کی سر زمین میں دہشت گردی کا بیج بویا گیا‘ کبھی مکار دشمن نے بالا کوٹ میں ائیر سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچا کر تربیتی کیمپ سمیت ساڑھے تین سو افراد مارنے کا دعویٰ کیا لیکن دنیا نے دیکھا دشمن قوتوں کی تمام تر ہرزہ سرائی اور جارحیت کے باوجود پاکستان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے۔

دھمکیوں کے باوجود یہ ملک دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنا ’دشمن کا غرور رات کی تاریکی میں پارہ پارہ ہوا‘ سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا ’سی پیک منصوبہ کے خلاف دشمن کی در پردہ مذموم کوششیں زمیں کی دھول بنی اور سی پیک کا خواب شرمندہ تعبیر بن کر عملی تصویر بن گیا دشمن کو سمجھ جانا چاہیے کہ ہم کہاں اور وہ کہاں۔ مضبوط اور طاقتور پاکستان بھارت کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے ساتھ بہتر اور برابری کی سطح کے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی لیکن بھارت نے پاکستان کی امن کوششوں کو ہمیشہ اپنے جارحانہ رویے کی بدولت سبو تاژ کیا۔ پاکستان بھارت کو فضائیہ‘ بحری ’بری‘ سائبر میڈیا ’سفارتی اور ہائبرڈ جنگ میں شکست دے چکا ہے لیکن بھارت یاد رکھے اکیسویں صدی کے ہم رکاب پاکستان پر دوبارہ جارحیت کی گئی تو شاید ہی تاریخ میں ایسے دندان شکن جواب کی مثال ملے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).