کرائسٹ چرچ اور کوئٹہ کے جمعے میں فرق


سانحہ کرائسٹ چرچ نے جہاں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈرا آرڈرن کو بہت سے پاکستانیوں سے متعارف کروایا۔ وہیں بہتوں کے لئے کیویزکے دیس، وہاں کے باسیوں اور سول سوسائٹی کی اخلاقیات اور طاقت کو جاننا بھی ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے پاکستان میں تین فقرے بہت تواتر سے سنے ہیں۔ ہم زندہ قوم ہیں، پاکستان میں ہر چیز کا بہت ٹیلنٹ ہے اور پاکستان تاریخ کے مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ تاریخ کا مشکل دور جانے کب ختم ہوگا، ہمارے ختم ہونے سے پہلے یا بعد، اور یہ مشہور و معروف ٹیلنٹ ہے جو جانے کہاں پوشیدہ ہے، کا تذکرہ بھی کسی اور موقع پر کریں گے۔ فی الوقت صرف زندہ قوم سے تعارف حاصل کرتے ہیں۔ زندہ قوم کیسی ہوتی ہے ، سول سوسائٹی کیا ہوتی ہے اور ایک مہذب معاشرے کے حکمران کو کیسا ہونا چاہئے، یہ ہم نے نیوزی لینڈ سے سیکھا۔

سانحہ کرائسٹ چرچ جمعے کے روز ہوا، جب نماز جمعہ کے اوقات میں دہشت گرد ٹیرینٹ نے فائرنگ سے پچاس کے قریب نمازیوں کو شہید کر دیا۔ ہم نے پہلی دفعہ دیکھا کہ کسی ترقی یافتہ ملک میں کسی غیر مسلم کی دہشت گردی کے بعد اسے دہشت گردی کہا گیا۔ ذہنی خلل کہہ کر نظر انداز نہیں کر دیا گیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے تو کمال کر دیا۔ سول سوسائٹی نے بھرپور طریقے سے مسلمانوں کا درد بانٹا۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنی زبان سے دہشت گرد کا نام لینے سے بھی انکار کر دیا۔ باقی تفصیل سے ہر پاکستانی واقف ہے۔

آج جمعے کے روز کوئٹہ میں بھی ایک سانحہ برپا ہوا۔ کوئٹہ کی ہزارگنج مارکیٹ میں بم دھماکہ ہوا، جس میں ہزارہ کمیونٹی کے بیس سے زیادہ افراد شہید اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ آئی جی بلوچستان نے تصدیق کی کہ دہشت گرد حملہ ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کر کے کیا گیا تھا۔ کیا آج آپ کو سوشل میڈیا لہو کے رنگوں میں نہایا نظر آیا؟ سانحہ کرائسٹ چرچ کے روز شاید ہی کوئی سوشل میڈیا پروفائل ہو گی جس پر اس سانحے کے حوالے سے خبریں اور تبصرے نہیں تھے۔ کیا مین سٹریم میڈیا پر اس سانحے کی ویسی کوریج نظر آئی؟ ہمارے ہاں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا مرنا ایک معمولی خبر ہے۔ اس پر کوئی لائیو کوریج نہیں ہوئی، کوئی ٹاک شو، کوئی خصوصی نیوز پیکج اور پروگرام؟ کچھ بھی نہیں۔

ہمارے ہاں دہشت گردی چونکہ کثرت سے ہوئی ہے تو اس لئے اس کے لئے معاشرے میں ویسی حساسیت بھی نہیں رہی۔ لیکن کچھ تو بات ہو۔ جب ایک مخصوص برادری کی نسل کشی کی ایک منظم مہم چل رہی ہو، کچھ تو ذکر اس کا بھی کیا ہوتا۔ گذشتہ دس سال میں ہزارہ کمیونٹی کی ٹارگٹ کلنگ میں دو ہزار سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہزاروں گھرانے برباد ہوئے۔ یاد ہے آپ کو وزیر اعلیٰ اسلم رئیسانی کے دور میں کوئٹہ میں دہشت گردی کے ایک واقعے میں 100 سے زیادہ افراد شہید ہوئے تھے تو وزیراعلیٰ نے کیا کہا تھا؟ وزیراعلیٰ سے جب بار بار یہ سوال کیا گیا کہ وہ موقع پر کیوں نہیں پہنچے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ ٹشو کے پیکٹ بھجوا رہا ہوں میں! سب جانتے ہیں کہ ہزارہ برادری کی نشل کشی کے پیچھے لشکرِ جھنگوی ہے۔ نہ تو کوئی لشکرِ جھنگوی سے سوال کر سکتا ہے اور نہ ان سرپرستوں سے جنہوں نے یہ لشکر تشکیل دیئے۔ یقین مانیں کہ ان لشکروں کے ماسٹر مائنڈ آج بھی لاہور، اور اسلام آباد کے پرتعیش بنگلوں میں مقیم آسائش اور عزت کی زندگی گزار رہے ہوں گے۔ لیکن ان کا بویا پوری قوم کاٹ رہی ہے۔

نیوزی لینڈ میں اقلیتوں پر حملے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ ہمارے ہاں گرجاگھروں ، مندروں اور احمدی عبادت گاہوں پر دہشت گردی کے منظم حملے ہو چکے ہیں۔ لاہور میں مسیحیوں کی پوری کی پوری رابرٹ کالونی جلا دی گئی، قصور میں میاں بیوی کو زندہ اینٹوں کے بھٹے میں ڈال دیا گیا۔ گذشتہ سال چنیوٹ کے قریب قادیانی عبادت گاہ کو اکثریتی مسلمانوں نے تباہ کر دیا۔ کیا کسی حکمران کی جرات بھی ہوئی ان واقعات کا نام لینے کی؟ کجا یہ کہ آپ انصاف کی توقع کریں۔ قادیانیت کے تو نام سے ہی ہمیں چڑ ہے۔ ہونی بھی چاہئے۔ لیکن انہیں ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنا کیسا انصاف ہے؟

بات کہیں اور جا نکلی۔ ہزارہ برادی تو مذہبی اقلیت نہیں۔ ویسے ہی مسلمان ہیں جیسے اس دیس کے کروڑوں باسی۔ جیسے فرقوں میں آپ بٹے ہوئے ہیں، ویسا ہی ایک فرقہ۔ محض نسل کی بنیاد پر سالوں سے ہزارہ کمیونٹی کا قتلِ عام جاری ہے۔ اور ‘زندہ قوم’ کا مردہ ضمیر ہے کہ جاگنے کا نام نہیں لیتا۔ مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ ہر شخص جو اس ریاست کا شہری ہے، اس کی جان کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مذہب اور فرقے کا اس بات سے تعلق نہیں کہ اس کو کیا حقوق حاصل ہوں گے۔

لیجئے یہ لٹمس ٹیسٹ ہے ہماری سوسائٹی کا۔ یہ تو اقلیت بھی نہیں۔ یہ ہم میں سے ہیں۔ کیا پوری قوم ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ کھڑی ہو گی؟ کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان ایک دن ان مظلوموں کے ساتھ گزاریں گے؟ کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہسپتالوں میں جا کر زخمیوں کی عیادت کریں گے؟ کیا ہزارہ کمیونٹی کے کسی عالم یا لیڈر کو بلوچستان اسمبلی میں خطاب کی دعوت دی جائے گی؟ کیا مجرم پکڑے جائیں گے؟ کیا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بلوچستان ہزارہ کمیونٹی کا روایتی لباس پہن کر شہید ہونے والوں کی آخری رسومات میں شریک ہوں گے؟

اگر نہیں تو پھر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم اور کمیونٹٰی کا ڈھنڈورا پیٹنا بند کیجئے اور زندہ قوم کی گردان کرنے پر پابندی لگا دیجئے اور یقین کر لیجئے کہ نیوزی لینڈ والوں کا اسلام اور تھا، ہمارا اسلام اور ہے۔ کرائسٹ چرچ میں مرنے والے شہید تھے، کوئٹہ میں مرنے والے ہلاک کہلائیں گے۔ کرائسٹ چرچ کا جمعہ اور تھا، کوئٹہ کا جمعہ اور ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments