شہری اور دیہی سندھ کی نمائندہ سیاسی جماعتوں میں چپقلش


سندھ کی سیاست کی میں تین عشروں سے وقتاً فوقتاً حریف و حلیف رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان آج ایک بار پھر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دونوں جماعتوں کے درمیان تازہ ترین چپقلش دراصل صوبہ سندھ میں وہ اس لسانی تفریق کا شاخسانہ ہے جس نے صوبے کو کئی دہائیوں سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس لسانی تفریق نے بعض اوقات ایسی خونیں صورت اختیار کی کہ اس نے پورے صوبے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔

ماضی میں صوبے کے گلی کوچوں نے جو قیامت خیز مناظر دیکھے، خدا وہ وقت دوبارہ نہ دکھائے کہ بوڑھے ہاتھوں نے جوان لاشوں کو قبروں میں اتارا۔ بوڑھی آنکھوں نے جوان بیٹوں کو اپنے سامنے دم توڑتے دیکھا، دلہنوں کے ہاتھوں پر چڑھا رنگ حنا ابھی اترا بھی نہ تھا کہ ان کے سہاگ دنیا سے اٹھ گئے، ابھی نومولودوں نے شفقت بھرے ہاتھوں کے لمس کو چھوا نہ تھا کہ وہ ہاتھ کاٹ دیے گئے۔ سندھ کی داستان بہت کربناک ہے اور اسے اپنوں کے مذموم عزائم اور سیاہ کرتوتوں نے اور زیادہ المناک بنا دیا۔

شاہ لطیف، سچل سرمست اور لال شہباز قلندر کی نسبت سے یہ صوفیاء کی سر زمین ہونے کے ناطے سب سے پر امن ہونی چاہیے لیکن یہاں لسانیت، نفرت اور انتقام نے سب سے زیادہ خون بہایا۔ سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں تفاوت کچھ عجب نہیں کیونکہ پاکستان کے دوسرے صوبوں کے شہری اور دیہی علاقوں میں بھی یہی فرق پایا جاتا ہے۔ لاہور کے مقابل میانوالی کا تقابل کیا جائے تو زمیں آسمان کا فرق محسوس ہوگا اور پشاور کے مقابلے میں کرک کسی ازمنہ وسطیٰ کا علاقہ لگے گا۔

لیکن وہاں اس فرق نے شہری اور دیہی علاقوں کو کچھ اس انداز سے ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار نہیں کیا جس طرح سندھ میں ہوا۔ شہری علاقوں میں اکثریتی مہاجر کمیونٹی کی نمائندہ ایم کیو ایم نے لسانیت کو جس طرح ہوا دی اس نے کراچی میں بد امنی اور فسادات کے ایسے کریہہ صورت مناظر چھوڑے کہ آج تک اس کی بد صورتی میں شہری سندھ پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کچھ کم قیامت نہ ڈھائی کہ سندھ میں آکر اس کا قومی کردار یکلخت ایک دیہی سندھ کی جماعت کا ہو جاتا ہے۔

اس حقیقت میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ آج پی پی پی سندھ کے دیہی حلقوں تک محدود ہو چکی ہے اور اس کا سندھ کے شہری حلقوں میں اثر و نفوذ اب تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔ شہری سندھ کے سب سے بڑے مرکز کراچی میں اب تحریک انصاف سب سے بڑی انتخابی قوت ہے جب کہ پی پی پی دس سالوں تک صوبائی حکومت میں برسر اقتدار ہونے کے باوجود شہر ی علاقوں میں اپنی سیاسی و انتخابی قوت بڑھانے سے قاصر ہے۔ پی پی پی کی صوبائی حکومت کی بیڈ گورننس اب ایک چلتا پھرتا اشتہار ہے اور یہ اشتہار سندھ بالعموم اور کراچی بالخصوص میں ہر جگہ نمایاں ہے۔

تازہ ترین پی پی پی اور ایم کیو ایم کی آویزش موخر الذکر کی جانب سے سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ کی جانے والی مبینہ زیادتیوں سے پھوٹتی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے شہری علاقوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر وزیر اعظم عمران خان سے صوبے میں مداخلت کا بھی مطالبہ کردیا ہے جو آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت کیا جا سکتا ہے۔ اس نوع کا مشورہ وفاقی کابینہ میں ایم کیو ایم کے کوٹے سے بننے والے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم پہلے ہی وزیر اعظم پاکستان کو دے چکے ہیں۔

صوبے میں وفاق کی مداخلت کا مشورہ ایک نہایت ہی نامناسب اقدام ہے جس سے حالات سدھار کی بجائے بگاڑ کا شکار ہوسکتے ہیں کیونکہ ماضی میں اس نوع کے حکومتی اقدامات ثمر آور ثابت نہ ہوئے۔ تاہم ایم کیو ایم کی صوبے سے ضلعی حکومتوں کو اختیارات اور وسائل کی تقسیم اور منتقلی پر شکایت جائز ہیں جن کا ازالہ ایم کیو ایم کی بجائے سندھ کے شہری علاقوں کے مفاد میں ہوگا۔ کراچی کی ابتر حالت اس بات کی شاہد ہے کہ یہ صوبائی حکومت کے سوتیلے رویے کا شکار ہے۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری جب کراچی کو اپنا پسندیدہ شہر قرار دیتے ہیں تو وہ تھوڑا سا تردد کر کے صوبائی حکومت کو بھی پابند کریں کہ وہ اس شہر کی حالت زار پر خدارا رحم کرے کہ جو اس وقت کچرے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔ صوبائی حکومت کی بے توجہی کا شکار کراچی شہر اگر ماضی میں لسانی بل اور کوٹہ سسٹم کے نفاذ سے پی پی پی کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا تو آج یہ پی پی پی کی صوبائی حکومت کی نا اہلی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے اس سے فاصلہ کیے ہوئے ہے۔

سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر ووٹر ایم کیو ایم کی پالیسیوں سے برگشتہ ہو کر تحریک انصاف کی جانب جھکا اور اس نے ملک دشمنی کے نعرے لگانے والوں کو مسترد کر کے پاکستان سے اپنی وفاداری کا عملی ثبوت دیا تاہم جس طرح مہاجر ووٹر اس وقت بے یارو مددگار ہے وہ دوبارہ ان قوتوں کو سازگار ماحول فراہم کرسکتا ہے جو لسانیت کے نام پر مذموم مقاصد کی آبیاری میں طاق ہو چکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت وسعت قلبی کا مظاہرہ دکھائے اور سرکاری ملازمتوں، وسائل اور اختیارات میں سندھ کے تمام باسیوں کی منصفانہ شرکت کو یقینی بنا کر اپنے اوپر دیہی سندھ کی نمائندہ جماعت ہونے کی چھاپ کو زائل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک حقیقی جمہوری سیاسی جماعت ہونے کے دعوے کو بھی سچ کر دکھائے جو شراکتی جمہوریت کے ساتھ ساتھ شراکتی ترقی کی بھی علمبردار ہے وگرنہ خالی خولی جمہوریت کا ڈھول پیٹنے سے کب کوئی جمہوری کہلایا کہ آپ کی تاج میں بھی یہ کلغی سج سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).