حزب اختلاف کی سیاست کا المیہ


قومی سیاست کی ہمیشہ سے یہ بدقسمتی رہی ہے کہ اسے نہ تو اچھی حکمرانی مل سکی اور نہ ہی اچھی حزب اختلاف۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری قومی اور جمہوری سیاست جمہوری اصولوں کے مطابق نہیں چل سکی۔ اچھی حکومت سے مراد ایک ایسی حکمرانی ہوتی ہے جو عوامی مفاد کو سامنے رکھ کر اپنی سیاسی، سماجی او رمعاشی ترجیحات کا تعین کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک او راہم ترجیح شفافیت، جوابدہی کا ایسا نظام وضع کرنا ہوتا ہے جو ان کی حکمرانی کے نظام کو موثر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

حکومت کے مقابلے میں حزب اختلاف کا کردار ایک متبادل حکومت کا ہوتا ہے۔ یہ حزب اختلاف خود کو عوام کے سامنے ایک متبادل حکومت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس کے لیے شیڈو کابینہ بنائی جاتی ہے جس کا مقصد حکومتی وزرا او رحکومت کی نگرانی کے نظام کو وضع کرنا ہوتاہے۔ اسی طرح حزب اختلاف ایک دباؤ یا مزاحمت کی سیاست کی مدد سے حکومت پر دباؤ کو بڑھاتی ہے تاکہ اس کی سمت درست طور پر آگے بڑھ سکے۔

لیکن پاکستان میں حکمرانی اور حزب اختلاف دونوں کا کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں لوگ نہ تو حکومت سے خوش ہیں او رنہ ہی حزب اختلاف کی سیاست سے۔ سب ہی جذباتیت پر مبنی سیاست کرکے عملا سب کو سیاسی گمراہی میں رکھنا چاہتے ہیں۔ قومی مسائل پر مبنی سیاست کا ایجنڈا پیچھے اور ذاتیات پر مبنی مسائل جن کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ قومی سیاست کا اہم ایجنڈا بن جاتا ہے۔ سیاست دان ہو ں یا سیاسی جماعتیں یا اہل دانش سب ہی میڈیا کے محاذ پر نان ایشوز پر سیاست کرنا اپنی ترجیح سمجھتے ہیں۔ یہ کام بلاوجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا پیچھے اصل مقصد لوگوں کو غیر اہم مسائل میں الجھانا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو طاقت فراہم کرسکیں۔

اس وقت پاکستانی حزب اختلاف کی سیاست کے تین اہم فریق ہیں۔ اول آصف علی زرداری، بلاول بھٹودوئم نواز شریف اور شہباز شریف، سوئم مولانا فضل الرحمن۔ یہ تینوں سیاسی جماعتیں او ران کی قیادت اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کے سخت ناقد ہیں۔ اس تنقید کی بڑی وجہ محض حکومت کی کارکردگی میں ناکامی ہی نہیں بلکہ وہ اس حکومت او راس کے مینڈیٹ کو ہی قبول کرنے بجائے اسے جعلی مینڈیٹ یا پس پردہ قوتوں کے مرہون منت قرار دیتے ہیں۔

ان کے بقول وزیر اعظم عمران خان عوام کا منتخب وزیر اعظم نہیں بلکہ وہ کھل کر اسے سلیکٹیڈ وزیر اعظم کا سیاسی طعنہ دیتے ہیں۔ سیاست اس وقت بند گلی میں داخل ہوجاتی ہے جب ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو ہی قبول کرنے سے کوئی بھی فریق انکار کردے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو انتخابات کے فوری بعد حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن کو یہ ہی مشورہ دیا کہ وہ پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے سیاسی لنگوٹ کس کر سیاسی میدان میں کودیں اور حکومت کو قبول کرنے سے ان کا ر اور نئے انتخابات کا مطالبہ کریں، لیکن پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن دونوں نے مولانا فضل الرحمن کے مشورہ کو قبول نہ کرکے مفاہمت کی سیاست کا راستہ اختیار کرکے مولانا کو مایوس کیا۔

تحریک چلانا یا مزاحمت کی سیاست کرنا حزب اختلاف کا بنیادی سیاسی او رجمہوری حق ہے۔ وہ جب چاہیں اس حق کو استعمال کرکے حکومت کے لیے مشکل پیدا کرسکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ تحریک کی بنیاد کیا ہوگی۔ کیا مقصد حکومت کا خاتمہ کرنا او رنئے انتخابات کا راستہ ہموار کرنا ہے یا حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنے لیے سیاسی محاذ پر کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر فائدہ حاصل کرنا ہے۔ اس وقت المیہ یہ ہے کہ اگر آپ دیانت داری سے جائز ہ لیں تو حزب اختلاف کی مجموعی سیاست احتساب کے نظام سے جڑی ہوئی ہے۔

ان کے بقول احتساب جعلی ہے او رہمیں انتقام کا نشانہ بنانا ہے۔ وہ اس احتساب کے عمل کو عملی طور پر اسٹیبلیشمنٹ، عدلیہ، نیب اور حکومت گٹھ جوڑ کہتی ہے۔ جب بھی احتساب کی بات کی جائے تو جمہوریت اور سیاسی نظام کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں او راسی وجہ سے احتساب کا نظام متنازعہ بن گیا ہے اور خود حکومت کو اس صورتحال میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ کارڈ، مسلم لیگ ن احتساب کی بنیاد پر اور مولانا فضل الرحمن یہود و ہندو کا ایجنڈے سمیت حکومتی کارکردگی کی ناکامی پر عمران خان حکومت کے خلاف تحریک چلانا چاہتے ہیں۔ پچھلے دنوں مولانافضل الرحمن کی نواز شریف او رآصف زرداری سے ملاقات کا مقصد بھی مشترکہ حزب اختلاف او رحکومت مخالف تحریک ہی تھا۔ لیکن ابھی لگتا ہے کہ نواز شریف، زرداری یا کوئی او رفریق ذہنی طور پر کسی بڑی تحریک چلانے کی بجائے ایک ایسی مفاہمت چاہتے ہیں جس میں ان کی ذاتی سیاست بھی بچ سکے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا کو اپنی خواہش کے باوجود تحریک چلانے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کا خیال ہے کہ اگر نواز شریف اور آصف زرداری متفق ہوں تو وہ دیگر جماعتوں کی مدد سے حکومت کو ایک بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ فضل الرحمن کی دلیل یہ ہے کہ اس وقت حکومت معاشی بحران میں پھنسی ہوئی ہے تو اسے اس موقع پر ریلیف دینا سیاسی خود کشی ہوگی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف حکومت کے خلاف مولانا فضل الرحمن نواز شریف اور زرداری کی مدد سے تحریک چلانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف یہ ہی حزب اختلاف اسٹیبلیشمنٹ سے پس پردہ معاملات بھی طے کرنے کی خواہش مند ہے۔ شہباز شریف کی سیاست کو اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ پیپلز پارٹی بھی اسٹیبلیشمنٹ سے تعاون چاہتی ہے، مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوسکا۔ کیونکہ یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ اس وقت جو بھی تحریک چلے گی اس کا نشانہ حکومت اور اسٹیبلیشمنٹ دونوں ہوں گے اور ایسی صورت میں ان کو اور زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ شہباز شریف او رنواز شریف یا مریم نواز کی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ کچھ تو ہے جس نے ان کی زبان بندی کی ہوئی ہے یا وہ کسی مفاہمت کے تحت خاموش ہیں۔ بلاول بھٹو جن سے پیپلز پارٹی کے نظریاتی لوگوں کو بہت سی امید بندھی تھی، لیکن وہ بھی زرداری کی سیاست میں پھنس کر رہ گئے ہیں اور ان کی متبادل قیادت کی بات بھی کمزور ہوئی ہے۔

جبکہ اس کے برعکس بلاول بھٹو سندھ کارڈکی مدد سے 18 ویں ترمیم، صوبائی خو دمختاری کو بنیاد بنا کر اسٹیبلیشمنٹ پر دباؤ کی سیاست کو بڑھارہی ہے تاکہ کوئی مفاہمت کا راستہ نکل سکے۔ اس لیے پیپلز پارٹی او رمسلم لیگ ن کی قیادت کے سامنے فوری طور پر اسٹیبلیشمنٹ سے ٹکراؤ کی کوئی سیاست بالادست نہیں۔ وہ صرف ابھی حالات کو دیکھ رہے ہیں او راگر عملی طور پر حالات جن میں ذاتی مسائل زیادہ ہیں ان کے ہاتھ سے نکلے تو وہ کسی بڑے فیصلے پر جاسکتے ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے پاس وہ کس ایجنڈے کے تحت جائیں گے۔ کیونکہ آنے والے چند ماہ اور سخت گرمی میں تحریک چلانا ممکن نہیں۔ اگرچہ لوگ حکومتی کارکردگی سے نالاں ہیں لیکن اس رائے کو بھی کیسے قائم کرلیا جائے کہ وہ موجودہ حکومت سے ناکام ہوکر نواز شریف او زرداری کی سیاست کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی ساکھ ایک ایسے فردکی ہے جو اقتدار اور ذاتی مفاد کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اس لیے اگر تحریک چلنی ہے تو اس کا مرکزتو پنجاب ہی ہوگا۔ لیکن پنجاب میں پیپلزپارٹی او رجے یو آئی کی کوئی بڑی سیاسی حمایت نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کی حمایت ہے لیکن شہباز شریف کی موجودگی میں کسی بڑی تحریک کا امکان غالب نظر نہیں آتا۔ کیونکہ مسلم لیگ ن عملی طور پر مفاہمت کی سیاست سے جڑی ہوئی ہے او رمزاحمت کی سیاست ان کے مزاج کاحصہ نہیں ہے۔

اب ماضی کے حالات نہیں۔ اگر تحریک چلے گی تو اس کی بنیاد لوگوں کے عوامی مفادات ہی ہوسکتے ہیں۔ لوگوں اور بالخصوص نئی نسل میں یہ بات کافی حد تک مضبوط کرگئی ہے کہ موجودہ سیاست میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے بقول سیاست کا نام ہی اپنا ذاتی مفاد اور کاروبار بن چکا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن حزب اختلاف کے پیچھے چل کر کوئی بڑی تحریک کے لیے بھی سنجیدہ نہیں۔ ماضی میں کئی سیاسی تحریکوں کو بنیاد بنا کر عملی طور پر سیاسی کارکنوں کا استحصال ہی ہوا ہے، اب یہ ممکن نہیں لگتا۔ حکومت کوحقیقی ڈر اس وقت حزب اختلاف سے نہیں بلکہ اپنی کارکردگی سے ہے۔ اگر اس میں کوئی اصلاح نہ ہوسکی تو حزب اختلاف کچھ بھی نہ کرے تب بھی حکومت کو کسی بڑے بحران سے نہیں بچایا جاسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).