دیندار حجام اور جماعت اسلامی کے نئے امیر کی داڑھی


جماعت اسلامی ہند کے نئے امیر سید سعادت اللہ حسینی کے منصب سنبھالتے ہی بہت سوں کے اندر چھپا حجام باہرنکل آیا اور داڑھیاں ناپی جانے لگیں۔ رخصت ہونے والے امیر کے مقابلے نو منتخب امیر کی داڑھی اور عمر دونوں کم ہیں اس لئے معترضین کو دونوں معاملات پر تنقید کا موقع مل گیا۔ ان سب دوستوں کے جذبات اور ان کے اندر لپک مار رہی شریعت کی لپٹ اپنی جگہ لیکن ان حضرات کو ذرا اپنی اپنی والی جماعتوں کے حالات پر غور کرنا چاہیے۔

ہو سکتا ہے لمبی داڑھی اسلام کی نظر میں زیادہ پسندیدہ ہو لیکن دیگر ملی تنظیموں میں لمبی داڑھیوں کے درمیان جو وارداتیں انجام پا رہی ہیں ان کو کسی بھی دلیل سے اسلام کی نظر میں پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی کے علاوہ آپ کتنی ملی تنظیموں کے نام گنا سکتے ہیں جہاں سربراہ کا منصب موروثی بادشاہت نہ بن گیا ہو؟

جماعت اسلامی جیسی ملک گیر جماعت میں تواتر سے امیر کا بدلا جانا اور کسی ایک مخصوص کنبے کے بجائے شورائی نظام کے تحت کسی بھی عام رکن کو سربراہ بنا دینا ایک ایسی بات ہے جو زیادہ تر ملی جماعتوں میں ناپید ہے۔ ملی جماعتیں ہی کیا مدارس کے ذمہ داران کے عہدے بھی جاگیروں کی طرح اولاد میں بٹ جاتے ہیں۔

اس سچ کو بول دینے پر میری زبان تو نہیں کھینچ لی جائے گی کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ میں پچھلی کئی دہائیوں سے صدارت کے منصب پر مخصوص ماموں اور ان کے مخصوص بھانجے ہی کیوں جلوہ افروز ہیں؟ بورڈ میں ہر مسلک کے بڑے بڑے علماء موجود ہیں پھر ان دونوں صاحبان میں وہ کون سی صفت ہے جس سے یہ سارے علماء محروم ہیں؟

کوئی صاحب بتانے کی زحمت فرمائیں گے کہ جمعیت علمائے ہند پر مولانا حسین احمد مدنی کی آل اولاد کی ہی اجارہ داری کیوں ہونی چاہیے؟ اگر یہ واقعی ہندوستان کے علماء کی جمعیت ہے تو اس کے ذمہ دار مولانا ارشد مدنی یا ان کے بھتیجے مولانا محمود مدنی ہی کیوں بنیں گے؟

کسی میں کلیجہ ہے جو بتائے کہ شیعہ پرسنل لا بورڈ مولانا محمد اطہر کے بعد ان کے بھائی مولانا محمد اشفاق اور بیٹے مولانا یعسوب عباس کو کیوں ملا؟ ان کے علاوہ کوئی شیعہ مولوی اس لائق نہ تھا؟

کوئی بتانا چاہے گا کہ جمعیت اہل حدیث کی امارت کے لئے برسراقتدار امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی کے سامنے کوئی امیدواری کی ہمت کرتا ہی نہیں، اور جو کوئی کرتا بھی ہے تو کہنے والے یہاں تک کہتے ہیں کہ اسے کوٹ دیا جاتا ہے؟

کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ فی سبیل اللہ دین کی خدمت کی بات کرنے والی تبلیغی جماعت پر قبضہ کے لئے دو گروپ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور جب کبھی بات زیادہ بڑھتی ہے تو بندوقیں تک نکل آتی ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ اس ملک کے زیادہ تر مدارس کے بانیان دم نکلنے تک اس پر حاکم کی طرح مسلط رہتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد بچے یا داماد یا بھانجے بھتیجے اس میراث کو بانٹ لیتے ہیں؟

کیا بریلویوں کے اندر امام احمد رضا فاضل بریلوی کے خاندان کے علاوہ کوئی صاحب علم، متقی اور منتظم نہیں ہے! لیکن کسی کے اندر یہ بوتا نہیں کہ وہ اعلی حضرت کے کسی علمی اور مذہبی منصبوں کو حاصل کر سکے۔ بیٹا کتنا ہی بدقماش اور بے دین کیوں نہ ہو منصب سجادگی انھیں کو عطا ہوگی۔

ایسے حالات میں اگر کوئی اتنی بڑی جماعت خاموشی سے قیادت میں تبدیلی کر دیتی ہو اور جہاں لاٹھیوں کے زور پر گدی حاصل نہیں کی جا رہی ہو۔ اس جماعت کے امیر کی داڑھی ناپنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر دیکھنا چاہیے۔

جماعت اسلامی میں بہت سی کمیاں ہو سکتی ہیں۔ میں خود جماعت کی بہت سی باتوں پر اعتراض کر چکا ہوں لیکن قیادت کے معاملے میں اس کے یہاں جو جمہوری اور اسلامی جذبہ موجود ہے اس کی مثال مشکل ہے۔

جماعت پر اعتراض کیجئے لیکن یہ سوچ لیجیے کہ جس بات کو کیڑے نکالنے کا بہانہ بنایا جا رہا ہے اس سے زیادہ غلاظت ہم خود تو نہیں ڈھو رہے ہیں؟ نئے امیر جماعت سے امید ہے کہ وہ اتحاد بین المسلمین پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اتحاد جماعت کے بنیادی مقاصد میں شامل رہا ہے لیکن افسوس کہ گذشتہ کچھ عرصہ سے جماعت نے اس طرف زیادہ سرگرمی نہیں دکھائی۔ نئے امیر کو اپنا لائحہ عمل سامنے رکھنا چاہیے اور لوگوں کو چاہیے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے کام کو دیکھیں اور پھر کوئی حکم لگائیں

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah