دھرتی ماں بچے اور کہانیاں


کہتے ہیں بچہ چاہے کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے ماں کے لیے بچہ ہی رہتا ہے۔ خود مشکل میں رہ کر ماں ہمیشہ اپنے بچے کو آسانی میں دیکھنا چاہتی ہے۔ کوئٹہ کی ماں مگر چاہ کر بھی اپنے بچے کے لیے آسانی نہیں دیکھ پا رہی اور مسلسل مشکل سے بھی دوچار ہے۔ آئے روز ہزارہ قبیلے کا قتلِ عام کیا حال کرتا ہو گا اس ماں کو جو اپنے بچے کی لاش ٹکڑوں میں بکھری دیکھتی ہو گی۔ کب تک یوں لوگ دہشت گردی کے بھینٹ چڑھتے رہیں گے؟

یہ سوچ رہا تھا کہ عمران خان کے حامی دوست تشریف لائے۔ کہنے لگے یار خان صاحب چاہتے تو باہر آرام اور عیش سے اپنی زندگی گزار سکتے تھے۔ انھیں پاکستان اور اس میں بسنے والے ہر باشندے کی فکر یہاں لائی۔ زداری اور شریف کو دیکھا کیا حال کیا۔ ویسے بھی یہاں سب چور ہیں اور دیکھنا کیا حال ہو گا ان کا کہہ کر چلتا بنے۔

میں مگر سوچتا ہی رہا کہ آخر کو ہو کیا گیا ہے ہمیں۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو اسلام تک قبول کرانے کی سوچ والی دوراندیش قوم کیسے اتنی بے حس ہو سکتی ہے۔ پھر خیال آیا لوگ تو ایسے ہی جانیں گنواتے رہیں گے خطرہ تو صرف اسلام کو ہے لوگ تو ہیں ہی مرنے کے لیے۔

ابھی اسی ذہنی خلفشار میں تھا ہی کہ ایک اور دوست کی آمد ہو گئی۔ کہنے لگے یار ملک میں آج کل حالات بڑے خراب ہیں ویسے کیا دور تھا فوجی حکمرانوں کا ترقی ہی ترقی۔ سیاسی تو چور ہی ہیں سارے ویسے یہ جو صدارتی نظام کی بات چل رہی ہے میں تو اس کے حق میں ہوں۔ اور فوجی تو یار ملک و قوم کے لیے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے کہہ کر چلے گئے۔ مجھے کوئٹہ کی مائیں اور ان پہ ڈھائی گئی قیامت کے ادراک میں ہمت نہ ہوئی یہ کہنے کی کہ وہ قربانی بھلے ملک ہی قربان کرنا کیوں نہ ہو!

میں اب فیض احمد فیض کے ان اشعار کے ساتھ کسی اگلے آنے والے دوست کا انتظار کر رہا ہوں۔ جو آ کے مجھے کفار کی سازشیں اور مسلم امہ کو لاحق خطرات کو لیے ایک لمبی چوڑی کہانی سنائے گا۔

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضں ِ وطن

جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں

کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا

کتنے آنسو ترے صحراوں کو گلزار کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).