یہ کس کی حکومت ہے؟


پاکستان میں آئین کی رو سے اس وقت عوام کی حکومت ہے۔ جمہوریت پارلیمانی ہو یا پھر صدارتی شکل میں ہو لیکن اس کا مرکزی کردار عوام ہی ہوتے ہیں اور جمہوریت کے ذریعے عوامی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے اور بظاہر جمہوریت کا تصور ایک فلاحی ریاست کے تصور کو اجاگر کرتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اس لئے سابقہ حکومتوں سے زیادہ مختلف ہے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے سے پہلے دیگر جماعتوں کی نسبت زیادہ بلند وبانگ دعوے کیے۔ سابقہ حکومتیں صرف فلاحی ریاست اور عوام کی فلاح کے دعوؤوں تک محدود رہیں لیکن پی ٹی آئی نے بڑی چھلانگ لگاتے ہوئے ریاست مدینہ کے نقش قدم پر چلنے کا اعلان سینکڑوں بار کیا اور فلاحی ریاست کا نعرہ بھی اسی شدت سے سنایا گیا۔

موجودہ حکومت نے جس شدت کے ساتھ وعدے کیے تھے کہ عوام کی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا جائے گا اسی شدت کے ساتھ عوام کی زندگی میں حشر برپا کیا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا وعدہ تھا کہ اقتدار ملتے ہی خوشحالی کی کنجی ہاتھ آ جائے گی مگر اب کہا جا رہا ہے کہ خوشحالی کا دروازہ کھولنے میں دو تین سال درکار ہیں۔ عام استعمال کی اشیاء سے لے کر خاص استعمال کے لئے مارکیٹ میں موجود چیزیں خوفناک حد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔ ماضی میں کسی بھی حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اس قدر نہیں ڈالا جتنا اس ”عوامی“ حکومت نے ڈال دیا ہے۔ پٹرول کی قیمتیں پی ٹی آئی کے اکابرین 45 روپے فی لیٹر کرنے کے دعوے کیا کرتے تھے اور خود پٹرول کو 100 روپے فی لیٹر فروخت کر رہے ہیں۔

اسی طرح ڈالر پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں اپنے بلند ترین مقام پر اسی حکومت کے دور میں پہنچا ہے۔ موجودہ حکومت میں یا تو وزیر خزانہ اسد عمر کا قد بلند ہوا یا پھر مہنگائی، ڈالر اور ٹیکسوں کا قد بڑھا ہے۔ آٹھ ماہ پہلے سونے کی قیمت 50 ہزار روپے فی تولہ کے لگ بھگ تھی اور اب 70 ہزار روپے فی تولہ کو عبور کر چکی ہے اور یہ بات کہنے اور لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ موجودہ حکومت نے سابقہ حکومتوں کی نسبت عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے مکمل طور پر دفن کر دیا ہے اور اس ملبے تلے دبے ہوئے عوام کی آہیں بھی سنائی نہیں دے رہیں۔ اس کے باوجود حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ عوام کی حکومت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین پاکستان بھی کہہ رہا ہے کہ یہ عوام کی حکومت ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی قیادت پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ موجودہ حکمران عوام کے ذریعے نہیں بلکہ ”خواص“ کے ذریعے آئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا واضح مؤقف رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو جس طرح سے اقتدار میں لایا گیا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کا مؤقف اس لئے بھی وزن رکھتا ہے کہ گزشتہ چالیس برس سے وہ خود بھی انہی راستوں کے مسافر رہے ہیں ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ مقتدر قوتیں پارٹیوں کو اقتدار میں کیسے لاتی ہیں اور پھر ”مجھے کیوں نکالا“ کا راگ الاپنے پر کون مجبور کر دیتا ہے؟

گویا ان کی مراد یہ ہے کہ یہ عوام کی حکومت نہیں ہے بلکہ مقتدر قوت کوئی اور ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کا مؤقف بھی مسلم لیگ (ن) سے تقریباً ہم وزن ہے۔ پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان الیکشن کے ذریعے نہیں بلکہ سلیکشن کے ذریعے آئے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی کسی کا نام لئے بغیر یہی مؤقف رکھتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کی ڈوریاں بھی کہیں اور سے ہی ہلتی ہیں۔

مولانا فضل الرحمن مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی کے اتحادی اور حامی ہیں لیکن کھلم کھلا مقتدر قوت کا نام اس لئے نہیں لیتے کیونکہ موصوف خود بھی ان سے بھرپور استفادہ کرنے میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور طویل عرصہ کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کو واقعی اپوزیشن کے گرم حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وگرنہ مولانا فضل الرحمٰن گزشتہ 20 سال سے ہر حکومت کے اسی طرح حصہ دار تصور کیے جاتے تھے جیسے قربانی کے جانور کی کھال مدرسوں کو جاتی ہے۔

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے اور بجلی و گیس کے بل قیامت ڈھا رہے ہیں ان برے حالات میں سب کچھ مولانا فضل الرحمٰن کو اپنی جیب سے برداشت کرنا پڑ رہا ہے وگرنہ ان کے لئے سرکار کی جیب ہی ہمیشہ پیش پیش رہی ہے۔ غرضیکہ تمام اپوزیشن جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ پی ٹی آئی کو اقتدار کی منزل تک اسٹیبلشمنٹ نے پہنچایا ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے اس کی کبھی کھل کر تردید بھی نہیں کی اس لئے یہ مضبوط تاثر قائم ہے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی حکومت قائم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام سیاستدانوں سے بھی محبت کرتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے بھی امیدیں لگائے رکھتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ الگ ہو سکتی ہے مگر اس دعوے سے دونوں دستبردار نہیں ہو سکتے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کیا جائے۔

عوام کے حقوق کا تحفظ نہ کرنے والے اس آئین پاکستان سے ”بوس و کنار“ کیا جائے یا پھر پامالی کا ارادہ کیاجائے۔ یہ کیسا آئین ہے اور کیسی پارلیمنٹ ہے کہ عوام کو مسلسل کچلا جا رہا ہے اگر یہ عوام کی حکومت ہوتی پھر اشرافیہ معتبر نہ ہوتے بلکہ عوام کے تابعدار ہوتے اور اگر یہ واقعی عوام کی حکومت ہوتی ان کا پیسہ لوٹنے والے محلات میں عیاشیاں نہ کر رہے ہوتے بلکہ عوام کی عدالت میں مجرم بن کر کھڑے ہوتے اور اگر حقیقتاً یہ عوام کی ہی حکومت ہوتی تو پھر ملک کی آئینی عدالتیں صرف شرفاء اور نام نہاد ”عزت داروں“ کو انصاف نہ فراہم کر رہی ہوتیں بلکہ عوام کو اس کی دہلیز پر انصاف مل رہا ہوتا مگر عوام کی دہلیز پر تو موت اور دہشت دستک دے رہی ہے۔ کچھ عرصے پہلے ”اسحاقی“ فارمولے عوام کے لئے جان لیوا ثابت ہورہے تھے اور اب ”اسدی“ معاشی نسخے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔

مقتدر قوت اگر عوام ہوتی تو حکمرانوں کے سمندر پار محلات نہ ہوتے بلکہ لٹیرے سمندر میں غرق ہو چکے ہوتے اور جائیدادیں عوام کی حکومت ضبط کر چکی ہوتی۔ مگر نہ تو یہ عوام کی حکومت ہے اور نہ ہی عوام کی اپوزیشن ہے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہاں تو سب کے سب قطار اندر قطار عوام کا خون چوسنے کے لئے اپنی باریاں لگائے ہوئے ہیں۔ عوام کو سوچنا ہو گا کہ ان کا نام لے کر مسلسل کون لوٹ رہا ہے اور عوام کو اس نکتے پر بارہا مرتبہ غور کرنا ہوگا کہ جب وہ بے اختیار، مجبور اور لاچار ہیں تو پھر با اختیار کون ہے؟ عوام کے نام پر کون حکومت کر رہا ہے اور یہ کس کی حکومت ہے؟ یہی سوال عوامی انقلاب کی بنیاد ہوگا۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat