ہزارہ پاکستانیوں کے خلاف دہشت گردی: اک غیرمقبول خیال


آج کل ہزارہ پاکستانیوں کے حوالے سے پاکستان میں اک سوشل میڈیائی گفتگو جاری ہے، تو سوچا کہ ان کے قضیہ کے دو پہلو، جو میرے ذاتی تجربات ہیں، آپ تک پہنچاتا جاؤں۔ تو عرض کیا ہے کہ:

1۔ 2011 میں جب ملک شام میں ”عرب سپرنگ“ پہنچی تو مجھے میرے اک دوست، نوید صاحب نے آبپارہ میں پاکستان میں موجود شامی طلبا و طالبات سے گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وہ بے روزگاری کے دن تھے اور دانشوری کا بھوت سوار تھا۔ عین موجودہ پاکستانی سنت کے مطابق، اک ویہلا آدمی ہی دانشور ہو سکتا ہے تو خادم نے وہاں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سنی اور شیعہ تفاوت کو چھوڑئیے اور کوشش کریں کہ آپ کے ملک میں جو بھی قانون جس بھی حالت میں موجود ہے، اس میں ہی رہ کر اپنے لیے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں۔

اپنے حقوق اور ریاستی جبر کے خلاف ہتھیار اٹھانا بے کار کی مشق ہے۔ میری یہی لائن تھی تو بچوں اور آرگنائزرز نے بلند آواز میں مجھے پھکڑ تولنے شروع کر دیے۔ مجھ سے پہلے، اک ائیرمارشل صاحب سمیت، تمام افراد شام میں در آنے والی عرب بہار کے حق میں تقاریر کر چکے تھے۔ میں ہی اک گندہ انڈہ تھا تو وہاں سے میں نے فورا بھاگنے میں عافیت سمجھی۔ شام میں کتنی اک بہار آئی ہے، یہ آپ سب جانتے ہیں۔

2۔ پاکستانی سنی تو جہادی تھے ہی، مگر عراق اور شام کے قضیوں نے پاکستانی شیعوں کو بھی ایرانی فنڈنگ اور تربیت نے انہی دو ملکوں میں پہنچا دیا۔ کرم ایجنسی کے علاوہ، پاکستان کے تمام صوبوں، بالخصوص لاہور اور کراچی سے بھی شیعہ نوجوانوں کی اک بڑی تعداد زینبیون بریگیڈ کا حصہ بن کر اس جانب روانہ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ کوئٹہ میں موجود ہزارہ ”مجاہدین“ اپنا شیعہ جہاد کرنے شام اور عراق جا پہنچے اور یہ 2012 کی گرمیوں کے وہی دن تھے جن دنوں کراچی میں قتل کر دیے جانے والے جناب خرم ذکی صاحب پاکستان میں بھی ولایت فقیہہ کا علم اٹھائے پھرتے تھے۔

اسلام آباد میں انتہا پسندی کے موضوع پر ہونے والے اک مذاکرے میں خادم نے عراق اور شام میں جانے والے سنی اور شیعہ پاکستانیوں کی وطن واپسی کے بعد، یہاں اک بار پھر سے شروع ہو جانے والی خونریزی پر اپنا خدشہ ظاہر کیا تو خادم کو طالبان کا ہمدرد ہونے کا طعنہ ملا اور وہی صورتحال شیعہ دوستوں کی جانب سے دیکھنے کو ملی جو چند ماہ قبل آبپارہ کے اک چھوٹے سے ہوٹل میں سنی دوستوں کی جانب سے دیکھنے کو ملی تھی۔ میریٹ ہوٹل سے بھی ویسے ہی بھاگنا پڑا جیسے آبپارہ سے بھاگنا پڑا تھا۔

صد افسوس کہ دونوں مواقع پر میرا کھانا بھی مِس ہو گیا!

اک خیال ہے کہ جب عقیدت کے نام پر اپنے اپنے مسلک و فرقہ کا بیانیہ بیچا جانا شروع ہوتا ہے تو عین وہی لمحہ ہوتا ہے کہ جب رک کر، سوچتے ہوئے اور اپنے جذبات کو بریک لگاتے ہوئے اپنے خیال کی گدھا گاڑی کی سمت موڑنا پڑتی ہے۔ وگرنہ پھر ہجرتیں ہوتی ہیں اور پہروں میں پھر سبزیاں بھی خریدنا پڑتی ہیں۔ بریک لگاتے ہوئے اگر اپنے جذباتی خیالات کی گدھا گاڑی کو ہولے ہولے دوسری سمت میں ٹھیک وقت پر موڑ لیا جائے تو بھلے اپنے تئیں کوئی فقیہہ یا امام صاحب بھلے ناراض ہوتے ہوں، خدا کی زمین پر، خدا کی دی ہوئی زندگی ٹھیک رہتی ہے ؛ اپنی بھی اور دوسروں کی بھی۔

آپ جب خلافت یا ولایت فقیہہ قائم کرنے کے لیے نکلتے ہیں تو پھر جہاں خلافت والوں کا زور چلتا ہے، وہ چلاتے ہیں، اور جہاں ولایت والوں کا زور چلتا ہے، وہ چلاتے ہیں۔ ہم جیسے گناہگاروں کا چونکہ زور نہیں چلتا، تو ہم صرف ”چِلا“ ہی سکتے ہیں تو لہذا، وہی اس مضمون میں بھی کر رہا ہوں۔

معاملہ جو بھی ہو، پاکستانی ریاست کی ذمہ داری بہرحال اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ریاست اس معاملہ پر جاگی، مگر ہمیشہ کی طرح دیر سے ہی جاگی۔

اوپر بیان کیے گئے خیال کو کسی طرح بھی سُنی یا شیعہ پاکستانیوں پر تنقید یا ان کی طرفداری نہ سمجھا جائے۔ یہ سچ ہے کہ حصہ بقدر جُثہ، مگر ان دونوں مسالک کے رہنماؤں اور مقلدین کے ہاتھوں پر معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔ خلافت خراسان یا ولایت فقیہہ کا مجھ سے بحثیت اک سیاسی پاکستان نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی دلچسپی ہے۔ مگر یہ خلافت و ولایت کے افغانی، عراقی و شامی جھگڑے کی اک جھلک ہی ہے جو پاکستان میں روز دیہاڑے دیکھنے کو ملتی ہے۔

غیرمقبول خیالات، ضروری نہیں کہ غلط اور جھوٹے خیالات ہوتے ہوں، اس لیے اک سوال یہ چھوڑے جاتا ہوں کہ 2005 سے قبل، کوئٹہ میں بسنے والے ہزارہ النسل پاکستانیوں کے خلاف ایسے بھیانک تشدد کے کتنے واقعات ہو چکے تھے؟

خلافت و ولایت کے دلدادہ، بالخصوص نوجوان، پاکستان کے ماضی اور حال میں جاری تشدد کی تباہی سے اپنے اپنے سبق سیکھیں اور اپنے اپنے مسالک کی پرتشدد تشریحات کی گھمن گھیریوں میں جانے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آج اگر آپ کا زور چلتا ہے تو آپ پر کل کسی اور کا زور بھی چلے گا۔ آج آپ کا تشدد کسی کو کھائے گا تو کل، کسی اور کا تشدد آپ کو کھائے گا۔ اور یہ کام تو جانور بھی کم کم کرتے ہیں، آپ کم از کم نظر تو اشرف المخلوقات آتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).