پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کیوں مانے جائیں؟


فروری 2018 کو محسود تحفظ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے جڑے گنتی کے ساتھیوں نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر سیاسی جدوجہد میں حقوق کے حصول تک ساتھ جینے اور مرنے کی قسم کھائی۔ پہلے پہل پی ٹی ایم کے چار مطالبات تھے۔

1: فاٹا کے گمشدہ افراد کو عدالتوں میں پیش کر کے قصور وار ہونے کی صورت میں سزا دی جائے یا معصوم ہونے کی صورت میں رہا کیا جائے۔

2: خزانے کی طرح زمین میں چھپائے گئے لینڈ مائنز کے شکار افراد کے لئے معاوضے کا بندوبست کیا جائے اور علاقہ لینڈ مائنز سے صاف کیا جائے۔

3: آرمی چیک پوسٹوں پر روا رکھا جانے والا توہین آمیز رویہ درست کیا جائے۔

4: ہر چھوٹے بڑے واقعے کے بعد علاقے بھر میں کرفیو کے نفاذ کا سلسلہ ختم کیا جائے۔

نوٹ: مبینہ طور پر ایس پی راؤ انوار کے ہاتھوں نقیب محسود کے قتل کے بعد راؤ انوار کو سزا دینے کا مطالبہ بھی ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔

اس کے علاوہ Truth And Reconciliation Commission کا قیام بھی مطالبات کا حصہ بنا دیا گیا۔

فروری 2018 کی یخ بستہ راتوں میں محسود تحفظ موومنٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان سے پشاور اور پھر پشاور سے اسلام آباد تک کا رخت سفر باندھ لیا۔ راستے میں بنوں کے مقام پر پاکستان اور پاکستان سے باہر آباد پشتون آبادی کی حمایت کے پیش نظر محسود تحفظ موومنٹ کا نام تبدیل کر کے پشتون تحفظ موومنٹ رکھا گیا۔ اسلام آباد پریس کلب کے سامنے کم و بیش دو ہفتے تک دھرنا دینے کے بعد اس وقت کے وفاقی وزیر امیر مقام نے وزیر اعظم و آرمی چیف کی ایما پر پی ٹی ایم کے مطالبات کو آئینی اور قانونی قرار دیا اور ایک معاہدے کی شکل میں پی ٹی ایم کے مطالبات پر عمل کرنے کی یقین دہانی بھی کرا دی گئی۔

ایک سال میں بقول منظور پشتین، کوئی مطالبہ بھی حل نہیں کیا گیا ہے۔ حتی کہ مطالبات کے حل کے لئے ابتدائی اقدامات ہی نہیں کئے گئے۔ جس سے گمشدہ افراد کے لواحقین، نقیب محسود کے ورثاء، لینڈ مائنز کے سبب ہلاک ہوئے افراد کے ورثاء اور لینڈ مائنز کے شکار معذور افراد کی تسلی و تشفی ہو سکے۔ اس نے بار ہا مقتدر قوتوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جس دن پی ٹی ایم کے مطالبات من و عن پورے کیے جائیں گے۔ اسی دن پی ٹی ایم کو بھی تحلیل کر دیا جائے گا۔

پچھلے ایک سال میں پاک فوج کے ترجمان جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم اور منظور پشتون کے حوالے سے کئی بیانات دیے۔ جن میں کئی بیانات وعدوں اور کئی بیانات پی ٹی ایم کے لئے ہدایات پر مبنی تھے۔ سب سے پہلے 28 مارچ 2018 کو جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں منظور پشتین کی تعریف کرتے ہوئے اسے ”ونڈر فل ینگ بوائے“ کہا۔ اس کے مطالبات کو آئینی دائرے کے اندر بتاتے ہوئے انہیں جلد از جلد پورا کرنے کا وعدہ کیا۔ اسی طرح 6  دسمبر 2018 کو ایک پریس کانفرنس میں جنرل آصف غفور نے کہا کہ کئی اضلاع میں 43 فوجی ٹیمیں لینڈ مائنز صاف کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ ان ٹیموں نے لینڈ مائنز سے % 44 علاقہ کلئیر کر دیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر  نے اسی دن گمشدہ افراد کے کیسز کے حوالے سے بتایا کہ 7000 کیسز میں سے 4000 کیسز حل کر دی گئے ہیں اور باقی کیسز پر کام جاری ہے۔ اس نے مزید کہا کہ فاٹا میں چیک پوسٹوں کی تعداد میں بھی واضح کمی لائی گئی ہے۔

اسی تناظر میں پی ٹی ایم کا موقف ہے کہ ایک سال میں چار ہزار کیسز حل نہیں کیے گئے ہیں بلکہ مزید افراد لاپتہ کیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں جو بیسیوں لاپتہ افراد اپنے گھر واپس پہنچے ہیں۔ وہ قابل رحم ذہنی و جسمانی حالت میں ہوتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا ہوتا ہے کہ اگر ان پر ہوئے ظلم و جبر کی داستان الم کو عوام میں عام کیا گیا تو انہیں دوبارہ اٹھا لیا جائے گا۔ فاٹا میں CMDO نامی این جی او کے 2005 میں کیے گئے سروے کے مطابق لینڈ مائنز کے 5000 متاثرین ہیں۔

فروری 2018 میں منظور پشتون نے لینڈ مائنز کے 74 متاثرین کے لئے آواز اٹھائی تھی۔ اب یہ تعداد 100 کا ہندسہ عبور کر گئی ہے لیکن مبینہ طور پر لینڈ مائنز سے کلئیر کیے گئے علاقوں میں لگاتار بچے، بوڑھے اور جانور لینڈ مائنز کے دھماکوں کے شکار بن رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایس پی راؤ انوار مجرم ثابت ہونے کے باوجود تاحال آزاد گھوم رہا ہے۔ چیک پوسٹوں کی کمی کی بات بھی محض دعوی ہی ہے۔ کیوں کہ چیک پوسٹوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال بلوچستان کے پشتون بیلٹ کے دس اضلاع میں قائم کی گئی نئی چیک پوسٹیں ہیں۔

علاوہ ازیں پچھلے ایک سال میں پی ٹی ایم کے محدود مطالبات کو آئینی و قانونی کہنے اور ماننے کے باوجود مقتدر حلقوں نے ابھی تک ایک مطالبہ تک پورا نہیں کیا ہے۔ البتہ مقتدر طبقے نے پی ٹی ایم کے مطالبات بڑھانے، انہیں تشدد پر اکسانے، انہیں غدار ثابت کرنے اور بے جا تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ تیرہ مہینوں میں ڈیرہ اسماعیل خان، وزیرستان، کراچی، لورالائی، پشاور اور دیگر علاقوں میں پی ٹی ایم کے اہم راہنما اور کارکن مارے گئے۔

کئیوں کو گرفتار اور حبس بے جا میں رکھا گیا۔ جن میں چند تاحال مقید ہیں۔ پی ٹی ایم کے سرکردہ راہنماؤں اور سینکڑوں کارکنان پر ایف آئی آر درج کیے گئے ہیں۔ پی ٹی ایم کے ارکان کو مختلف طور طریقوں سے ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے۔ جس سے پی ٹی ایم تحریک دبنے کی بجائے سپرنگ کی مانند مزید ابھر رہی ہے۔ اگر ریاست پی ٹی ایم کو غدار تنظیم اور نت نئے الزامات سے مخاطب کرنے کی بجائے پی ٹی ایم کے مطالبات پر توجہ دیتی۔ بنیادی انسانی، آئینی اور قانونی مطالبات کو حل کرتی تو آج پی ٹی ایم کے وجود کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ جو طبقات اس تحریک سے جڑ گئے ہیں، ریاست انہیں بھی جواز فراہم کر رہی ہے۔ کیونکہ جب تک متعلقہ مسائل کا موثر اور دیرپا حل نہیں ڈھونڈا جاتا۔ تب تک فوجی آپریشنز، دہشت گردی، بد امنی اور ریاستی عدم توجہی کے شکار پی ٹی ایم سے جڑے لوگ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

اگر یہی صورت حال رہی تو پی ٹی ایم اور مقتدر طبقے کے درمیان خلیج مزید بڑھے گی۔ جس کا نقصان پی ٹی ایم اور حکومت کی بجائے پاکستان کی آئینی اور جمہوری اساس کو ہوگا۔ اس وقت پی ٹی ایم ایک موثر تنظیم کے طور پر ابھری ہے۔ ریاست کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ یا تو تحریک کے مطالبات مان کر پچھلے ایک سالہ غیر سنجیدہ رویے پر معافی مانگی جائے، یا موثر طور پر اپنا وجود ثابت کرنے والی عدم تشدد کے فلسفے پر عمل پیرا غیر پارلیمانی تنظیم پی ٹی ایم کے آئینی، جمہوری اور قانونی مطالبات سے بھرپور بیانیے کی مخالفت کر کے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).