بچہ جننے پر اختیار کا مالک کون؟


جنگلوں سے ہجرت ہوئی، بستیاں آباد ہوئیں۔ حضرت انسان نے وحشی پن کم کیا، شکار کرنا باقی تو رہا پر زمین سے رزق اگانا بھی سیکھا۔ زندگی کی بقا کی دوڑ میں گھر ایک اکائی بنا اور گھریلو لوازمات وجود میں آئے۔

کھیتی باڑی، زراعت، گھریلو ضروریات نے مویشی پالنا سکھایا۔ اپنی جان کے ساتھ ساتھ جانوروں کی بقا بھی مقدم ٹہری کہ وقت کی ضرورت تھی۔ کچھ جانوروں سے ریوڑ کیسے بنتا ہے، یہ بھی جان لیا۔ فطرت، وقت، زندگی اور حالات کی ضرورت کے تحت افزایش نسل شروع ہوئی، گھر کے اندر بھی اور باہر مویشی باڑے میں بھی۔

ساتھ ہی ساتھ ملکیت کا تصور ابھرا، گھر کے اندر بھی اور باہر بھی۔ باڑے میں بھیڑ، بکریاں، گائیں، بھینسیں اور گھر میں رہنے والی عورتیں بیویاں، بیٹیاں اور بہنیں۔

سو مزاج کچھ یوں بنا کہ کس گائے نے بچہ کب دینا ہے، کس بھینس کا حمل کب ٹھہرنا ہے، کس اونٹنی کا دودھ کب چھڑوانا ہے، بکریوں سے کب تک بچے پیدا کروانے ہیں اور کب زبح کرنا ہے۔

اور گھر کے اندر بیوی نے سال بہ سال حاملہ ہونا ہے۔ بیٹیوں اور بہنوں کو کب اگلے مرد کے حوالے کرنا ہے۔ زبان والیوں کو بے زبان ہی رکھنا ہے۔ یہ سب اختیار مرد نے زندگی کی دوڑ میں سیکھا اور اختیار کر لیا۔

گھر کے باہر بے زبان مخلوق تھی جس کو کائنات میں عقل اور اختیار کے بغیر اتارا گیا تھا اور اس کا مقصد کائنات کی نمو تھا۔ گھر کے اندر والی مخلوق کے پاس عقل بھی تھی، اور زبان بھی، اور رب کی طرف سے اختیار بھی۔ مگر نیرنگئ وقت دیکھیے کہ زبان سلب کر لی گئی، عقل اور اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ طاقت کا محور مرد تھا۔

میں 25  سال سے حاملہ خواتین دیکھ رہی ہوں۔  زرد مدقوق جھلسے چہرے، کمزور جسم، لڑکھڑاتے قدم، بڑھتی عمر، بے روح آنکھیں۔ جسم میں خون کی بوند نہیں کہ گھر میں کھانے کو نہیں۔

پانچواں، چھٹا، ساتواں یا آٹھواں حمل، اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، ذیابیطس، بلڈ پریشر، خون کی کمی، ہارٹ پرابلمز اور زچگی کے دوران زیادہ خون بہہ جانے سے موت۔

” بی بی! آپ کو اس بچے کی ضرورت ہے “

” نہیں جی “

“خاوند کیا کرتا ہے”

“مزدوری جی “

“پچھلے بچے کیا کرتے ہیں “

“کچھ نہیں جی”

“پڑھتے ہیں “

“نہیں جی! ہمارے پاس پیسے ہی نہیں ہیں جی”

“تو بی بی! بچے بند کیوں نہیں کرواتیں “

„وہ جی میرا خاوند نہیں مانتا”

کچھ سال پہلے تک جب مولویوں نے پاکستانی معاشرے کو یرغمال نہیں بنایا تھا، مرد کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ احساس ملکیت اتنا قوی تھا کہ اس فیصلے میں عورت کی گرتی صحت کا خیال کرنا، معاشی زبوں حالی کا ادراک کرنا اور عورت کو اس فیصلے میں شریک کرنا اپنی مردانگی پہ چوٹ اور مالک کے مقام کے منافی تھا۔ سو ڈاکٹروں کے سوالوں کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کرتے مرد تھے۔

اللہ بھلا کرے مولوی حضرات کا، جنہوں نے معاشرے کے مردوں کے دماغ میں ایسی چندھیا دینے والی روشنی پہنچائی اور خاص طور پہ وہ مقام جہاں مردوں کے پر جلتے تھے۔

 طاقت کا نشہ یہی تو ہے کہ زیردست، بےچارگی سے آپ کی طرف دیکھے اور آپ فیصلے کی طنابیں اپنے ہاتھ میں رکھیں۔

کبھی کبھی یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ شوہر کا جواب کیا ہو گا۔ دل چاہتا ہے کہ حجت تمام کی جائے اور خاوند کو بلا کر اس سے پوچھا جائے

” آپ کیا کام کرتے ہو “

“مزدوری جی”

“کتنا کما لیتے ہو”

“کچھ زیادہ نہیں “

“اچھا! اب اتنے بہت سے بچے تو ہو گئے اور تمہاری بیوی کی صحت بھی بہت خراب ہے تو حمل ہونا بند کیوں نہیں کروا لیتے”

یہ سنتے ہی شوہر اچھلتا ہے، منہ لال کر کے ہمیں گھورتا ہے، دل ہی دل میں خبیث عورت سمجھتے ہوۓ چار گالیاں سناتا ہے اور ہمیں کافر جانتے ہوئے گویا ہوتا ہے

“نہیں جی نہیں، یہ خلاف اسلام ہے، گناہ ہے “

ہم ایک کوشش اور کرتے ہیں

” سنو! حمل گرانا منع ہے لیکن حمل سے بچنا گناہ نہیں ہے اور پھر پہلے ہی اتنی غربت ہے “

“نہیں جی نہیں! رزق تو اللہ کا وعدہ ہے، ہر پیدا ہونے والا اپنا رزق خود لائے گا “

اب تک ہم پیچ وتاب کھا چکے ہوتے ہیں۔

یہ ہے وہ صورت حال جو ستر سے اسی فیصد عورتوں کو درپیش ہے۔

اللہ کا وعدہ، رزق، حرام و حلال سب عورت کے نصیب کی باتیں۔

 اللہ نے سوچنے کا کہا ہے اس سے ہمیں کیا مطلب ۔ اللہ نے علم حاصل کرنا فرض کیا تو وہ ذرا مشکل کام ہے۔ اللہ نے کائنات تسخیر کرنے کا کہا تو وہ بھی نہیں ہو سکتا۔ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے وہ تو اوڑھنا بچھونا ٹھہرا ۔ نصف ایمان تو ویسے ہی گنوا بیٹھے ہیں کہ صفائی سے کوئی تعلق نہیں ۔

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سب مذہب سے محبت نہیں، مذہب کی آڑ میں صدیوں سے کھیلا جانے والا وہی کھیل ہے جس میں طاقت کا حصول اصل ضرورت ہے، کہ طاقت نشہ ہے، سرور ہے، اختیار ہے مردانگی کا ۔

اور چوپال میں بیٹھ کے مردانگی ثابت کرنےکا بہترین طریقہ یہی تو ہے کہ ہر سال مونچھوں پہ تاؤ دیتے ہوۓ اعلان کیا جاۓ کہ اب کے برس پھر اللہ نے کرم کیا ہے، بس ماں کی جان چلی گئی۔ اللہ کی چیز تھی، اللہ نے واپس لے لی۔ کیا کریں، اوپر والے پہ کوئی زور تو ہے نہیں۔

اور میرا ہر حاملہ عورت دیکھ کے دل چاہتا ہے، چیخ چیخ کے کہوں

ارے مردودو، رحم کر دو، کہ اس جاں بلب میں اب اپنا وزن اٹھانے کی سکت نہیں۔ اب کے تمہاری ایک اور کمزور، مصنوعی مردانگی اسے لے ڈوبے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).