لوگوں کی گنتی پوری کرنے کا طریقہ


ہم انسان، بہت تیزی سے ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے اس دور میں ایک سست زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شاید ہماری سوچ کی رفتار اس زمانے کی رفتار سے بہت سست ہے یا پھر ہم اس زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے کے لئے آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اپنی تجزیہ کرنے صلاحیتوں کو بھی پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔

اس تیزی کے دور میں ہم نے دیکھا ہے کہ بہت سی ایجادات ہوئیں اور غائب ہو گئیں۔ ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جو دنیا میں عام ہونے سے پہلے ہی پرانی ہوگئیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو عام تو ہوئیں پر اپنی افادیت کی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی اور چیز سے تبدیل ہو گئیں۔ یہ عمل صرف ایجادات کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ اس دور میں بہت سے نئے نظام بنے، بہت سی نئی تکنیکیں بنائی گئیں، جن کو جہاں موقع ملا ٹیسٹ کیا گیا۔ اس تیزی میں دوسروں سے بازی لی جانے کے لئے تیزی میں بنائے گئے یہ نظام اور تکنیکوں کو آدھا ادھورا لاگو کر کے ٹیسٹ کرنے کی وجہ سے بہت سے نظام اپنی افادیت کی سطح کو نہ پہنچ سکے۔

لیکن جو ٹیکنیک سب سے کامیاب رہی وہ لوگوں کی گنتی کی ہے۔ شاید یہ ٹیکنیک بہت پرانی ہے پر اس کا استعمال اس دور میں بھر پور طریق سے ہو رہا ہے۔ کسی بھی چیز کی اچھائی برائی کو ماپنے کے لئے لوگوں کی گنتی کی جاتی ہے کی پسند کرنے والے کتنے ہیں اور ناپسند کرنے والے کتنے ہیں اور بعض دفعہ صرف پسند کرنے والوں سے ہی کام چل جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیکنیک میں یہ آسانی بھی ہے کہ کسی بھی چیز کو اچھا یا برا کہنے والوں کی اس چیز کے بارے میں معلومات اور اس کے استعمال پر عبور وغیرہ جیسے کسی بھی تجزیہ کی ضرورت نہیں۔ بس گنتی پوری کرنے سے کام بہت اچھے سے ہو جاتا ہے۔

اسہی گنتی کے کھیل کی وجہ سے اب کسی بھی معاملے کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے اس کی گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں ہے بس کچھ کرارے سے سلوگنز بنالو اور سوشل میڈیا، ٹی وی پروگراموں اور اخبارات میں ان کی گردان شروع کر دو اور لاکھوں لوگ ان کرارے جملوں کے پیچھے دوڑے چلے آئیں گے۔ لبیک یا رسول اللہ سے میرا جسم میری مرضی تک اور روٹی کپڑا مکان سے لے کر ووٹ کو عزت دو تک سب یہی کہانی ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ مارکٹنگ کے طلبہ کو اسی طرح کہ ون لائنرز بنانے کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔

ان تمام کرارے جملوں میں چھپی وہ اصل بات جس کو جاننا کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لئے انتہائی ضروری ہے اس کی جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں نتائج حاصل کرنے کی جلدی اور بے صبری پیدا ہوتی ہے۔ اور جلد نتائج نہ ملنے کی وجہ اپنے ہی کھڑے کیے نظام کے خلاف کھڑے ہو جاتی ہیں۔ اور اسہی صورتحال سے بچنے کے لئے انتظامیہ دکھاوے کے کاموں پر زیادہ زور دے کر لوگوں کی توقعات کو دبائے رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔

لیکن بین الاقوامی سطح پر جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے متوقع نتائج نہیں برآمد ہورہے اور ناکامی کی سی صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے اس وقت سے کچھ جمود کی سی کیفیت ہے۔ اب دیکھنے میں آرہا ہے کہ اس وقت نئے کی طرف جانے بجائے پہلے سے بنی ہوئی چیزوں کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور اس بہتری کے لئے اس وقت لاگو نظام کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اور اگر لوگوں کی گنتی کے نظام کا تجزیہ کیا جائے تو عالمی منظرنامہ پر حال ہی میں برآمد شدہ نتائج میں ڈانلڈ ٹرمپ کا امریکہ کا صدر بننا، بھارت میں مودی کا وزیراعظم بننا، اور انگلستان کا یورپ سے علیحدگی کا ریفرینڈم شامل ہیں جب کہ چھوٹے پیمانے پر ٹی وی پروگراموں کا ریٹنگ کا نظام، فیس بک پر لائکس اور یو ٹیوب پر ویوز، مختلف پول اور سروے شامل ہیں۔ ان سب کو اس وقت دنیا میں زیادہ اچھی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا اور لوگ ان نتائج سے خوش نہیں ہیں۔

اب وقت ہے کہ ہم ذرا ٹھہریں اور ماضی میں کی گئی غلطیوں کا جائزہ لیں اور جو قصور وار ہیں ان کو قصوروار ٹھہرایا جائے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ حال پر ماضی کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ حال مستقبل کا دروازہ ہے اس پر ماضی کا تالا نہیں لگانا چاہیے۔ حال میں کھل کر کام کرنے کی پوری گنجائش ہونی چاہیے۔ اسہی طرح آگے بڑھنے کا راستہ بنایا جا سکتا ہے۔ اعتبار اور سوچ کی آزادی سے ذمہ داروں کے لئے ذمہ داری نبھانے میں آسانی ہو گی۔ ایسے نظام زیادہ پائیدار ہوتے ہیں جن میں باگ ڈور نئے لوگوں کو دینے کا بہتر طریق موجود ہو اور ورنہ جانوروں کی لڑائی میں تجربہ سے زیادہ طاقت جیت جاتی ہے۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).