اپوزیشن دیوار سے لگ گئی‘ حکومت کی ستے خیراں


’ڈیل یا ڈھیل‘‘ کی سرگوشیاں کئی ہفتے چلیں۔ دریں اثناء نواز شریف صاحب کو خرابی صحت کی بنیاد پر چھ ہفتوں کی رہائی نصیب ہوئی۔ ان کی ضمانت ہو جانے کے بعد تاثر یہ فروغ پانے لگا کہ شہباز شریف کی Pragmaticتصور ہوئی حکمت عملی Deliver کرنا شروع ہو گئی ہے۔

اس حکمت عملی کی ستائش کے ساتھ ہی ساتھ ریگولر اور سوشل میڈیا پر عمران حکومت کے بارے میں مایوسی کا تاثر پھیلنا شروع ہوگیا۔ چند مبصرین نے ’’اِن ہائوس‘‘ تبدیلی کے امکانات کا ذکر شروع کردیا۔ مولانا فضل الرحمن کے تجویز کردہ دھرنے کی ممکنہ تاریخیں بھی طے ہونے لگیں۔

میڈیا میں ’’حرکت تیز تر ہے‘‘ والی گہماگہمی برپا رکھنا اس دھندے کی پیشہ وارانہ مجبوری ہے۔ کسی حکومت کے بارے میں ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ والا ماحول اخباری کالموں اور ٹی وی سکرینوں کو پُررونق بنا دیتا ہے۔ اس رونق سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مگر ہم بھول جاتے ہیںکہ آصف علی زرداری کے ایوانِ صدر پہنچتے ہی 2008کی آخری سہ ماہی میں بھی ایسا ہی ماحول بن گیا تھا۔

تمام تر شوروغوغا کے باوجود آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں پانچ سال مکمل کرتے ہوئے ایک حوالے سے گویا تاریخ بنادی۔ ان کے لگائے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے راجہ پرویز اشرف کے ذریعے اپنی آئینی مدت مکمل کی۔

نواز شریف کی تیسری حکومت کی ’’رخصت‘‘ کا اہتمام بھی نظر بظاہر 2014کے اسلام آباد میں عمران خان کی جانب سے دئیے دھرنے کے ذریعے ہوگیا تھا۔ 126دن کا دھرنا مگر اپنا ہدف حاصل نہ کرپایا۔ بعدازاں اپریل 2016کے آغاز ہی میں پانامہ پیپرز منظرعام پر آئے۔ ان کی بدولت نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے اور تاحیات نااہل کروانے میں ایک سال لگا۔

ان کی نااہلی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (نون) کی حکومت نے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم کے منصب پر بٹھاکر آئینی مدت مکمل کی۔ ’’ڈیل یا ڈھیل‘‘ والی سرگوشیاں مجھے اس تناظر میں کبھی توقعات باندھنے کو قائل نہ کرپائیں۔ شہباز شریف کے Pragmatic رویے کی ’’برکات‘‘ دریافت نہ کرپایا۔

گزشتہ ہفتے کے آغاز سے بلکہ اس لائن کی Limitationsعیاں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ منی لانڈرنگ کی کہانیاں ہیں۔ ’’فالودے والے‘‘ کے بعد اب ’’پاپڑ بیچنے والا‘‘ ٹی وی سکرینوں کو پررونق بنارہا ہے۔ شہباز شریف کے دونوں فرزند ہی نہیں اہلیہ اور بیٹیاں بھی نیب کے اٹھائے سوالات کا جواب تیار کرنے میں مصروف ہیں۔

منی لانڈرنگ سے جڑی داستانوں کا عدالتی عمل کے ذریعے منطقی انجام کیا ہونا ہے اس کے بارے میں حتمی رائے دینے کی حماقت کا ارتکاب کرنے کی جرأت سے محروم ہوں۔ سیاسی حرکیات کا طالبعلم ہوتے ہوئے البتہ یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ اسد عمر کے بنائے پہلے بجٹ کی تیاری کے موسم میں منی لانڈرنگ سے جڑے قصے عمران حکومت کے بہت کام آئیں گے۔

تحریک انصاف کی قیادت ان قصوں کی بدولت اپنی Core Constituency کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگی کہ ان پر نازل ہوئی مہنگائی اور گھروں میں آئے بجلی اور سوئی گیس کے بلوں کی وجہ سے ملی اذیت کا اصل سبب گزشتہ حکومتوں کی بے رحمی اور سفاکی ہے۔

’’باریاں لینے والے‘‘ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنے کاروبار کو پھیلاتے رہے۔ منی لانڈرنگ کے ذریعے غیر ملکوں میں قیمتی جائیدادیں خریدتے رہے۔ ان کا احتساب ضروری ہے اور عمران حکومت حساب لینے پر ڈٹی ہوئی ہے۔ NROدینے کو تیار نہیں۔

نیب دفاتر اور عدالتوں میں پیش ہوتی سیاسی قیادت کے پاس اس تاثر کو رد کرنے والا ٹھوس بیانیہ موجود نہیں۔ فقط یہ اُمید لگائے بیٹھی ہے کہ حکومت اپنی ’’نااہلی‘‘ کے باعث خود بخود ’’ڈھے‘‘ جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کا جواب کسی کے پاس موجود نہیں۔عمران مخالف سیاسی قوتوں کی امید بھری خاموشی اسد عمر کو اپنا بجٹ تیار کرنے اور اسے قومی اسمبلی سے پاس کروانے میں بہت مدد گارثابت ہوگی۔

ماہِ رمضان ہماری ثقافت میں لوگوں کو ’’دُنیاوی‘‘ مسائل کو نظرانداز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کے بعد عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ’’تہواری‘‘ ماحول ایک ہفتے تک برقرار رہتا ہے۔ ملکی معیشت کی بدولت روزمرہّ زندگی میں درپیش مسائل کی شدت جولائی 2019سے محسوس ہونا شروع ہوگی۔

اس شدت کو سیاسی اعتبار سے Cashکرنے کے لئے مختلف مقدمات میں الجھی سیاسی قیادت کو حوصلہ افزاء ماحول نہیں مل پائے گا۔ عمران حکومت کے لئے فی الوقت لہٰذا ستے خیراں ہیں۔ طویل المدتی تناظر میں اگرچہ عمران حکومت کو قانونِ تقلیل افادہ کی اہمیت بھی دریافت کرنا ہوگی۔

معاملہ یقینا ’’مائنس نواز‘‘ یا ’’مائنس آصف علی زرداری‘‘ تک محدود نہیں رہا۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) اور پاکستان پیپلز پارٹی اجتماعی طورپر دیوار سے لگی نظر آرہی ہیں۔ مہنگائی کی لہر جاری رہی۔ ملکی معیشت مسلسل کساد بازاری کا شکار رہی۔ بھارت سے کشیدگی برقرار رہی۔ افغانستان میں امن بحالی کی کوششوں میں تیزی نظر نہ آئی تو ان سب معاملات کے لئے فقط احتساب عدالتوں میں پیش ہوتی سیاسی قیادتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے سے عام آدمی کی تسلی نہیں ہو گی۔

وہ اپنے دلوں میں اُبلتی پریشانیوں کے اظہار کے لئے ’’ترجمانوں‘‘ کا منتظر رہے گا۔ روایتی سیاست اس ترجمانی کے قابل نہ رہی تو فرانس کی طرح پیلی جیکٹوں والے نمودار ہو جائیں گے۔

حال ہی میں جو مناظر الجزائر اور سوڈان میں نظر آئے پاکستان کی شاہراہوں پر بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ ان کے تدارک کی حکمت عملی حکومتی حلقوں میں نظر نہیں آ رہی۔ فالودہ اور پاپڑ بیچنے والوں کے نام سے Money Transactionsزیادہ عرصے تک ہمارے دل بہلا نہیں پائیں گی۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).