ہزارہ حملہ: بوریا بستر لپیٹو اور نیوزی لینڈ چلو


جمعے کا دن مسلمانوں میں بہت مبارک تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم اب یہ بس خوف کی علامت ہے۔ جمعہ اور اجتماع لازم و ملزوم ہیں اور ملکِ عزیز میں اجتماع ہو اور دنگا فساد نہ ہو یہ اب نا ممکن سا لگتا ہے۔

اس جمعہ ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ ان پر پہلا حملہ نہیں تھا۔ ماضی میں بھی ہزارہ برادری کو بے دردی سے قتل کیا جاتا رہا ہے۔ کچھ سال پہلے بھی ہزارہ اپنے پیاروں کی لاشیں رکھے احتجاج کر رہے تھے اور آج بھی یہ سڑک بند کیے حکومتِ وقت کو پکار رہے ہیں۔

یہاں کے سبزی اور پھل فروش روزانہ ایف سی اور پولیس اہلکاروں کی حفاظت میں سامان خریدنے ہزار گنجی کی سبزی منڈی جاتے ہیں۔ گذشتہ جمعہ جب یہ سبزی منڈی میں اپنے روزمرہ کے کام میں مصروف تھے، اچانک دھماکہ ہوا اور ہر طرف خون پھیل گیا۔ جیسے ہی خبر پھیلی، رٹے رٹائے مذمتی بیانات جاری ہونے لگے۔

ہم صحافیوں نے بھی کسی ایسے ہی حملے پر لکھے گئے پرانے کالم دوبارہ سے اشاعت کے لیے بھیج دیے کہ حملہ نیا تھا، نوحہ وہی پرانا۔

کچھ کو کرائسٹ چرچ کا حملہ یاد آنے لگا۔ ہمیں ان کی وہ وزیرِ اعظم بھی یاد آئیں جو دوپٹہ اوڑھ کر مسلمانوں سے ان کا غم بانٹنے پہنچ گئیں۔ ہمیں ہالینڈ کے وزیرِ اعظم کی مثالیں دینے والے محض دو ٹویٹس ہی کر سکے۔

اس حملے کے بعد نیوزی لینڈ کے لوگوں نے انسانیت کی جو مثال قائم کی، ہم بطورِ قوم اس کی پیروی بھی نہ کر سکے۔
کسی نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں کئی سالوں میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ ہوا تھا۔ ہمارے ہاں تو اب یہ عام سی بات ہو گئی ہے۔ ہر دس پندرہ دن بعد کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا ہے، کچھ لوگ شہید ہوتے ہیں، کچھ جاں بحق تو کچھ زخمی۔ ہر وزیر کی جیب میں ایک عدد مذمتی بیان پڑا ہوتا ہے۔ جہاں خبر ملی، وہاں پرچی نکالی، چہرے پر دکھ بھرے تاثرات لا کر بیان پڑھا اور پرچی لپیٹ کر پھر سے جیب میں رکھ لی۔

رہ گئے ہزارہ تو ان کا تو ہر وقت کا یہی رونا ہے۔ کہتے ہیں ہمیں سیکیورٹی فراہم کرو۔ اب تو ان کے ساتھ ایف سی اور پولیس کی گاڑیاں چلتی ہیں پھر بھی غیر محفوظ ہونے کا رونا روتے ہیں۔ ملک میں سکیورٹی چیک کرنی ہو تو سنتھیا کی پشاور کی گلیوں میں سائیکل چلاتے ہوئے تصویر دیکھ لو۔ ڈریو بنسکی کی ویڈیوز دیکھ لو۔ محفوظ تو ہے پاکستان۔

حملے سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دینے ڈی آئی جی کوئٹہ عبدالرزاق چیمہ صاحب تشریف لائے۔ کہنے لگے کچھ روز پہلے انہیں ایسے حملے کے متعلق سکیورٹی الرٹ ملی تھی جس کے بعد علاقے کے تمام اہم مقامات پر سکیورٹی بڑھا دی گئی تھی۔ ہزار گنجی میں ایسا کوئی واقعہ ہوگا اس کا تو انہیں خیال بھی نہیں آیا۔

میڈیا بریفنگ کے دوران انہوں نے یہ بھی کہا کہ سکیورٹی فورسز یہاں ہیں، پولیس یہاں ہے، اس سے زیادہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں یہاں لاتے اور لے جاتے ہیں۔ اگر کوئی چیز دکان میں چھپی ہوئی ہے تو دکانداروں سے پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔

اس بیان کے بعد بھی اگر کوئی اس حکومت اور اس کے سرپرستوں سے کسی اچھائی امید رکھتا ہے تو ہمیں اس شخص سے ہمدردی ہے۔

ہم نے اب تک یہ دیکھا ہے کہ ہزارہ اپنی زندگی بچانے کے لیے یا تو احتجاج کرتے ہیں یا کسی ملک میں امیگریشن کرا لیتے ہیں۔ احتجاج سے تو اب تک ان کا کچھ نہیں بنا۔ یہ سڑکیں بند کرتے ہیں، حکومت سے اپیل کرتے ہیں۔ اس سے الٹا ملک کا مقصان ہی ہوتا ہے۔
اپنا تو یہی مشورہ ہے کہ بھائیو، زندہ رہنا ہے تو بوریا بستر لپیٹو اور نیوزی لینڈ چلو۔ اس ملک میں رہنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).